تحریر: محمد اشفاق راجا پاکستان میں مداخلت کا اس سے بڑا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے کہ بھارت کے سفارت کار اپنے منصب کے برعکس پاکستان میں جاسوسی کا نیٹ ورک چلاتے اور دہشت گردوں کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لئے اکساتے اور سہولتیں فراہم کرتے ہیں۔ یہ سفارت کار ہیں یا تخریب کار؟ سفارت کار تو اپنے ملک کا سافٹ امیج بناتے ہیں لیکن بھارتی سفارت کارتو طالبان کو فنڈنگ کرنے اور پاکستان میں کالعدم تنظیموں کو مضبوط کرکے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کی سپاری دیتے پکڑے گئے ہیں۔جس سے دنیائے سفارت کاری کا منہ بھی کالا ہوا ہے۔ پاکستان کو بھارتی سفارت کاروں کے خلاف تمام ثبوت عالمی سطح پر عام کرنے چاہئیں تاکہ دوسرے ملک سفارت کی آڑ میں تباہی پھیلانے والے بھارت کا اصلی چہرہ دیکھ سکیں۔
بھارت اس وقت تین بڑے معاملات کی وجہ سے پاکستان میں تخریب کاریوں کے مذموم مقاصد رکھتاہے۔ نمبر 1۔ وہ سی پیک منصوبہ کو ختم کرانے کے لئے کے پی کے اور بلوچستان میں شور مچا رہا ہے۔اسکے حواری پاک فوج اور حکومت پر اس منصوبے کے حوالے سے کھلی تنقید کرتے اور علاقائی محرومی کا رونا رورہے ہیں۔ سندھ اور بلوچستان کو غیر مستحکم کرنے میں بھارتی سفارت کاروں کا ہی ہاتھ رہا ہے۔وہ 46 ارب ڈالر کے پاک چین اقتصادی راہ داری منصوبے کو بھی سبوتاڑ کرنے کے لئے پاکستان میں تخریب کاری اور پروپیگنڈہ کی راہ ہموار کررہے تھے۔بھارت نے ایران اور افغانستان میں اپنے جاسوسوں کی مدد سے ایسی فضا پیدا کررکھی ہے جو سی پیک کو نقصان پہنچانے کے لئے خوف اور دہشت کا پرچار کرتے ہیں۔الحمد للہ پاکستان میں پہلا سی پیک کانوائے کامیابی سے اپنی منزل پر پہنچ گیا ہے ،اس کامیابی سے بھارت کے پیٹ میں شدید درد اٹھ رہا اور اسکا کالجہ منہ کو آرہا ہے جس کی وجہ سے اسکی تھوتھنی سے رال اور آنکھوں سے خون بہہ رہا ہے۔
kashmir Movement
نمبر2۔ بھارت مقبوضہ کشمیر میں جاری تحریک کا رخ موڑنااور پاکستان کو کشمیریوں کی حمایت سے روکنا چاہتا ہے، مقبوضہ کشمیر میں اب تک 150 سے زائد کشمیری شہید ہو چکے ہیں اور سوشل میڈیا کا مکمل طور پر بلیک آو¿ٹ کیا گیا ہے۔جو بھی پاکستانی کشمیر کے حوالے سے کوئی پوسٹ لگاتا ہے،فیس بک اور گوگل کی جانب سے اسکو نوٹس مل جاتا اور تصاویر ہٹا دی جاتی ہیں۔ بھارت کی منشا ہے کہ دنیا کی توجہ مقبوضہ کشمیر سے ہٹائی جائے جس کے لیے بھارت تناو¿ میں اضافہ کرنے کی کوشش کر رہاہے۔بھارت نے تین ہزار سے زائد سکول بند کردئے ہیں اور کشمیریوں کو پیلٹ گنوں سے اندھا اور اپاہج بنا رہا ہے۔
