سفارتی محاذ پر پاکستان تنہا کرنے کی دھمکیاں اور حقائق

Narendra Modi

Narendra Modi

تحریر: آصف خورشید رانا
بھارتی حکمران پارٹی (بھارتی جنتا پارٹی) اور میڈیا کی جانب سے پاکستان کے ساتھ جنگ کے ڈھول پیٹنے شروع کیے تو دنیا بھر میں اسے پذیرائی نہ مل سکی بلکہ جنگ کی دھمکیاں الٹا مودی سرکار کے گلے آنے لگی ۔بیرونی دنیا میں بھی ان دھمکیوں کا مذاق اڑایاجانے لگا جبکہ بھارت کے اندر سے جنگی جنون کے خلاف آوازیں اٹھنا شروع ہو گئیں ۔ یہی نہیں بلکہ بھارت کے اپنے میڈیا کے مطابق بھارتی فوجیوں کی بڑی تعداد نے چھٹیوں کی درخواستیں دینا شروع کر دیں۔ اس سے پہلے برطانوی اخبار نے ایک دلچسپ رپورٹ شائع کی جس میں کہا گیا کہ بھارتی فوج عددی حجم میں بڑی ضرور ہے مگر اس کے پاس دماغ نہیں، بھارت خود اعتراف کرتا ہے کہ وہ مضبوط فوج تیار کرنے میں ناکا م رہا ۔ برطانوی جریدے ا کانومسٹ کے مطابق بھارت کی بری، بحری اور فضائی فوج کے درمیان رابطوں کا فقدان ہے۔

بھارتی فوج کے حوالے سے بہت سی باتیں صرف کاغذوں میں ہی اچھی لگتی ہیں۔ بھارتی فضائیہ دنیا کی چوتھی بڑی ایئر فورس ہے لیکن 2 ہزار جہازوں میں صرف 60 فیصد لڑاکا طیارے اڑنے کے قابل ہیں۔ 15 سال سے بحری بیڑے کی تیاری اب تک مکمل نہیں ہو سکی۔ بحری بیڑہ جو 2010 میں بھارتی فوج کے حوالے کر دینا چاہیے تھا اب اس کی تکمیل 2023 میں ہونے کی آس لگا لی ہے۔ اکانومسٹ کے مطابق ماہرین حیران ہیں کہ کیسے جنگجو بار بار بھارت کی ایئر بس میں گھسنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں اور بھارت کی ملٹری میں کرپشن کا ناسور بھی پایا گیا ہے۔ امریکی جریدے نیو یارک ٹائمز نے بھی بھارتی دھمکیوں کو غیر سنجیدہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دھمکیاں خود بھارت کے لیے بھی نقصان دہ ہیں اس موقع پر چین پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے ۔چین کی وجہ پاکستانی فوج جدید ہتھیاروں سے لیس ہے جبکہ بھارت کے پاس جنگی ہتھیارپرانے ہو چکے ہیں مسلح افواج کے سربراہ آپس میں مشورہ تک نہیں کرتے۔بھارتی سیاستدانوں اور بالخصوص بی جے پی کے رہنمائوں کی جانب سے اڑی حملے کے بعد جو ردعمل دیا گیا وہ انتہائی نامناسب تھا اور ا س کی وجہ سے نہ صرف بیرونی سرمایہ کار ملک میں نہیں آ سکیں گے بلکہ پہلے سے موجود سرمایہ کار وں کے انخلا کا بھی امکان ہے جس کی وجہ سے بھارتی معیشت کوبھی پہلے سے ذیادہ نقصان پہنچے گا۔ بھارتی فورسز کو پاکستان کے خلاف جنگ کی بجائے پہلے کشمیر پر توجہ دینا ہو گی۔

