تحریر: افضال احمد میری نظروں کے سامنے ایک ایسی معذور لڑکی گھومتی ہے جس نے زندگی بھر بہت سے حسین خواب دیکھے لیکن کوئی بھی خواب پورا نہ ہو سکا۔ میں قریباً 10 سال سے اس لڑکی کو دیکھ رہا ہوں جو ہمارے گھر کے بازو ہی میں رہتی ہے دل نے کہا اس معذور لڑکی کی داستان آپ سب کے سامنے رکھوں شاید آپ یہ داستان آپ کے دماغ میں کہیں کسی کونے پر اثر کر جائے۔اس لڑکی کا نام نورین ہے دائیں ٹانگ اور دائیاں بازوں کام نہیں کرتے بائیں ہاتھ سے لکھتی ہے اور بائیں پائوں سے دائیں پائوں والے کام بھی لیتی ہے۔ دیکھنے میں بہت خوبصورت سی لڑکی ہے بیٹھی ہو تو کوئی مائی کا لعل اندازہ بھی نہیں کر سکتا کہ یہ بیچاری معذور ہے ہاں جب کھڑی ہوتی ہے تو لوگوں کے چہروں پر نفرت آمیز تاثرات برپا ہو جاتے ہیں۔
بچپن ہی سے نورین کو اعلیٰ تعلیم کا شوق تھا ہر کلاس میں اعلیٰ نمبروں سے پاس ہوتی چلی آئی میٹرک کے بعد نورین آگے تعلیم حاصل کرنا چاہتی تھی لیکن اخراجات بہت تھے۔ ہمارے معاشرے میں بسنے والے امیر لوگوں کو عادت سی ہو گئی ہے کہ حق دار کو تو حق دینا ہی نہیں۔ خیر نورین نے ایف ایس سی میں داخلہ لیا اور گھر میں محلے کے بچوں کو پڑھانا شروع کر دیا محلے کے بچے اپنی اس ٹیچر کا مذاق بھی اُڑایا کرتے تھے اور بہت سے والدین اس معذور نورین کے پاس اپنے بچوں کو بھیجنے سے کتراتے تھے کہ ہمارے بچوں پر اس کی معذوری کا کوئی سایہ نہ پڑ جائے۔ جب پڑھنے والے بچوں کی تعداد کم تھی تو گھر اور پڑھائی کے اخراجات پورے نہ ہو پائے تو نورین نے سوچا کہ کچھ اور کرنا پڑے گا تو نورین نے ایک پرچون کی دکان والے سے رابطہ کیا اور اُسے کہا کہ مجھے بچوں کی چیزوں کی پیکنگ کا سامان دے دیا کرو میں پیکنگ کر کے آپ کو واپس کر دیا کروں گی جو پیسے آپ مناسب سمجھیں گے مجھے دے دیجئے گا۔
Hard Work
اب دکاندار بھی ہمارے معاشرے کا ہی ایک ظالم انسان تھا جو معذور بچی سے معذوری کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے نورین کو اس کے کام کی اُجرت پوری نہیں دیتا تھا نورین اگر کہتی کہ مجھے میری اُجرت پوری دو تو دکاندار کہتا میرا احسان ہے جو تم معذور لڑکی کو کام دیتا ہوں جو پیسے دے رہا ہوں میرا احسان سمجھ کر رکھ لو نہیں تو دفعہ ہو جائو۔نورین چاہتی تو بھیک بھی مانگ سکتی تھی اپنی معذوری کا ناجائز فائدہ بھی اٹھا سکتی تھی لیکن نورین نے محنت کرکے کمانے کا فیصلہ کیا تھا۔ وقت گزرتا گیا نورین محنت کرتی رہی لوگوں کی دل خراش باتیں بھی سنتی رہی اور نورین نے اسی دوران ایم ایس سی کر لی۔ اب نورین بہت خوش ہوئی کہ اب مجھے ایک اچھی سی گورنمنٹ ملازمت مل جائے گی لیکن نورین کو کیا پتہ تھا کہ ہماری گورنمنٹ کی نوکریاں مفت میں نہیں ملا کرتیں۔
گورنمنٹ نے ٹیچرز کی نوکریاں اوپن کیں تو نورین نے فوراً نوکری کے لئے درخواست جمع کرا دی اور دن رات حسین خواب سجانے لگی کہ اب میری گورنمنٹ نوکری ہو جائے گی میں بہنوں کی شادیاں کروں گی’ ماں باپ کی دوائی اور ہر ضرورت پوری کروں گی۔ عین ٹائم جب نوکری کیلئے انٹرویو تھا تو کلرک صاحب نے منہ پھاڑ کر اپنے سمیت اوپر کے تمام افسران کیلئے نورین سے 3 لاکھ روپے رشوت طلب کی نورین یہ سن کر دل ہی دل میں رونے لگی خیر یہ نوکری بھی پیسوں کے نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھوں سے نکل گئی۔ یہاں میں تھوڑا واضح کرتا چلوں پرائیویٹ سیکٹر میں نورین نے میٹرک کے بعد ہی نوکری تلاش کرنا شروع کر دی تھی لیکن جہاں بھی انٹرویو دینے گئی وہاں اس کی معذوری آڑے آگئی نورین کو کیا پتہ تھا کہ پرائیویٹ سیکٹر میں لڑکی کو رکھنے کا مقصد اُس کی حسین ادائوں کے ذریعے پیسہ کمانا ہے۔
