تحریر: سید توقیر زیدی وزیراعظم محمد نواز شریف نے مسئلہ کشمیر اور بھارتی مظالم اجاگر کرنے کیلئے 11 ممالک میں 22 پارلیمنٹرین ایلچی مقرر کیے ہیں ۔وزیراعظم محمد نواز شریف نے مقبوضہ کشمیر میں بھارت کے وحشیانہ مظالم اور انسانی حقوق کی شدید خلاف ورزیوں کو دنیا کے کلیدی حصوں میں اجاگر کرنے اور کشمیر کاز کی لابنگ کیلئے ارکان پارلیمنٹ کو اپنا خصوصی ایلچی مقرر کر دیا ہے۔ وزیراعظم ہاوس کے بیان کے مطابق وزیراعظم نے کہا ہے کہ انہوں نے کشمیر کا مقدمہ لڑنے کیلئے ان ارکان پارلیمنٹ کو دنیا کے مختلف حصوں میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔ یہ خصوصی نمائندے پارلیمنٹ کے مینڈیٹ اور حکومت کی حمایت کے بھی حامل ہیں۔ وزیراعظم نے کہا کہ وہ دنیا بھر میں کشمیر کاز اجاگر کرنے کیلئے ان کی سرتوڑ کوششوں میں خصوصی ایلچیوں کی پشت پر کھڑے ہیں تاکہ آئندہ ستمبر میں اقوام متحدہ میں اپنے خطاب کے دوران بین الاقوامی برادری کے اجتماعی ضمیر کو جھنجوڑ سکیں۔ ہم اقوام متحدہ کو کشمیری عوام کے حق خودارادیت کا دیرینہ وعدہ یاد دلائیں گے، یہ واضح کریں گے کہ یہ بھارت ہی تھا جس نے تنازعہ کشمیر پر کئی عشرے قبل اقوام متحدہ سے رجوع کیا لیکن وہ وعدہ پورا نہیں کر رہا۔ کشمیریوں نے نسل در نسل صرف اور صرف ٹوٹے ہوئے وعدے اور بے رحم ظلم و استبداد دیکھا ہے۔ وزیراعظم نے اس بات پر زور دیا کہ اقوام متحدہ کا یہ سالانہ ایونٹ ادارے کو عمل کی ترغیب دینے میں معاون ہو سکتا ہے۔ کشمیر کا تنازعہ حل نہ کرنا اقوام متحدہ کی مسلسل ناکامی ہے، اقوام متحدہ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔ ہم کشمیر کاز میں کسی تساہل یا نرمی کا تصور بھی نہیں کرسکتے۔
جن ارکان کو خصوصی ایلچی مقرر کیا گیا ہے ان میں بیلجیئم (برسلز) کیلئے اعجاز الحق اور ملک عزیر چین (بیجنگ) کیلئے خسرو بختیار اور عالم داد لالیکا، فرانس (پیرس) عائشہ رضا فاروق اور رانا محمد افضل خان، روسی فیڈریشن (ماسکو) کیلئے رضا حیات ہراج، جنید انور چودھری اور نواب علی وسان، سعودی عرب (ریاض، جدہ) کیلئے مولانا فضل الرحمن، میجر (ر) طاہر اقبال اور محمد افضل کھوکھر، ترکی (انقرہ) کیلئے محسن شاہ نواز رانجھا اور ملک پرویز، برطانیہ (لندن) کیلئے لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقیوم اور قیصر شیخ، امریکہ (واشنگٹن ڈی سی) اور اقوام متحدہ (نیویارک) کیلئے مشاہد حسین سید اور شذرہ منصب علی، اقوام متحدہ (جنیوا) کیلئے اویس لغاری اور جنوبی افریقہ (پریٹوریا) کیلئے عبدالرحمن کانجو شامل ہیں۔
Kashmir Issue