برطانوی اور امریکی جریدوں کی یہ رپورٹس بھارت کے لیے ایک واضح پیغام تھیں کہ اس موقع پر جنگ کی دھمکیاں اور کسی بھی قسم کے سرجیکل سٹرائیک کی کوشش بھارت کے لیے نقصان دہ ثابت ہو گی ۔ چنانچہ مودی سرکارنے پینترا بدلا اور سفارتی محاذ پر پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکی دے ڈالی ۔ بھارتی ریاست کیرالہ میں ہونے والے ایک جلسہ عام میں جنگ و جدل کی باتیں کرتے کرتے اچانک نریندرا مودی نے پاکستان کو سفارتی محاذ پر تنہا کرنے کی دھمکی دیتے ہوئے کہا کہ بھارت پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے میں کامیاب ہو چکا ہے اور ہم اس مہم کو مزید تیز کریں گے تاکہ پاکستان مکمل طور پر سفارتی میدان میں تنہا ہو جائے ۔ مودی نے اڑی حملے کا بدلہ لینے کی دھمکی بھی دی تو ساتھ ہی کہا کہ آئو جنگ لڑنی ہے تو جہالت ، بیروزگاری، غربت اور افلاس کے خلاف جنگ لڑیں ۔ چانکیہ سیاست کے علمبردار مودی ایک طرف یہ پیشکش کر رہے ہیں تو دوسری جانب سرحدی علاقوں میں فوجی نقل وحمل کو بھی مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔بھارت کی سیاسی جماعت کانگریس نے مودی سرکار کو کہا ہے کہ بڑھکیں مارنے سے پہلے اپنے گھر پر توجہ دیں۔ کانگریس کا کہنا تھا کہ مودی قومی سلامتی کے ساتھ سیاست کررہے ہیں یوں محسوس ہو رہا ہے جیسے وہ اگلا الیکشن پاکستان کے ساتھ لڑ رہے ہیں۔ بھارت میں پاکستان کی نسبت غربت اڑھائی گنا ذیادہ ہے۔غریب ملک ہونے کے باوجود بھارت دفاع اخراجات کے لحاظ سے دنیا کا چھٹا بڑا ملک ہے ۔ بھارت کے جنگی جنون میں مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا ہے اور بھارت کے دفاعی اخراجات میں اضافہ کی وجہ سے خطے کے دیگر ممالک عدم تحفظ کا شکار ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے ان ممالک کو بھی دفاعی اخراجات میں مجبوراً اضافہ کرناپڑتا ہے جس میں سرفہرست پاکستان ہے۔

Pakistan

Pakistan

سفارتی محاذ پر جہاں تک پاکستان کو تنہا کرنے کی بات ہے تو یہ بھی انتہائی مضحکہ خیز ہے ۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ عالمی سطح پر ملکوں کے تعلقات مفادات کی بنیاد پر استوار کیے جاتے ہیں۔بھارت ایک بڑی ریاست ہونے کی وجہ سے دنیا کے لیے ایک بہت بڑی معاشی منڈی ہے۔ تاہم یہ قدرت کا انتخاب ہے کہ پاکستان دنیا کی ایسی جگہ واقع ہے کہ جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں کو پاکستان کی ضرورت رہتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان ہمیشہ سے عالمی طاقتوں کے لیے ایک ضرورت رہا ہے اگرچہ پاکستان اس موقع کو اپنے حق میں کرنے میں اکثر و بیشتر ناکام رہا ہے تاہم اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں کہ پاکستان سفارتی محاذ پر مکمل طور پر ناکام ہو چکا ۔ جب بھارتی وزیر اعظم پاکستان کو تنہا کرنے کی دھمکیوں سے ڈرا رہے تھے اسی وقت ایک بڑی طاقت روس جو قیام پاکستان کے ساتھ ہی بھارت کا اتحادی تھا بھارت کے احتجاج کے باجود اس کے فوجی پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے کے لیے پہنچ چکے تھے ۔ بھارتی میڈیا نے ان مشقوں کے آغازسے پہلے یہ دعوٰ ی کر دیا تھا کہ روس نے بھارتی دبائو پر پاکستان کے ساتھ فوجی مشقیں کرنے سے انکار کر دیا تھا ۔ یہ فوجی مشقیں بلا شبہ تاریخ ساز تھیں کہ قیام پاکستان کے وقت دنیا میں دو بلاک تھے جن میں ایک کی قیادت روس جبکہ دوسرے کی قیادت امریکہ کر رہا تھا ۔ اس موقع پر پاکستان نے بہت سے تحفظات کی بنیاد پر امریکی بلاک میں جانے کو ترجیح دی جس کی وجہ سے روس نے 1965اور 1971کی پاک بھارت جنگوں میں بھارت کا کھل کر اعلانیہ ساتھ دیا ۔ جبکہ 1947سے لے کر اب تک بھی روس بھارت کا ایک بہت بڑا اتحادی رہا ہے۔

