تحریر : سید توقیر زیدی بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا ہے کہ بھارت نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت نہیں کریگا۔ ہم ”این ایس جی” میں میرٹ کی بنیاد پر پاکستان سمیت کسی بھی ملک کی شمولیت کے مخالف نہیں ہیں۔ گزشتہ روز نئی دہلی میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ چین این ایس جی میں بھارت کی رکنیت کا مخالف نہیں بلکہ وہ صرف طریقہ کار کی بات کررہا ہے اور ہم پرامید ہیں کہ ہم چین کو قائل کر لیں گے۔ انکے بقول وہ 23 ممالک کے ساتھ رابطے میں ہیں جن میں سے ایک یا دو ممالک نے اعتراضات اٹھائے ہیں’ ہم اس بات کو یقینی بنانے کی کوشش کررہے ہیں کہ بھارت رواں سال کے اختتام تک این ایس جی کا رکن بن جائے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان بھارت خارجہ سیکرٹریوں کے مذاکرات منسوخ نہیں ہوئے’ صرف پاکستان کی جانب سے پٹھانکوٹ حملے کی تحقیقات کا انتظار کررہے ہیں جس کیلئے پاکستان نے مزید وقت مانگا ہے۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ موجودہ وقت میں پاکستان اور بھارت کے درمیان تعلقات میں آسانی اور گرمجوشی نہیں ہے۔ دوسری جانب چین نے بھارت کو نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں شمولیت کی حمایت کیلئے یقین دہانی کرانے سے معذرت کرلی ہے اور اس سلسلہ میں بیجنگ آئے ہوئے بھارتی سیکرٹری خارجہ کو باور کرایا ہے کہ جس ملک نے ایٹمی ہتھیاروں کے عدم پھیلائو (این پی ٹی) پر دستخط نہیں کئے’ اسے این ایس جی میں شامل نہیں کیا جا سکتا۔
اس تناظر میں چین نے پاکستان کو یقین دلایا ہے کہ نیوکلیئر سپلائرز گروپ کی رکنیت پر بھارت کے ساتھ ڈیل پاکستان کی قیمت پر نہیں ہوگی۔ چینی حکام کے ذرائع کے مطابق اگر این ایس جی ممالک نے بھارت کو استثنیٰ دیا تو پاکستان کیلئے بھی ایسا کیا جائیگا اور چین اپنے عہد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔ یہ خوش آئند صورتحال ہے کہ کسی ملک کی اس گروپ میں شمولیت کا فیصلہ اتفاق رائے سے عمل میں آتا ہے اور کسی ایک بھی رکن ملک کی مخالفت رکنیت کے امیدوار ملک کی رکنیت کے آگے بند باندھ دیتی ہے اس لئے امریکہ چاہے نیوکلیئر سپلائرز گروپ میں بھارت کی شمولیت کیلئے ایڑی چوٹی کا زور لگالے’ اسکی شمولیت تمام رکن ممالک کے اتفاق رائے سے ہی ممکن ہو گی۔
Pakistan
یقیناً پاکستان کو بھی این ایس جی میں شمولیت کیلئے تمام رکن ممالک کے اتفاق رائے کی ضرورت ہے جس کیلئے مثبت اور حوصلہ افزاء صورتحال یہ ہے کہ امریکہ کی جانب سے بھارت کی کھلی حمایت کے باوجود پاکستان کو امریکہ کی ویسی مخالفت کا سامنا نہیں جیسی بھارت کو چین کی جانب سے درپیش ہے۔ اسکے علاوہ ترکی’ نیوزی لینڈ’ آئرلینڈ’ جنوبی افریقہ اور اٹلی کی جانب سے بھی بھارت کی این ایس جی میں شمولیت کی مخالفت کی جا رہی ہے جبکہ پاکستان کو بادی النظر میں ایسی مشکل صورتحال کا سامنا نہیں ہے کیونکہ چین اور ترکی کھل کر پاکستان کے ساتھ کھڑے ہیں اور این ایس جی کے دوسرے رکن ممالک کی جانب سے بھی پاکستان کو ویسی مخالفت کا سامنا نہیں ہے جو بھارت کو اعلانیہ درپیش ہے اس لئے کہا جا سکتا ہے کہ این ایس جی کی رکنیت کے سفارتی معرکے میں پاکستان کی بہتر حکمت عملی اور فعال سفارتکاری کے نتیجہ میں اسے بھارت پر غلبہ حاصل ہو چکا ہے۔