مقبوضہ کشمیر میں جہاں بھارتی مظالم اور بربریت میں اضافہ ہوا وہیں بھارت کے پاکستان کے خلاف پراپیگنڈہ میں بھی شدت ا?ئی اور بھارت کی طرف سے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کرنے سے صریحاً انکار بھی کر دیا گیا۔ مودی نہ صرف مسئلہ کشمیر پر مذاکرات سے انکار کر رہے ہیں بلکہ انہوں نے ا?زاد کشمیر اور گلگت بلتستان پر بھی اپنا حق جتا دیا ہے۔ مقبوضہ کشمیر میں حریت پسندوں کی جدوجہد میں 8 جولائی کو برہان وانی کی شہادت کے بعد تیزی ا?ئی۔ وہاں مسلسل مظاہرے ہو رہے ہیں۔ کئی شہروں میں کرفیو نافذ ہے۔ گزشتہ روز بھارتی فوج کی فائرنگ سے ایک اور نوجوان شہید ہو گیا۔ وانی کی شہادت کے بعد اب تک بھارتی فورسز کی بربریت نے 81 کشمیریوں کی جان لے لی ہے۔ پیلٹ گنوں سے معذور اور مفلوج ہونے والوں کی تعداد سات ہزار سے زیادہ ہے۔ ان میں سینکڑوں بینائی سے محروم ہو چکے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں تحریک ا?زادی کو توانا ہوتا دیکھ کر محبوبہ مفتی نے دہلی میں وزیراعظم مودی سے ملاقات میں ایک بار پھر ان پر پاکستان اور حریت رہنمائوں کیساتھ مذاکرات کیلئے زور دیا ہے۔
مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم کے خلاف پاکستان میں تشویش پیدا ہونا فطری امر ہے۔ عوامی سطح پر کشمیریوں کے ساتھ اظہار یکجہتی کیا گیا۔ حکومتی سطح پر یوم سیاہ منایا گیا۔ حکومت نے کئی ممالک کو خط لکھے۔ پاکستانی سفیروں کو اسلام آباد بلا کر بریفنگ دی۔ پاکستان میں تعینات سفیروں کو بھارت کے مقبوضہ کشمیر میں مظالم، انسانی حقوق کی پامالی اور مذاکرات سے انکار سے آگاہ کیا۔ اگلے ماہ وزیراعظم اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی سے خطاب کریں گے۔ پاکستان مسئلہ کشمیر پہلے ہی اقوام متحدہ میں اٹھانے کا اعلان کر چکا ہے۔ وزیراعظم کے خطاب کے موقع پر پاکستان کے نقطہ نظر سے مسئلہ کشمیر کے حق میں ماحول استوار ہونا چاہیے۔ ایلچیوں کی تعیناتی اس حوالے سے اہم ثابت ہو سکتی ہے تاہم اس کو مزید موثر بنایا جا سکتا ہے۔ جن حضرات کو ایلچی بنا کر بھیجا گیا ان میں سے اکثر کی اہلیت اور صلاحیت شبہ سے بالا ہے۔ کچھ کو لگتا ہے محض خوش کرنے یہ کاز ان کو دیدیا گیا۔ بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ ہمارے وزیراعظم کے نزدیک مسئلہ کشمیر کا حل یہی ہے کہ اپنے قریبی ساتھیوں اور اتحادیوں کو ریاستی خرچے پر چھٹیوں کیلئے بھیجا جا رہا ہے۔ بلاول کا اعتراض درست ہے۔ کیا ساری دانش وزیراعظم کے اتحادیوں اور ساتھیوں کے اندر ہی سما گئی ہے۔ مسئلہ کشمیر پر تمام جماعتوں کا موقف عمومی طور یکساں ہے۔ تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی کے پارلیمنٹرین کی نمائندگی بھی ہوتی تو بہتر تھا۔ سب سے مناسب یہ ہوتا کہ پارٹی قائدین یا پارٹی کے پارلیمانی لیڈروں کو اس کام کیلئے بھیجا جاتا۔
Maulana Fazlur Rehman
