جرمن ریلوے میں جس کی عمر 178 سال ہونے کو ہے عملہ ضرورت سے زیادہ تھا جرمنی میں سب سے پہلی ریل گاڑی 1835 میں نیورمبر گ سے قریبی قصبے فورتھ تک چلائی گئی تھی ریلوے کے عملے کی تعداد کم کر کے ضرورت کے مطابق رکھی گئی تھی تاکہ ریلوے کو ایک جدید منافع بخش اور فعال محنتی ادارے کی طرح مسابقت اور موئثر کارکردگی کا مظاہرہ کر سکے 1994 ء میں مغربی جرمنی میں ریلوے ملازمین کی تعداد 205581 تھی جبکہ ملک کے مشرقی حصے میں ریلوے کے عملے کی تعداد 137271 تھی 1998ء سے جو ریلوے کے پورے نظام کو چلا رہے تھے اس وقت ریلوے کے مجموعی اخراجات کی رقم میں سے اسی فیصد رقم عملے کے مجموعی اخراجات کی رقم عملے کی تنخواہوں پر خرچ ہوتی تھی جس کی وجہ سے بجٹ کا کوئی منصوبہ کارگر نہیں ہوتا۔
جرمن ریلوے، افریقہ سے منصوب اس کہاوت کے مطابق کام کرے اور مستعار رہے جس میں کہا گیا تھا کہ افریقہ میں غزال(ہرن) ہر صبح بیدار ہو کر سوچتا ہے کہ اگر زندہ رہنا ہے تو تیز ترین شیر سے زیادہ رفتا ر سے دوڑنا ہوگا جب کہ شیر صبح اٹھ کر یہ سوچتا ہے کہ اس کی رفتار سب سے کم رفتار ہرن سے کم ہر گز نہیں ہونی چاہیئے ریلو ے کے چئیرمین کا کہنا ہے کہ اس کہاوت میں ہمارے لئے سبق یہ ہے۔
خواہ ہم شیر ہوں یا ہرن ہمیں ہر صورت دوڑنا ہے ریلوے میں اصلاحات کے پروگرام کو صدی کا منصوبہ قرار دیا گیا تھا کیونکہ ہنز دوڑ کے بقول یہ جرمنی اور صنعتی تا ریخ کا منفرد منصوبہ تھا کیونکہ تقریبا 25بلین مارک مالیت کی فروخت کے بعد کمپنی سول سروس ضابطوںاور بجٹ قوانین سے مستشنی ٰ ہو جائے گی ۔ریلوے کی کارکردگی بہتر بنانے کے پروگرام کے تحت تیز رفتار انٹر سٹی ایکسپریس ٹرین چلائی گئی تھی جس کے ہینور دوزبرگ اور مان ہائیم شڈگارٹ روٹ پر نئی پٹریاں بچھانے اور سرنگوں کی تعمیر پر 16بلین مارک خرچ ہوئے ہیں اس نئی تیز رفتار ریلوے سروس کی وجہ سے فضائی سفر کرنے والے بہت سے لو گوں کے علاوہ شاہرائوں پر موٹر کاروں کے ذریعے سفر کرنے والے دس فیصد مسافر اب ٹرین سے استفادہ کر رہے ہیں۔
ریلوے کی طرف سے اس رجحان کی وجہ یہ ہے کہ انٹرسٹی ایکسپریس ٹرین کا سفرآرام دہ ہے اور سفر کا درانیہ بھی کم ہے دوسری نسل کی جدید ٹرینیں جو کہ گذشتہ سال چلنا شروع ہو گئی ہیں وہ نہ صرف وزن کے اعتبار سے زیادہ ہلکی ہیں بلکہ ان میں کئی اور خوبیاں بھی ہیں، غیر منافع بخش مقامی روٹس پر سروس چلانے کے لئے وفاقی حکومت توازن قائم رکھنے کے لئے سالانہ سات بلین مارک سے زیادہ اعانت دے رہی ہے1996 سے لوکل ٹریفک کی زمہ داری وفاقی صوبے اور مقامی انتظامیہ برداشت کر رہی ہے اس مد میں صوبوں کی مدد کرنے کے لئے انہیں تیل پر ٹیکس کی آمدنی میں حصہ دیا گیا ہے جو تقریبا نائن بلین مارک ہے۔
Trains
ریلوے کو سب سے زیادہ آمدنی مسافر وں کی ٹریفک سے ہوتی ہے جس کا تخمینہ دس بلین مارک سے سالانہ لگایا گیا ہے اس لئے مسافر ریل گاڑیوں کے نظام کوفروغ دیا جا رہا ہے ریلوے کو جدید بنانے اور صوبوں کی فیصلہ کن شراکت کے عمل کے پیش نظر صرف وفاقی صوبوں میں ریل گاڑیوں کے لئے 450 نئے مسافر ڈبوں کی تیاری تقریبا مکمل ہے ان میں ڈبل ڈیک قسم کے 180 ڈبے شامل ہیں جرمن ریلوے نے ایک نئی اور شاندار سکیم بھی مکمل کر لی ہے جس کے تحت ہفتہ وار تعطیل کے دو دنوں کے لئے خصوصی ہیپی ویک اینڈ ٹکٹ جاری کئے گئے ہیں شروع میں اس ٹکٹ کی قیمت پندرہ مارک تھی اس ٹکٹ سے تمام ایکسپریس اور مقامی ٹرینوں میں کہیں بھی سفر کیا جا سکتا ہے۔
