تحریر : محمد عبدالسمیع پر بھنی تلگو فلموں کے خالق ہدایت کار بی ناگا ریڈی کی ہندی فلم ” رام اور شیام ” جو پہلے (رامڑو بیمڑو) کے نام سے تلگو زبان میں بن چکی تھی ، ریلیز ہوئی تو پہلا تبصرہ مشہور و معروف قلمکار ، فلم ساز و ہدایت کار جناب خواجہ احمد عباس کا تھا جو مختلف اخبارات و رسائل میں شائع ہوا تھا ۔ اُنھوں نے کہا تھا ……… ” دلیپ کمارکو سونے کی سولی پر چڑھا دیا گیا ہے۔” اُن کی دانست میں ” رام اور شیام ” کی کہانی دلیپ کمار کے لائق نہیں تھی یا خود دلیپ کمار اُن کرداروں کے لئے موزوں نہ تھے جو فلم میں پیش کئے گئے تھے مگر ” رام اور شیام” نہ صرف کامیاب ہوئی بلکہ اُس نے کامیابیوں کے جھنڈے گاڑ دئیے۔ملک کے گوشے گوشے میں اُس نے دھوم مچادی اور فلم بینوں سے خراج تحسین و آفرین وصول کیا۔اگرچہ کہ فلم کی کہانی کچھ خاص نہ تھی۔ تھیم بھی معمولی تھااور لوکیشنس بھی عام فلموں سے مختلف نہ تھے۔
ہاں ! اگر کچھ تھا تو بس شہنشاہ ِ جذبات دلیپ کمار کی فطری اداکاری تھی جو فلم کے ہر ہر منظر میں بولتی تھی اور اداکاری میں اُن کا فن بولتا تھا۔ فلم کا منظر خواہ المیہ ہو خواہ طربیہ، خواہ رزمیہ ہو خواہ بزمیہ ، دلیپ کمار کی اداکاری نقطہ عروج پر تھی ، علی الخصوص مظلوم رام کے کردار میں وہ بے مثال تھے۔ عام فلم بینوں سے قطع نظر، رام کا یہ کردار فلم کے ناقدین تک کے دلوں پر چھا گیا تھا اور فلم کے دوسرے کردار شیام کی تو بات ہی جُداگانہ تھی کہ پران جیسے ظالم و جابر شخص کے مقابل اُن کی شوخ و چنچل اداکاری ہر خاص و عام کے دِلپذیر تھی۔
بعض اداکاروں کے لئے اُردو کے شستہ اور شائستہ مکالمے بڑے مددگار ہوتے ہیں جن کے ذریعہ وہ کسی ہنر مندی کے بغیر ہی اپنی اداکار انہ صلاحیتوں کا لوہا منوالیتے ہیں مثلاًمعروف اداکار راجکمار جو اپنی پُر افسوں آواز، دلکش انداز، شاہانہ تکلم اور اُردو مکالموں کی پُر وقار طرزِ ادا کے سبب فلم بینوں کے دل و دماغ پر چھا جاتے تھے لیکن اس کے لئے کسی فنی مہارت یا درونِ دل کی کیفیت کے اظہار کی چنداں ضرورت محسوس نہیں کرتے تھے۔
مگر یوسف خان عرف دلیپ کمار کے لئے یہ ممکن نہ تھا کہ وہ روایتی انداز میں ڈائیلاگ بول جائیں اور مکالموں کے طرزِ اظہار میں اُن کے فنی لوازم کو نظر اندار کردیں ۔ چنانچہ وہ جب بھی ڈائیلاگ بولتے حسن تکلم کے ساتھ ساتھ اُس کے فنیّ لوازم بھی اُن کی طرزِ ادا کا حصّہ رہتے اور وہ ڈوب کر بالکلیہ اِ ستغراقی کیفیت میں بولتے ۔خواہ فلم کا مکالمہ محض ” ہاں ” ” یا” ” نا” ہی کیوں نہ ہو وہ اُسے اُس کے حقیقی اور معنوی تاثر کے ساتھ ادا کرتے، یعنی محض ایک مکالمے کے لئے اُن کے چہرے کے نقوش ، اُن کی حرکات وسکنات، اُن کا لب و لہجہ اور اُن کی رفتار و گفتار سب کچھ اُن کا وسیلہ اظہار ہوجاتا اور تب ایک دلکش و دل نشیں منظر فلم بینوں کے روبرو ہوتا جو اُنھیں سرشار کر دیتا۔