چنانچہ اس صورتحال کو بھانپ کر ہی بھارتی لہجے اور رویے میں بالخصوص پاکستان کے ساتھ تعلقات کے معاملہ میں نمایاں نرمی پیدا ہوئی ہے اور وہ جہاں این ایس جی میں پاکستان کی شمولیت کی مخالفت نہیں کررہا وہیں چین کی حمایت حاصل کرنے کیلئے اسکے ساتھ بھی ملائمت بھرے لب و لہجہ میں مخاطب ہو رہا ہے جس کا عندیہ سشما سوراج کے اس بیان سے بھی ملتا ہے کہ ہمیں چین کی حمایت حاصل ہونے کا یقین ہے حالانکہ چین دوٹوک الفاظ میں باور کراچکا ہے کہ بھارت نے ایٹمی عدم پھیلائو کے عالمی معاہدے این پی ٹی پر دستخط نہیں کئے تو اسے نیوکلیئر سپلائرز گروپ کا رکن کیسے بنایا جا سکتا ہے۔ اس حوالے سے چین کی جانب سے این ایس جی کے تمام رکن ممالک کو مراسلہ بھی بھجوایا گیا ہے کہ این پی ٹی پر دستخط نہ کرنیوالے کسی ملک کو این ایس جی میں شامل نہ کیا جائے۔ یقیناً اس صورتحال کا پاکستان کو بھی سامنا ہوگا کیونکہ وہ بھی این پی ٹی پر دستخط نہ کرنیوالے ممالک میں شامل ہے تاہم چین نے واضح طور پر باور کرادیا ہے کہ اگر بھارت کے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود اسے این ایس جی کی رکنیت دینے پر غور کیا جاتا ہے تو پھر پاکستان کیلئے بھی ایسی ہی صورتحال ہوگی اور ہم پاکستان کی قیمت پر بھارت کو این ایس جی کی رکنیت دینے کی قطعاً حمایت نہیں کرینگے۔
چین کے اس دوٹوک موقف کی بنیاد پر این ایس جی کے رکن ممالک کے ایک ہفتے تک جاری رہنے والے اجلاس میں یا تو پاکستان اور بھارت دونوں این ایس جی کے رکن بن جائینگے یا دونوں اسکی رکنیت سے محروم ہو جائینگے’ اس لئے اب ہماری سفارت کاری کا اصل امتحان ہے کہ ہم این ایس جی کے رکن ممالک کو علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کیلئے سنگین خطرے کی گھنٹی بجانے والے بھارت کے ایٹمی توسیع پسندانہ عزائم پر کیسے قائل کرتے ہیں اور اپنے ایٹمی پروگرام کے قطعی پرامن اور مکمل محفوظ ہونے کا کیسے یقین دلاتے ہیں۔ اس حوالے سے یقیناً پاکستان کا کیس مضبوط ہے کیونکہ اسکے سویلین نیوکلیئر پروگرام کی تمام تنصیبات عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی کے تحفظ کے تحت آتی ہیں جبکہ ملٹری نیوکلیئر پروگرام کیلئے ایٹمی نیشنل کمانڈ اینڈ کنٹرول اتھارٹی تشکیل دی گئی ہے جو پوری مشاقی اور فعالیت کے ساتھ اپنا کردار ادا کررہی ہے۔ اسکے علاوہ پاکستان نے ایٹمی مواد اور ٹیکنالوجی کی برآمد کو کنٹرول کرنے کیلئے بھی مو?ثر قوانین بنا رکھے ہیں اور ایک خودمختار نیوکلیئر ریگولیٹری اتھارٹی بھی قائم کی ہوئی ہے جو بین الاقوامی توانائی کے ادارے کے ساتھ بالخصوص نیوکلیئر سیفٹی’ سکیورٹی اور تابکاری کے حوالے سے کام کر رہی ہے۔
Pakistan Nuclear Program
جبکہ پاکستان کو ایٹمی پروگرام چلانے کا 40 سالہ تجربہ بھی ہے اور پاکستان میں ایٹمی صنعت سے وابستہ تربیت یافتہ افرادی قوت کی تعداد 60 ہزار کے لگ بھگ ہے اور پھر پاکستان عالمی ایٹمی توانائی کی ایجنسی کے تعاون سے عالمی اور علاقائی سطح پر ایٹمی تنصیبات کی سلامتی کیلئے باقاعدگی سے ورکشاپس بھی منعقد کرارہا ہے جبکہ راولپنڈی میں عالمی معیار کا نیوکلیئر سنٹر آف ایکسیلنس بھی قائم کیا جا چکا ہے چنانچہ پاکستان کے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود وہ ایٹمی عدم پھیلائو کے بھی تمام ممکنہ اقدامات اٹھا رہا ہے اور اسکی ایٹمی تنصیبات بھی مکمل محفوظ ہیں اور اسی بنیاد پر امریکی محکمہ خارجہ نے اپنی ایک حالیہ رپورٹ میں پاکستان کی ایٹمی تنصیبات کی سلامتی کے نظام کو بہترین قرار دیا ہے۔ اسکے برعکس بھارت کی پوزیشن قطعی مختلف ہے جس کے ساتھ این ایس جی کے رکن ممالک کے تحفظات اسکے این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باعث ہی نہیں بلکہ وہ امریکی سرپرستی میں جس طرح اپنی ایٹمی ٹیکنالوجی کو فروغ دے رہا ہے اور اس بنیاد پر وہ پاکستان اور چین کی سلامتی کو چیلنج بھی کرتا رہتا ہے اس تناظر میں نیوکلیئر سپلائرز گروپ کے ارکان کو خدشہ ہے کہ ایٹمی ٹیکنالوجی کے استعمال میں بھارت کی معمولی سی بداحتیاطی سے بھی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی غارت ہو سکتی ہے۔