گورنمنٹ ‘ پرائیویٹ نوکریوں کے تلاش میں نورین نے جو کمایا تھا محنت سے وہ بھی ٹرانسپورٹ کے کرائیوں میں جلا دیا۔ پرائیویٹ سیکٹر میں خوبصورت’ آدھی ننگی عورت کو پسند کیا جاتا ہے جس کی وجہ سے ادارے میں پیسوں کی کمائی میں اضافہ ہو۔ یہاں میں پرائیویٹ سیکٹر میں نوکری کرنے والی خواتین سے گزارش کرتا چلوں کہ چند پیسوں کی خاطر اپنا دین ایمان نہ بیچوں’ پاکستان میں 85 فیصد خواتین شوق سے نوکریاں کرتی ہیں جن کی وجہ سے نورین جیسی ضرورت مند لڑکیاں پیچھے رہ جاتی ہیں۔ نورین گھر میں سب سے بڑی تھی تین بہنیں اور ایک بھائی تھا’ بھائی سب سے چھوٹا تھا۔ والدین نے نورین کی بڑھتی ہوئی پریشانیوں کے باعث نورین کی شادی کرنے کا فیصلہ کر لیا اب ایک تو نورین معذور اُوپر سے جہیز کے لئے بھی چند پھوٹی کوڑیاں موجود نہیں تو کون کرتا نورین سے شادی؟
Wedding
نورین کے والدین نے ایک رشتہ کرانے والی خاتون سے رابطہ کیا جس نے رشتہ دکھانے کیلئے پیسوں کا تقاضا کیا’ جیسے کیسے نورین کے والدین نے رشتہ کرانے والی کو فیس دی اور کہا کہ رشتے دکھائو۔ اب نورین ذرا معذور تھی تو اُس کے لئے رشتے کیسے کیسے آئے یہ سنیں۔ ایک شخص کے 5 بچے تھے جن میں سے 3 بچے نورین سے بھی عمر میں زیادہ تھے ان کی بیوی فوت ہو چکی تھی۔ ایک اور شخص کا رشتہ آیا جس کی 2 بیویاں فوت ہو چکی تھیں’ ایک اور شخص کا رشتہ آیا جس کے پاس نہ تو نوکری تھی نہ ہی کمانے کا کوئی اور ذریعہ۔ نورین کا دل بہت کھٹا ہوا میں نے پہلے بھی واضح کیا کہ نورین ایک خوبصورت لڑکی ہونے کے ساتھ ساتھ انتہاء کی خوبصیرت بھی ہے۔
نورین نے اپنی شادی کے لئے بھی حسین خواب دیکھے تھے کہ ایک اچھا سا خوبصورت سا شوہر ہو گا جو مجھے بہت پیار کرے گا ‘ بہت خیال رکھے گا’ میں بھی اُس کا بہت خیال رکھوں گی’ مل جل کر گھر چلایا کریں گے لیکن نورین ہمیشہ بھول جایا کرتی تھی کہ وہ ایک معذور لڑکی ہے۔ ہمارے معاشرے میں تو صحیح و سالم لڑکیاں رشتوں کے انتظار میں بیٹھی ہیں تو نورین کس کھیت کی مولی ہے۔ نورین آج تک نوکری سے محروم ہے اور رشتے کا تو کچھ پوچھیں نہ’ خدا نورین کیلئے آسانیاں پیدا فرمائے۔ یہاں میں پرائیویٹ سیکٹر مالکان سے گزارش کرتا ہوں کہ معذور لڑکیوں کو بھی اپنی فرم میں جگہ عنایت فرمائیں۔ گورنمنٹ سے گزارش ہے کہ بغیر پیسوں کے بغیر کسی ٹیسٹ کے معذور افراد خصوصاً معذور لڑکیوں کو نوکریاں دی جائیں شاید کہ کوئی لالچی انسان ان معذور لڑکیوں سے گورنمنٹ نوکری ہونے کی وجہ سے شادی کر ہی لے۔پرائیویٹ سیکٹر اور گورنمنٹ سیکٹر یہ ضرور سوچے کہ کل کو آپ کی بہن’ بیٹی بھی معذور ہو سکتی ہے کہیں وہ بھی ”نورین” نہ بن جائے۔
خدا را میرا ساتھ دیں میں ایک ایسا ادارہ قائم کرنا چاہتا ہوں جہاں تمام گھریلو مسائل’ رشتے’ معذور افراد کی سپورٹ’ طلاق کی روک تھام جیسے سب کام موجود ہوں۔ خدارا دیواروں کو سجانا چھوڑ دیں لوگوں کے دلوں کو سجانا سیکھیں۔ خدا کی بنی ہوئی مخلوق کے کام آئیں ‘ درودیوار سب کچھ فنا ہو جانا ہے انسان کا دل روز قیامت دوبارہ زندہ ہو گا جو گواہی دے گا کہ اس انسان نے میرے دل کو تسکین دی تھی۔ میں ہاتھ جوڑتا ہوں سب مخیر حضرات سے اپنی دنیا و آخرت سنوار لیں نورین جیسی بہت سی مثالیں آپ کے آس پاس موجود ہیں ان جیسوں کو جیسا سیکھائیں۔ مخیر حضرات ایسا ادارہ قائم کر جائیں جس میں لوگوں کے دلوں کو سجایا جائے گھروں کو آباد کرنا سیکھایا جائے آپ کے مرنے کے بعد یہ ادارہ آپ کی بخشش کا ذریعہ بنے گا’ میرے ہاتھ میں ہاتھ دیں آئو مل کر اللہ کی مخلوق کو جینا سیکھائیں۔