مولانا فضل الرحمن کشمیر کمیٹی کے چیئرمین ہیں۔ اس کمیٹی کی کارکردگی مایوس کن رہی ہے، جو تنقید کی زد میں رہتی ہے۔ مولانا کو سعودی عرب بھجوایا گیا ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے یمن سعودیہ جنگ میں فوج بھجوانے کی پیشکش کی تو مولانا کی تحریک پر ا?صف علی زرداری کی سربراہی میں اے پی سی نے معاملات پارلیمنٹ میں لانے پر زور دیا۔ اب سعودی عرب والے مولانا کی کیا سنیں گے اور کیا پذیرائی کریں گے۔ مولانا پر نوازش کرنی ہی تھی تو انہیں لیبیا بھجوا دیا جاتا۔ سعودی عرب کیلئے موزوں ساجد میر یا سراج الحق ہو سکتے ہیں۔ چین اور ترکی پاکستان کے گہرے دوستوں میں شامل ہیں، وہ پاکستان کے نقطہ نظر سے بخوبی ا?گاہ ہیں بعض حالات میں وہ ہمارے حکمرانوں سے بھی بڑھ کر پاکستان کی حمایت میں بات کرتے ہیں۔ چین کشمیریوں کو سادہ کاغذ پر ویزہ دیتا ہے۔ کشمیریوں کیلئے بھارتی ویزے کو قبول نہیں کیا جاتا۔ ترکی نے بنگلہ دیش میں پاکستان کی حمایت کی پاداش میں پھانسیاں لگنے پر اپنا سفارتی عملہ واپس بلا لیا تھا۔ ان ممالک میں ایلچی بھیجنا بے جا ہے۔
ایلچی ان ممالک میں جانے چاہئیں جو پاکستان کے کشمیر پر نکتہ نظر سے ا?گاہ نہیں ہیں۔ ایسے ممالک میں اپنے تعینات سفیروں سے باز پرس کی ضرورت ہے کہ وہ وہاں کیا کرتے ہیں۔ ایلچیوں کا تقرر ایک طرح سے ان ممالک میں تعینات سفیروں کی کارکردگی خصوصاً مسئلہ کشمیر اجاگر نہ کرنے پر عدم اعتماد کا اظہار بھی ہے۔ایران او رمتعدد عرب ریاستوں میں بھارت کا اثر و رسوخ بڑھ رہا ہے افغانستان تو مکمل طوربھارت کے زیر اثرہے ایسے ممالک کو ساتھ ملانے کی کوشش ہونی چاہئیے تاہم ایران نے اصولی طور پر اور انسانی ہمدردی کی بنیاد پر بھارت کو مقبوضہ کشمیر میں تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ وزیراعظم خود بھی متحرک ہیں۔ ان کی صحت اب ماشاء اللہ قابل رشک ہے۔ آج عالمی سطح پر کشمیریوں کی آواز کو پذیرائی مل رہی ہے۔ بھارت کے اندر سے بھی ان کے حق میں آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ عالمی برادری کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کا یہی بہترین موقع ہے جو پاکستان کو کسی طور ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ بھارت نے ایک طرف کشمیر میں ظلم و جبر کا بازار گرم کر رکھا ہے دوسری طرف وہ پاکستان میں دہشتگردی بھی کرا رہا ہے۔ وزیراعظم کو اس مشن کے ساتھ دوستی کی خواہش ترک کر کے مسئلہ کشمیر پر مذاکرات پر آمادگی تک بھارت کے ساتھ تعلقات پر نظرثانی کرنی چاہئیے۔ مسئلہ کشمیر پر سفارتکاری اور ایلچیوں کی تعیناتی اپنی جگہ مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوام متحدہ اور امریکہ غیر جانبداری سے اپنا کردار ادا کرنے پر مائل ہو جائیں تو اس دیرینہ مسئلے کا پائیدار حل ممکن ہے۔