جن سے اختلاف ہے، ان سے بات کریں: جرمن صدر کا پیغام

Frank-Walter Steinmeier

Frank-Walter Steinmeier

جرمنی (جیوڈیسک) جرمن صدر فرانک والٹر شٹائن مائر نے کرسمس کے مسیحی تہوار کے موقع پر اپنے پیغام میں کہا ہے کہ جرمن عوام کو اپنے ملک میں جمہوریت کو مکالمت کے ذریعے مزید مضبوط بنانا چاہیے۔ انہوں نے کہا، ’’جن سے اختلاف ہے، ان سے بات کریں۔‘‘

وفاقی جرمن سربراہ مملکت شٹائن مائر نے کرسمس سے ایک روز قبل پیر چوبیس دسمبر کو اپنے ہم وطن باشندوں سے سالانہ خطاب میں کہا کہ جرمن عوام مصالحت پر آمادگی کے ساتھ اس سماجی تقسیم کا راستہ روک سکتے ہیں، جس کا اس وقت جرمن معاشرے کو سامنا ہے۔

جرمنی میں مساجد کے دروازے سب کے لیے کھول دینے کا دن سن 1997 سے منایا جا رہا ہے۔ یہ ٹھیک اس روز منایا جاتا ہے، جس روز جرمنی بھر میں یوم اتحاد کی چھٹی ہوتی ہے۔ اس دن کا تعین جان بوجھ کر مسلمانوں اور جرمن عوام کے درمیان ربط کی ایک علامت کے تناظر میں کیا گیا تھا۔ جرمنی میں مسلمانوں کی مرکزی کونسل کے مطابق آج کے دن قریب ایک لاکھ افراد مختلف مساجد کا دورہ کریں گے۔

فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ اس وقت کئی ممالک میں دیکھا جا سکتا ہے کہ اگر کسی معاشرے کے مختلف طبقات آپس میں مکالمت کا راستہ ترک کر دیں، تو نتائج کیا نکلتے ہیں۔

انہوں نے اس سلسلے میں فرانس میں کئی ہفتوں سے جاری پرتشدد عوامی مظاہروں، امریکا میں پائی جانے والی گہری سیاسی تقسیم اور برطانیہ کے یورپی یونین سے آئندہ اخراج یا بریگزٹ کے باعث پائی جانے والی واضح عوامی دھڑے بندی کا بھی خاص طور پر ذکر کیا۔

اپنے کرسمس پیغام میں جرمن صدر شٹائن مائر نے کہا کہ جہاں دوسروں کے بارے میں لاعلمی ہو اور آگہی کا فقدان ہو، وہاں کئی طرح کے خوف جنم لینے لگتے ہیں۔ لیکن خوف کے ایسے احساسات پر قابو پانے کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ کسی بھی معاشرے کے تمام نسلی، مذہبی اور سماجی طبقات آپس میں مکالمت کی راہ اختیار کریں۔

صدر شٹائن مائر نے کہا، ’’جرمنی اس بات کا متحمل نہیں ہو سکتا کہ اس کے مختلف سماجی دھارے ایک دوسرے سے دور ہٹنے لگیں۔‘‘ جرمن سربراہ مملکت نے یہ اعتراف بھی کیا کہ چند روز بعد ختم ہونے والے سال 2018ء میں جرمنی میں سیاسی اور سماجی سطح پر پایا جانے والا اختلاف رائے بہت بلند آواز اور شدید ہو گیا۔ تاہم اس سماجی تقسیم اور سیاستدانوں اور عوام کے مابین پائے جانے والے دوری کے احساس کا علاج یہی ہے کہ عوام بحیثیت مجموعی اختلاف رائے کے بارے میں مثبت رویے اپنائیں۔

اے ایف ڈی کا کہنا ہے کہ یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو بند کر دینا چاہیے تاکہ غیر قانونی مہاجرین اس بلاک میں داخل نہ ہو سکیں۔ اس کا یہ بھی کہنا ہے کہ ملکی سرحدوں کی نگرانی بھی سخت کر دی جائے۔ اس پارٹی کا اصرار ہے کہ ایسے سیاسی پناہ کے متلاشی افراد کو فوری طور پر ملک بدر کر دیا جائے، جن کی درخواستیں مسترد ہو چکی ہیں۔

صدر شٹائن مائر نے اپنے پیغام میں کہا، ’’یہی دوری اور معاشرتی غصہ سوشل میڈیا سے لے کر عوامی زندگی تک میں نظر آتے ہیں۔ ان کا تدارک اس طرح ممکن ہے کہ جن سماجی طبقات کی سوچ کے ساتھ اختلاف رائے پایا جاتا ہو، انہیں نظر انداز کرنے کے بجائے ’مختلف سوچ کے حامل‘ ایسے طبقات کے ساتھ بات چیت اور سماجی مکالمت کو ہی اپنا راستہ بنایا جائے۔‘‘

فرانک والٹر شٹائن مائر نے کہا کہ سماجی وحدت اور مجموعی اتفاق رائے اس وقت ممکن ہوتے ہیں، جب عوام انفرادی اور اجتماعی سطح پر مصالحت پسندی کی سوچ اپنائیں اور دوسروں کو اختلافی سوچ کا حق دیتے ہوئے تعمیری رویے اپنائے جائیں۔

جرمنی میں سال رواں کے دوران مہاجرین مخالف سیاسی قوتوں اور اسلام مخالف سوچ کے کافی حد تک پھیلاؤ کے تناظر میں صدر شٹائن مائر نے کہا کہ یہ صورت حال اس امر کی متقاضی ہے کہ ملک میں جمہوریت کو مزید فروغ دیا جائے۔ انہوں نے کہا، ’’جرمن عوام اپنے وطن میں جمہوریت کو مزید فروغ اس طرح دے سکتے ہیں کہ آپس میں ہر موضوع پر مکالمت کی جائے۔‘‘