نمبر 3 ۔ بھارت نے سرحد پر خلاف ورزیاں کرتے ہوئے پاکستانی افواج کو بھی انگیج کیا ہوا ہے۔ پاکستان کی فوج کی جانب سے ایک بیان میں کہا جاچکا ہے کہ بھارت نے اس برس 2003 کے سیز فائر معاہدے کی 178 مرتبہ خلاف ورزی کی ہے جس کے باعث 19 شہری ہلاک ہوچکے ہیں۔ جبکہ سرجیکل سٹرائیک کی دھمکیاں دینے کے بعد اس نے پاکستان میں وسیع پیمانے پر حملوں کی بھی دھمکی دی تھی۔
Pak Army
یہ وہ تین اہم حساس معاملات ہیں جن پر پاکستان میں ورکنگ ہورہی تھی لیکن بھارت نہیں چاہتا کہ پاکستان کی جری فوج ضرب عضب کے کامیاب آپریشن کو ملک کی ترقی اور استحکام کی وجہ قرار دے۔ بھارت نے پاکستان کو ٹف ٹائم دینے کے لئے کھل کر جاسوسی کا نیٹ ورک تیز کیا۔اس سے قبل کلبھوش دیو کا معاملہ منظر عام پر آچکا ہے کہ کسطرح ایران کی سرزمین استعمال کرکے وہ بلوچستان میں تخریب کاریوں میں ملوث تھا۔پاکستان کے حساس اداروں کی انتھک محنتوں کے بعد جاسوسی کا یہ نیٹ ورک پکڑا گیا ہے تو بھارت سمیت اسکے نمخواروں کو آگ لگ گئی ہے۔ رپورٹس کے مطابق بھارتی سفارت خانے کے جو آٹھ افراد پاکستان میں جاسوسی اور تخریب کاری کا نیٹ ورک چلارہے تھے۔ ان میں فرسٹ سیکرٹری کمرشل انوراگ سنگھ، ویزا اتاشی امردیپ سنگھ بھٹی، اسٹاف ممبرز دھرمیندر سوڈھی، وجے کمار ورما، مدھاون نندا کمار کے ”را” جبکہ اے پی ڈبلیو اور جیا بالن سینتھل بھارتی ایجنسی ”آئی بی” کے لیے کام کرتے تھے۔ بلبیر سنگھ آئی بی کے کارندوں سے پاکستان میں تخریبی کارروائیاں کرواتاتھا۔ دفتر خارجہ نے انوراگ سنگھ کو را کا اسٹیشن چیف قرار دیا ہے۔لہذاپاکستان نے انہیں ناپسندیدہ شخصیت قرار دے کر ملک سے نکال دیا ہے۔
دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس زکریا کے مطابق سرجیت سنگھ بھی بلبیر سنگھ کے نیٹ ورک کا حصہ تھا۔ اس نے عبدالحفیظ کے نام سے موبائل فون کمپنی کا جعلی کارڈ بنوارکھا تھااور بلوچستان میں بالخصوص کارروائیوں کے احکامات دیتا تھا۔اسکے کراچی، فاٹا اورپشاور میں بھی رابطوں کے ثبوت ملے ہیں۔بھارت سفارت کاروں کے خلاف ثبوت ملنے کے بعد پاکستانی وزارت خارجہنے ایک بار پھر کہہ دیا ہے کہ بھارت پاکستان میں دہشت گردانہ کاروائیوں کو فروغ دے رہا ہے اور جیسا کہ کلبھوشن یادیو نے پاکستانی انتظامیہ کو آگاہ کیا تھا، بھارت دہشت گردانہ کارروائیوں میں مالی معاونت بھی فراہم کر رہا ہے۔تجزیاتی رپورٹ بی این پی کے مطابق بھارت کی پاکستان میں کھلی مداخلت اور جارحیت کے بعد اس بات کا فی الحال امکان معدوم نظر آتا ہے کہ دونوں ملک پھر سے مذاکرات کی میز پر بیٹھ کر خوشگوار تعلقات بحال کرنے کا ایجنڈا طے کریں۔یہ اس وقت تک ناممکن نظر آتاہے جب تک تیسرا ملک ثالث بن کر درمیان میں نہیں بیٹھ جاتا۔دیکھئے اب کون سا ملک بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتے ہوئے تناو¿ اور گرم و سرد جنگ کو کم کرنے میں کردار ادا کرنے کی ذمہ داری اٹھاتا ہے۔