جب روس نے افغانستان پر حملہ کیا تو بھی پاکستان ہی تھا جس نے فرنٹ سٹیٹ کا کردار ادا کیا اور روس اپنی فیڈریشن کھو بیٹھا ۔تاہم اس کے باوجود گزشتہ کچھ سالوں سے دونوں ممالک نے ماضی کی تلخ یادوں کو فراموش کرکے پھر سے تعلقات کی بنیاد رکھنے کی کوشش کی گزشتہ دور حکومت میں ولای میر پوٹن کا دور پاکستان طے تھا لیکن بعض حالات کی بنا پر منسوخ ہو ا تاہم ان کے وزیر خارجہ لاروف نے دورہ کیا اور اس کے بعد پاکستان کے سپہ سالار جنرل اشفاق پرویز کیانی نے روس کا دورہ کیا ۔ یہ دونوں دورے نہایت اہمیت کے حامل رہے اور تعلقات کی ایک نئی تاریخ شروع ہو گئی ۔پاک روس تعلقات میں بہتری آنے کی ایک بڑی وجہ پاک امریکہ تعلقات میں کشیدگی اور بھارت کا امریکہ کے قریب آنا بھی تھا۔

America and India

America and India

امریکہ نے بھارت کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنایا اور کئی دفاعی معاہدے کیے جبکہ سول نیو کلیئر معاہدہ بھی ہو ا۔حالیہ فوجی مشقیں پہلے سے طے شدہ تھیں تاہم ایک ایسے وقت میں جب پاک بھارت کشیدگی عروج پر ہو اور بھارت کے سخت دبائو کے باوجود روسی فوجوں کو آنا نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی کامیابی ہے بلکہ پاک روس تعلقات کا ایک تاریخی باب بھی رقم ہو گیا۔یہی نہیں اس موقع پر دنیا میں ابھرتی ہوئی بری طاقت چین کے وزیر خارجہ نے بھی واضح طور پر کہہ دیا کہ وہ اس وقت پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے اور کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی بھرپور حمایت کرتا ہے ۔پاک چائینہ اقتصادی راہداری بھی پاکستان کی خارجہ پالیسی میں بہت بڑی کامیابی کے طور پر سامنے آ رہی ہے کیونکہ ایران بھی اس معاہدے میں شامل ہونے کی خواہش ظاہر کر چکا ہے جبکہ سعودی عرب نے بھی اس معاہدے کو مشرق وسطیٰ تک بڑھانے کے لیے بھرپور تعاون کی پیشکش کی ہے۔اس معاہدے کی تکمیل کے ساتھ ہی پاکستان کی معیشت ایک نئے دور میں داخل ہو جائے گی ۔سنٹرل ایشیا اور چائنہ کے ساتھ مل کر ایشیا پیسیفک تک پاکستان کے اقتصادی و دفاعی تعلقات استوار ہونے کی تاریخ رقم ہونے جا رہی ہے۔

بھارت نے امریکہ کے ساتھ دوستی کا ابھی آغاز کیا ہے پاکستان اس کی دوستی بھگت چکا ہے اور یہ تاریخی حقائق پر یہ بات پرکھی جا چکی ہے کہ امریکہ کی دوستی اس کی دشمنی سے بھی ذیادہ خطرناک ہے ۔ ان حالات میں بھارت سرکار پاکستان کو تنہا کرنے کے خواب دیکھنا چھوڑ دے بلکہ مسئلہ کشمیر سمیت تمام مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرنے کے لیے قدم آگے بڑھائے کہ ظلم ناانصافی اور قتل و غارت گری کی بنیاد پر حکمرانی کرنے کا خواب پورا ہونے کا وقت اب گزر چکا ہے ۔ کشمیر یوں کو انصاف فراہم کرنا بھارت کے اپنے وجود کے لیے بہتر ہے ورنہ ظلم اور ناانصافی پر قائم ریاستوں کے وجود بھی مٹ جایا کرتے ہیں یہی تاریخ کا سبق ہے۔

Khurshid Asif Rana

Khurshid Asif Rana

تحریر: آصف خورشید رانا