تحریر: سید انور محمود امریکا کے صدر فرینکلن روز ویلٹ کی دونوں ٹانگیں پولیو کی وجہ سے معذور ہو گئیں تھیں مگر اس نے ہمت نہ ہاری اور وہیل چیئر پر ہونے کے باوجود نیویارک کا گورنر اور پھر 1932ء میں امریکا کا 32 واں صدر بننے میں کامیاب ہوگیا، اور یہ اس کی قابلیت ہی تھی کہ وہ مسلسل تین مرتبہ صدارت کے عہدے کے لیے منتخب ہوا۔یہ بات قابل تعریف ہے کہ امریکی قوم نے ایک معذور آدمی کی صلاحیتوں سے بھرپور فاہدہ اٹھایا۔ امریکا کا ایک اپاہج شخص دُنیا کی طاقتور ترین نشست تک جاپہنچا لیکن بدقسمتی سے ہمارئے ملک ایسا نہیں ہوتا۔ پیر دس اگست کو جسوقت سندھ اسمبلی مچھلی بازار کا منظر پیش کررہی تھی ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) کے ارکان اپنے ایک کارکن کے قتل کے حوالے سے بات کرنے کی اجازت نہ ملنے پر زبردست احتجاج اور ہنگامہ کررہے تھے، ایم کیو ایم کی جانب سے نعرے بازی بھی ہورہی تھی ، پی پی اور ایم کیو ایم کے ارکان گتھم گتھا تھے اور شدید دھکم پیل ہورہی تھی، عین اُسی وقت سندھ اسمبلی سے باہر بیسں معذور افراد نوکریوں کے لیے احتجاج کررہے تھے اورلاٹھی کے سہارے چلنے والےان بیسں معذوروں پر سندھ پولیس بڑی ہی بےدردی سے لاٹھی چارج کررہی تھی، وہ ان مظلوموں کو معذور سمجھ کر نہیں بلکہ دہشت گرد سمجھ کر پیٹ رہی تھی۔
سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے ایک خاص کوٹہ مقرر کیا جاتا ہے ،تا ہم اس پر بھی اگر نوکریاں نہ دی جائیں تو معذور افراد کے پاس احتجاج کرنے کے علاوہ کوئی راستہ نہیں رہتا ۔ سندھ اسمبلی کے باہر معذور افراد نے نوکریوں کے لیے احتجاج کیا ،لیکن ہاتھوں والوں نے معذور افراد پر لاٹھی چارج شروع کر دیا ۔ معذور افراد نے احتجاج سرکاری ملازمتوں پر کوٹہ کے حساب سے نوکریوں پر تعینات نہ کرنے پر کیا ۔ مظاہرین میں عورتیں بھی شامل تھیں، تاہم پولیس حکام نے کسی کو نہ دیکھا نہ سنا ،اور لاٹھیوں کی بارش شروع کر دی، معذور خواتین کو سڑک پر گھسیٹا گیا ۔ جس کے باعث ایک خاتون بے ہوش ہو گئی ۔
سندھ اسمبلی کا مچھلی بازار بند ہونے کے بعد حکومت اور ایم کیو ایم دونوں کو اُن معذوروں کا خیال آیا جنہیں ہماری بہادرپولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔صوبائی وزیر داخلہ اور وزیر بلدیات نے واقعے کے بعد اسمبلی سے باہر آکر معذور افراد سے ملاقات کی۔ اُنہوں نے معذور افراد پر پولیس کے لاٹھی چارج کو افسوسناک قرار دیا اورکہا کہ معاملے کی تحقیقات کے لیے انکوائری کمیٹی تشکیل دے دی ہے، جو 3 روز میں اپنی رپورٹ دے گی ۔ جبکہ متحدہ قومی موومنٹ کی رابطہ کمیٹی نے پولیس تشدد کے باعث زخمی ہونے والے معذورین سے دلی ہمدردی کااظہار کیا اور ارباب اختیار و اقتدار سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد اورخواتین پر تشدد میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف فی الفور کارروائی عمل میں لائی جائے، اس میں ملوث اعلیٰ حکام کو فی الفور برطرف کیاجائے۔
Blind People Protesters
ہمارئے حکمران عوام کے مفاد کے وقت اندھے بھی ہوتے ہیں اور بہرئے بھی ۔ کوئی اس بات کی امید نہ رکھے کہ 10 اگست کو معذروں کے ساتھ جو کچھ ہوا اسکے بعد اُن کے ساتھ ہمدردی کی جائے گی یا یہ جو انکوائری کمیٹی کا ڈرامہ تشکیل دیا گیا ہے اُسکا کوئی نتیجہ برآمد ہوگا، اس کی ایک مثال یہ ہے کہ تین دسمبر 2014ء کو لاہور میں معذور افراد کے عالمی دن کے موقع پر نابینا افراد نے ڈیوس روڈ پر ریلی نکالی جس میں معذور افراد نے حقوق کی عدم فراہمی کے پیش نظر احتجاجا وزیراعلیٰ سیکرٹریٹ جانے کی کوشش کی تو پولیس نے معذور افراد کا خیال کئے بغیر اُن پر لاٹھی چارج شروع کردیا جس کے نتیجے میں متعدد نابینا افراد زخمی ہوگئے جس کے بعد معذور افراد نے ڈیوس روڈ پر حکومت کیخلاف شدید نعرے بازی کی اور انہوں نے مطالبہ کیا کہ انہیں ملازمتوں میں معذور افراد کا کوٹہ دیا جائے اور آئین میں موجود تمام حقوق فراہم کئے جائیں۔ بعد میں وزیراعلیٰ پنجاب شہباز شریف نے معذور افراد پر تشدد کا نوٹس لیا اور ڈی آئی جی آپریشنز سے رپورٹ طلب کرکے انکوائری کا حکم دیتے ہوئے کہا کہ معاملے کی فوری رپورٹ دی جائے خصوصی افراد پر تشدد کسی صورت برداشت نہیں کیاجائے گا ذمہ دارن افسران کیخلاف سخت کارروائی کی جائے گی۔ کوئی رپورٹ یا کوئی کارروائی نہیں جناب ، کچھ نہیں، اگر کسی کو معطل کیا گیا ہوگا تو وہ بحال ہوچکا ہوگا۔
اقوام متحدہ نے 1982ء میں معذور افراد کے حقوق کو انسانی حقوق کا درجہ دیتے ہوئے تمام ممبر ممالک سے مطالبہ کیا کہ معذور افراد کو صحت ،تعلیم اور ملازمت میں عام افراد کے برابر مواقع فراہم کریں۔ اقوام متحدہ کی معذور افراد میں اس قابل فخر دلچسپی کا خاطرخواہ فائدہ ہوا اور دنیا بھر میں معذور افراد کو اقوام متحدہ کی ہدایت پر نہ صرف’’اسپیشل پرسنز‘‘ کا خطاب دیا گیا بلکہ ان کی کفالت اور ملازمت کا بھی مناسب انتظام کیا جانے لگا۔ پاکستان بھی اگرچہ ان ممالک کی فہرست میں شامل ہے جنھوں نے معذور افراد سے متعلق اقوام متحدہ کے چارٹر پر دستخط کر رکھے ہیں مگر حکومت پاکستان کے لیے دوسرے ممالک کے برعکس اس چارٹر پر عمل کرنا ضروری نہیں سمجھا گیا۔
Beggars
ہمارے ملک میں جسمانی طور پر معذور تعلیم یافتہ افراد کے ساتھ جس سفاکی کا سلوک کیا جاتا ہے یہ نہایت مکروہ اقدام ہے۔ شاید یہی وجہ ہے کہ ہمارے اس گندئے رویے نے پاکستان میں بھکاریوں کی ایک وسیع انڈسٹری پیدا کر دی ہے جس میں جرائم کی پرورش بھی کی جاتی ہے شرمناک بات یہ ہے کہ جسمانی اعتبار سے معذور افراد کو ناکارہ افرادی قوت کے کھاتے میں ڈال دیا گیا ہے۔ کاغذات کے مطابق سرکاری ملازمتوں میں معذور افراد کے لیے 2 فیصد کوٹہ مختص تو ہے لیکن یہ کوٹہ حقداروں کو نہیں مل رہا ہے۔ برطانیہ اور امریکا کے علاوہ بیشمار مغربی ممالک میں معذور افراد کو نجی، سرکاری اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں میں فخر کے ساتھ ایڈجسٹ کیا جاتا ہے کیونکہ معذور افراد ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دے رہے ہیں جو بعض اوقات لاتعداد صحتمند افراد کے بس کا روگ بھی نہیں ہے، جیسا کہ دو ایسے کوہ پیماؤں نے دنیا کی بلند ترین چوٹی ماؤنٹ ایورسٹ سر کی جن میں ایک ٹانگ اور دوسرا بازو سے معذور ہے۔ ہیلن کیلر بھی معذور تھی جس نے اشاروں کی زبان متعارف کروائی جو آج دنیا میں گونگوں اور بہروں کے لیے امید اور روشنی کا کامیاب استعارہ بن چکی ہے۔
بدنصیبی سے پاکستان کے ہر شعبے میں کرپشن کینسر کی طرح پھیل چکا ہے جس کی وجہ سے پاکستان کی 60 فیصد آبادی خط غربت کے نیچے زندگی بسر کر رہی ہے،عالمی سطح پر خط غربت یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے آمدن کے برابر ہے۔ عالمی بینک کی رپورٹ ”ورلڈ ڈویلپمنٹ انڈیکیٹر“ کے مطابق پاکستان کے 60 فیصد افراد کی آمدن یومیہ دو ڈالر یا دو سو روپے سے بھی کم ہے، جبکہ اکیس فیصد آبادی انتہائی غربت کا شکار ہے۔ ان حالات میں کرپٹ حکمرانوں سے یہ امید کرنا کہ وہ معذور لوگوں کے ساتھ انصاف کرینگے ناممکن ہے، لیکن کم از کم وہ ان مظلوموں پر پولیس کے زریعے دہشتگردی تو نہ کریں۔ دس اگست کو اسمبلی کے اجلاس میں سندھ کےوزیراعلیٰ قائم علی شاہ خود موجود تھے اور وزیراعلیٰ کے ہوتے ہوئے اسمبلی کے باہر معذور افراد اور خواتین کو جس طرح سے پولیس نے تشدد کا نشانہ بنایا ہے وہ شرمناک ہی نہیں بلکہ سندھ حکومت اور اس کے وزراء کی کھلی بے حسی کا ثبوت ہے جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے ۔ وزیراعلیٰ صاحب یہ بیس بےبس معذور افراد دہشتگرد نہیں تھے۔