متحدہ امریکہ کے سائنسدانوں کی جانب سے دنیا میں پہلی بار تجربہ کردہ طریقے سے چھ اپریل کو جنم لینے والے بچے کی طبی حالت ٹھیک ٹھاک ہے۔
اس بچے کا جنم ‘تین افراد’ کی تولیدی صلاحیت کے استعمال سے ممکن بنا ہے۔
نیو سائنٹسٹ کی خبر کے مطابق اس بچے میں ماں اور باپ کا معمول کا ڈی این اے موجود ہے مگر اس کے ساتھ ساتھ ڈونر کے جنیاتی کوڈ کا کچھ حصہ بھی اس کے جسم کا حصہ ہے۔
امریکی ڈاکٹروں نے اس تیکنیک کو آزما کر یقینی بنایا کہ بچہ اس جنیاتی عارضے سے محفوظ ہو جو اس کی ماں کے جینز میں موجود ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ اقدام طبی دنیا کے نئے عہد کی جانب قدم ہے اور اس سے نایاب جنیاتی عارضوں کے شکار دیگر خاندانوں کی مدد کی جاسکے گی۔ اس چیز پر خبردار بھی کیا گیا ہے کہ اس نئی اور متنازع ٹیکنالوجی پر کڑی نظر رکھنا ہوگی۔
اس تیکنیک میں مائی ٹو کانڈریل (خبطی ذرے) کا عطیہ ڈونر سے حاصل کیا جاتا ہے، یہ خبطی ذرے وہ ننھے ڈبے ہوتے ہیں جو لگ بھگ جسم کے ہر اس خلیے میں موجود ہیں جو خوراک کو قابل استعمال توانائی میں تبدیل کرنے کا کام کرتے ہیں۔
اس عمل کے کس اسپتال میں سر انجام پانے کے بارے میں کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