ماسٹر عبداللہ کا شمار علاقے کے بڑے اور نامور اساتذہ میں ہوتا ہے۔وہ انتہائی غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں ، مگر اپنی محنت اور جانفشانی سے انہوں نے شعبہ تعلیم میں نام کمایا ہے۔ علاقے کے سارے لوگ ان کی پیشہ ورانہ مہارت کے ساتھ ساتھ انکی دینی طرز زندگی کی وجہ سے انہیں بڑی قدرکی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔گوکہ ہمارے اساتذہ میں تھے ، مگر اردو زبان سے شغف رکھنے کی وجہ سے میرابہت خیال رکھتے تھے۔ چند روزقبل مجھے فون کرکے کہنے لگے ۔”مجھے معلوم ہے کہ آپکی اردو بہت اچھی ہے اورمجھے بہت خوشی ہوتی ہے کہ آپ اردو کے استادہیں۔مجھے اکثر اردو سے متعلق مشکلات آتے رہتے ہیں،لہٰذا میں آپ سے استفسارکرتارہوں گا”۔
میں فوراًہامی بھرلی اورانہیں ہرقسم کی یقین دہائی کرائی۔دوتین دن پہلے موصوف کی طبیعت خراب ہوئی ۔انہوں نے ہسپتال جاکر طبی معائنہ کروایااورکچھ ادوایات وغیرہ لاکر استعمال کیں، مگر افاقہ نہیں ہوااورآج اچانک طبیعت بگڑگئی ۔گھروالے اسے ہسپتال لے گئے، مگر کچھ ہی دیر بعد انکی نعش تابوت میں سرکاری اہلکاروں کی معیت میں لاکر دفنائی گئی۔ گھروالے اورعزیز واقارب انکاچہرہ بھی دیکھ نہ سکے۔
اسی طرح بے شمارواقعات ہماری آنکھوں کے سامنے رونماہوتے رہتے ہیں۔ مرنے والے کے ورثا ساری زندگی ایسی میت کاسوگ مناتے رہیں گے کیونکہ ایسی حالت اس سے قبل زمین نے دیکھی تھی نہ آسمان نے۔ زندگی ویسے بھی ناپائیدارتھی ، مگر ایسی بے ثباتی پہلے کبھی نہ تھی۔
بے ثباتی چمن دہرکی ہے جن پہ کھلی
ہوس رنگ نہ وہ خواہش بوکرتے ہیں
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں انسان ِفانی کو کل نفس ذائقة الموت کی وعید سنائی اوردنیائی زندگی کومتاعِ غروریعنی دھوکہ کامال کہا۔ مگر انسان نے دنیاکو دائمی جنت بنانے کی حماقت کاارتکاب کرڈالا۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات، وعیدیں اوروعدیں پست پشت ڈال کر ہمہ وقت اپنی زندگی کو خوب سے خوب تر کی تلاش میں سرگرداں رہا۔متاعِ غرور یعنی دنیوی زندگی کو ابدی تصورکرکے انسان اسے خوبصورت بنانے کے لئے ہمہ وقت سرگرم عمل رہتاہے اوریہی اسکی تمنائوں کامرکز، تگ ودو کاحاصل اور اسکی جدوجہد کامحور ہوتاہے۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بہت زیادہ استعداد اور صلاحیتوں سے نوازاہے تاکہ وہ اسکے بل بوتے پر اپنے خالق حقیقی کی سچی بندگی کرکے دنیا اورآخرت میں کامیابی حاصل کرے، مگر کاش کہ انسان نے اپنی خالق حقیقی کوفراموش کردیا اوراپنی زندگی ، وقت اورصلاحیتیں صرف اورصرف دنیابنانے کے لئے استعمال کیں ۔