اس اسکیم کے تحت تین ملین سے زائد ٹکٹ فروخت ہوئے تھے ریلوے سروس سے استفادہ کرنے والے مسافر کارڈ بھی خرید سکتے ہیں جو کہ ایک طرح کا کریڈٹ کارڈ ہے یہ کارڈ خریدنے والے مسافر ٹکٹ کی نصف رقم دے کر سفر کر سکتے ہیں یہ کارڈ سستے نہیں ہیں لیکن یہ بھی بہت مقبول ہو رہے ہیں گویا ریلوے اب ہر اعتبار سے کامیابی کی راہ پر گامزن ہے واحد مسئلہ جرمن ریلوے کی مشہور ومعروف پابندی اوقات کار ہے ریلوے کے ایگزیکٹیو بورڈ آفس کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ریلوے جرمنی کی دوسری بڑی تعمیراتی جگہ ہے ۔پاکستان ریلوے کے بارے میں کچھ لکھتے ہوئے میرا قلم شرم سے جھک جاتا ہے۔
ہم نے ریلوے کا جو حال بنا رکھا ہے دنیا میں شائد ہی کسی ملک کا ہو ہم ریلوے نظام کو جدید بنانے کے خواب تو دیکھتے رہتے ہیں لیکن ہمت جواب دے چکی ہے ایوبی مارشلء کے دور میں ریلوے کو جدید بنانے کا عمل شروع ہوا 1965ء میں ریلوے الیکٹرونک سسٹم کے ذریعے ٹرینیں چلانے کا آغاز ہوا جو 2012میں جمہوریت نے زمین بوس کر کے رکھ دیا ۔الیکٹرک نظام اکھیڑ کر رکھ دیا گیا اور اب معاملہ جہاں تک پہنچا ہے کہ ٹرینیں اپنی عمر کھو چکی ہیں انجن دم توڑ چکے ہیں نئے انجن خریدنے کی استعاعت نہیں رہی ۔جنرل مشرف کی مارشلاء میں ڈبل ٹریک بچھانے کا عمل شروع ہوا ہے جو جمہوریت کے دور میں سسک سسک کر اپنا حال بتا رہا ہے۔
میں تھک گیا ہوں مجھے آرام کرنے دو ۔پاکستان ریلوے کے نظام کو سیاسی و انتظامی دیمک کھاتی جا رہی ہے مزدور تنظیموں نے وہ کام دکھایا ہے جس کا میں نقشہ پیش کروں تو عوام کے پائوں تلے سے زمین نکل جائے ۔میں نے کچھ عرصہ ریلوے کیرج فیکٹری اسلام آباد میں سپروائزری کا مزہ چکھا ہے اس دور میں یہ فیکٹری ابھی تعمیراتی مراحل سے گذررہی تھی مزدروں نے اودھم مچا رکھا تھا کوئی کام کرنے میں دلچسپی نہیں لے رہا تھا بیشتر مزدور اپنی ورکشاپوں میں اپنا ٹوکن لٹکا کر مارکیٹوں میں کاروباری مزے لے رہے تھے۔
ہر وقت خوف لاحق رہتا تھا کہ کام نہیں ہو رہا میری شاپ کے یونین کے نمائندے تاش کھیلنے میں مصروف رہتے تھے بعض چرسی یارڈ میں جا کر سوئے ر ہتے ۔اوور ٹائم کے اوقات میں بیشترز ملازمین یارڈ سے لکڑیاں اکھٹی کرنے اور گھاس کاٹنے میں مصروف نظر آتے مجھے ٹائم آفس میں اوور ٹائم چیک کرتے ہوئے یہ خوف ہوتا کہیں کوئی میری کمر میں چھرا ہی نہ گھونپ دے ۔میں ریلوے کو خیر باد کہنے کی جستجو میں رہتا آخر ایک روز مجھے لاہور میں ملازمت ملی تو سانس میں سانس چلا 1990 میں (ن) لیگ کے وزیراعظم میاں نواز شریف نے ریلوے کو فوج کے سپرد کیا تاکہ یونین کے ناگ کا سر پھوڑا جاسکے بہت حد تک کامیابی ملی لیکن ازاں بعد پھر وہی بے ڈھنگی سی چال سے ریلوے چلنے لگا۔چلتے چلتے جس کی آج سانسیں پھول چکی ہیں وزیرریلوے کو ٹاک شوز سے فرصت نہیں ملتی وہ بے چارا (ن) لیگ کی حکومت کو بچانے کی فکر میں لگا رہتا ہے۔
ریلوے کا نظام اس کی گرفت سے نکلتا جا رہا ہے اب عوام بسوں موٹروں اور کوسٹروں کی دلدل میں د ھنستے جا رہے ہیں عوام کتنے پریشان ہیں اسکی کسی کو کوئی فکر نہیں ہے میاں برادران کو خواب میں بلٹ ٹرینیں اور دن کو میٹرو بسیں ہی نظر آتی ہیں عوام کے مسائل و مشکلات انہیں ہر گز نظر نہیں آرہے ہیں۔