چنانچہ اس تناظر میں اگر این ایس جی کے اجلاس میں این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود پاکستان اور بھارت میں سے کسی کو رکنیت دینے پر غور ہو سکتا ہے تو اس کیلئے ایٹمی تحفظ میں پاکستان کا مثبت کردار اس کیلئے مددگار ثابت ہو گا۔ اس حوالے سے پاکستان کی جانب سے پہلے ہی بہترین سفارتی کوششیں بروئے کار لائی جا چکی ہیں جس کے تحت اسلام آباد میں متعین این ایس جی ممالک کے سفیروں کو دفتر خارجہ میں مفصل بریفنگ دی گئی۔
جبکہ مشیر امور خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی نے این ایس جی ممالک کے وزرائے خارجہ کو خود فون کر کے این ایس جی میں پاکستان کی شمولیت کی حمایت کرنے اور پاکستان اور بھارت کیلئے یکساں پالیسی اختیار کرنے پر قائل کرنے کی کوشش کی ہے جس کے مثبت نتائج بھی سامنے آرہے ہیں کہ آج این ایس جی کا کوئی بھی رکن ملک پاکستان کی رکنیت کیلئے اسکی کھل کر مخالفت نہیں کر رہا حتیٰ کہ بھارت نے بھی پاکستان کی مخالفت نہ کرنے کا عندیہ دیا ہے۔ یہ بلاشبہ ہماری بڑی سفارتی کامیابی ہے جس میں یقیناً امریکہ بھارت گٹھ جوڑ پر ہمارے مضبوط اور دوٹوک موقف کا بھی عمل دخل ہے۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے گزشتہ روز بھی اسی تناظر میں دنیا کو باور کرایا ہے کہ امریکہ نے پاکستان کے جوہری پروگرام پر پابندیاں لگانے کی کوشش کی جس کا مقصد پاکستان کو امریکہ کا دستِ نگر رکھنا تھا مگر ہم واشنگٹن کے کہنے پر افغانستان کی لڑائی اپنی سرزمین پر نہیں لڑ سکتے۔
موجودہ صورتحال میں جبکہ امریکہ کھل کر ہمارے ازلی دشمن بھارت کی پشت پر کھڑا ہے’ ہمیں ایسی ہی آبرومندانہ قومی خارجہ پالیسیوں کی ضرورت ہے جس سے نہ صرف ہماری سلامتی اور خودمختاری پر کسی کو انگلی اٹھانے کی جرآت نہ ہو بلکہ اقوام عالم میں بھی ہم سر اونچا کرکے چل سکیں۔ این ایس جی کی رکنیت کے معاملہ میں ہماری مثبت اور بہتر حکمت عملی نے آج بھارت کو دفاعی پوزیشن پر آنے پر مجبور کیا ہے تو ملکی و قومی مفادات کے تقاضوں سے ہم آہنگ اپنی قومی خارجہ پالیسی سے ہم امریکہ کو اسکی طوطا چشمی کا بھی مو?ثر جواب دے سکتے ہیں اور اس خطے میں امریکہ بھارت گٹھ جوڑ کے مضمرات کا بھی تدارک کرسکتے ہیں۔
ہمیں اس سے کوئی سروکار نہیں کہ بھارت کو این ایس جی کی رکنیت ملتی ہے یا نہیں’ بہرحال ہمیں این ایس جی کی رکنیت کیلئے کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کرنا چاہیے۔ بہترین سفارتی کوششوں سے ہمارا کیس پہلے ہی خاصہ مستحکم ہوچکا ہے جبکہ چین اور ترکی کی کھلی حمایت سے ہم این پی ٹی پر دستخط نہ کرنے کے باوجود بھارت کے مقابلہ میں این ایس جی کی رکنیت کا معرکہ مارنے کی پوزیشن میں ہیں۔ اس محاذ پر بھارتی ناکامی جہاں اسکے ایٹمی توسیع پسندانہ عزائم کے آگے بند باندھے گی وہیں بھارت ہمیں بار بار آنکھیں دکھانے اور مذاکرات سے گریز والے طرز عمل پر نظرثانی کرنے پر بھی مجبور ہو جائیگا۔ بھارتی کوششیں تو امریکی معاونت سے ہمیں عالمی تنہائی کی جانب دھکیلنے کی تھیں مگر اسکی حکمت عملی اس کیلئے ”بیک فائر” ثابت ہوئی ہے۔