انسان کاخیال تھاکہ یہ عارضی دنیا اپنے اندر بے پناہ عیش وعشرت اور لطف ولذت کاسامان سمیٹی ہوئی ہے۔اسی سعی لاحاصل میں انسان نے اپنی زندگی لٹائی اورزندگی کامقصدفراموش کردیا ۔ پھر ہوناکیاتھاکہ مختلف شکلوں میں عذاب الٰہی نے انسان کو اسکے اوقات دکھاناشروع کردیا۔زلزلے آئے، آندھیوں اورطوفانوں نے انسان کو دنیاکی بے ثباتی کے نظارے کروائے، قتل وغارت کے بازارگرم ہوئے، روز انسان اپنے عزیزوں کے جنازوں کو کاندھادیتے ہوئے انہیں منوں مٹی تلے دفن کرتے ہیں، مگرپھربھی چشم عبرت واہ نہیں ہوتی۔جب عذاب الٰہی نے بھیس بدل بدل کرانسان کو دنیا کی بے ثباتی کاباورکرواناچاہا اورانسان کو کسی طوریقین نہ آیاتواللہ تعالیٰ نے انسان کی چشم عبرت کو واہ کرنے کے لئے اسے ایساتازیانہ رسید کیا،جوزندگی کی بے ثباتی کے لئے کافی ہے۔ ایک معمولی جرسومہ ، جو عام انسانی آنکھ سے نظرنہیں آتامگراس نے پوری دنیاکے انسانوں کو یہ سبق دیاکہ
جگہ جی لگانے کی دنیانہیں ہے یہ عبرت کی جا ہے تماشانہیں ہے
کورونا کے ہاتھوں آئے روز ہمارے پیارے ہم سے بچھڑرہے ہیں۔ جوکل تک زندہ تھا، ہنستاکھیلتااورمسکراتاتھا۔ جس کے ہاں زندگی کی رنگینیاں عروج پرتھیںاورجس نے کبھی سوچانہ تھاکہ اس قدرعجلت میں اس سے زندگی کے سارے مزے چھین لئے جائیں گے، اسکی میت آج ایک نئی طریقے سے دفنائی جارہی ہے۔ اسکی نعش پہ ماتم کرنے والاکوئی ہوتا ہے نہ اسکے جنازے میں وہ شان وشوکت ہوتی ہے۔ہمارے پیارے جوجواس قدرعجلت میں ہم سے بچھڑتے جارہے ہیں ، وہ پکار پکارکرہمیں کہتے جا رہے ہیں کہ
کم سے کم موت سے ایسی مجھے امیدنہیں زندگی تونے تودھوکے پہ دیاہے دھوکہ
کورونااگرایک طرف ہم سے زندگی چھین لیتی ہے تودوسری طرف ہماری زندگی کو انتہائی ذلت آمیز اورحقیربناتی ہے۔جب کسی انسان کے بارے میں یہ شوشہ چھوڑاجاتاہے کہ وہ کورونا سے متاثرہواہے تواسکے عزیز واقارب، اہل عیال اوردوست احباب اسکے قریب آنے سے کتراتے ہیں ۔جب وہ مرجاتاہے تواسکی نعش کوایک نظردیکھنے کے لئے بھی کوئی نہیں آتا اوراسکی میت کو چند سرکاری اہلکاروں کی معیت میں سپردخاک کیاجاتاہے۔ جب زندگی اس قدردھوکہ بازہے اوردنیا دھوکے کاگھرہے ، توپھر اس زندگی اور دنیاکاکیااعتبارکیاجائے اوراسے اتنی وقعت کیوں دی جائے بلکہ اس کے مقابلے میں اپنے رب کو پہچانناچاہئے۔ سچے دل سے توبہ کرکے، اپنی اخروی زندگی جوکہ ابدی ہے، کے لئے تیاری کرنی چاہئے۔ہم سفرمیں ہیں اورمنزل ہماری آخرت ہے۔ اس سفرمیں کہیں بھی سانسیں رک سکتی ہیں، مگرحالیہ کوروناکی تلوار توہروقت ہمارے سروں کے اوپرلٹکی ہوئی ہے۔اس لئے توامیرمینائی نے کیاخوب کہا ہے۔