اختلاف اور اس کے آداب

Disagreement

Disagreement

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

اختلاف تو انسانی زندگی کا حسن ہے اور اس کا موجود ہونا اچھنبے کی بات نہیں البتہ اختلاف کو دشمنی کا موجب بنا لینا درست نہیں۔بلکہ اختلاف کے ذریعہ سے لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کرنے کی سعی کی جائے جو کہ بالفعل شریعت میں مطلوب بھی ہے۔ ذیل میں اس بات کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا جارہاہے۔لوگ اختلاف کرتے ہیں اور یہ اختلاف تاابد باقی رہے گا۔اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے کہ اختلاف ہمیشہ باقی رہے گا۔اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا بیوی سے مختلف طبیعت کے ساتھ ،مردوعورت کے درمیان اختلاف کی یہ کشمکش تو رہنی ہی ہے تاہم میاں بیوی نے اپنے تعلقات کو قائم و دائم بھی رکھنا ہوتاہے۔ صورت مسئلہ کو سمجھنے میں ییہ مثال معاون ثابت ہوگی کہ ایک جماعت کمرہ میں موجود ہو اور ان میں سے ہر ایک کمرہ کے الگ الگ زاویہ پر براجمان ہو اور کمرہ میں ایک لٹکتی ہوئی چیز یا پانی کے شیشہ والے برتن بھی رکھے ہوں اور بیٹھنے والوں میں سے ہر ایک اپنے دوست کے مخالف سمت میں بیٹھا ہوا نظرآتا ہے۔ عین ممکن ہے یہ مجموعہ اندھے افراد پر مشتمل ہو اور ان کے سامنے ایک بڑا جانور لایا جائے اور ان سے پوچھا جائے کہ یہ کونسا جانور ہے ۔ایک کے سامنے جانور لایا جائے اور اس سے کہا جائے کہ اس کو ہاتھ لگائو۔وہ ایک اس کے کان پر ہاتھ لگالے اور اس سے پوچھا جائے کہ ہاتھی کیا ہے وہ کہے گا کہ ہاتھی ایک ایسی چیز ہے جو اوڑھنے کے کام آتی ہے جب انسان سوناچاہتاہو۔ دوسرے سے کودیکھایا گیا تو اس کا ہاتھ ہاتھی کی سونٹ پر لگے تو اس سے معلوم کیا جائے کہ ہاتھی کیا ہے جواب میں و ہ کہے گا کہ وہ ایک مضبوط رسی کا مجموعہ کا نام ہے۔

اس بات میں شک نہیں کہان لوگوں نے غلط نہیں کہا مگر یہ بھی سچ ہے ہاتھی کے بارے میں جوکچھ انہوں نے تصور پیش کیا وہ کامل نہیں بلکہ ان کے فہم و مشاہدہ میں جو بات آئی انہوں نے وہ بیان کردی جو کہ ہاتھی کی مکمل حقیقت کو بیان نہ کرسکی۔ اسی طرح انسانوں میں سے ہر انسان جو کچھ جانتاہے وہ ہر چیز کا احاطہ نہیں کرسکتاالبتہ بات یہ ہے کہ انسان اس بارے میں بات کرسکتا ہے جو اس کے مشاہدہ میں آجائے لہذا کسی انسان کا یہ دعویٰ بالکل غلط ہے کہ وہ سب کچھ جانتاہے اور اس سے کچھ بھی پوشیدہ نہیں۔قرآن میں بھی ارشاد ہواہے کہ لوگوںپر دنیا کے اصرار میں سے بعض ظاہرہوتے ہیں اور بہت زیادہ پوشیدہ۔۔۔زندگی کے تمام حقائق کو جاننے کا دعویٰ کرنا درست نہیں۔ اسی طرح تاریخ کے احوال و وقائع کی کیفیت ہے کہ لوگ کچھ کو جانتے ہیں اور بہت سے حقائق سے ناآشنا ہوتے ہیں۔

اختلاف اسی طرح ہوتاہے ،لیکن مشکل کہاں واقع ہوتی ہے؟ مشکل بات یہ ہے کہ اختلاف کرنے والوں میں سے کوئی یہ سمجھ بیٹھے کہ سچ و حق صرف اس کے پاس ہے باقی سب غلطی پر ہیں۔وہ یہ نہیں جانتا کہ لوگوں کی اکثریت جو اس کے مخالف ہے ممکن ہے حقیقت کی بڑی نشانی ان کے پاس ہو۔ہونا تو یہ چاہیے کہ اپنے مافی الضمیر کا اظہار کرنے کے ساتھ اس بات کو پیش نظر رکھے کہ حق اس کے فریق مخالف کے ساتھ ہوسکتاہے اور حق جان لینے کے بعد اپنی رئے پر معذرت کرنے کا جذبہ بھی موجود ہو۔نہ کہ اپنے رائے کے درست ثابت نہ ہونے پر دشمنی پر اتر آئے اور لوگوں سے نفرت کرنے لگے۔فقہاء کی کامیابی کا راز یہی ہے کہ وہ اس بات پر کاربند رہے کہ وہ اپنا مئوقف پیش کرنے کے ساتھ دوسرے کے مئوقف کو احترام کی نظر سے دیکھتے رہے۔یہ طریقہ اختلاف انہوں نے نبی اکرمۖ سے سیکھا کہ آپۖ صحابہ کرام کے اختلاف کو کس طرح حل فرماتے اور یہاں تک کہ صحابہ آپۖ کی رائے سے بعض اوقات اختلاف بھی کرتے تھے مگر احترام و تکریم پیغمبری کو پیش نظر رکھتے تھے۔صحابہ کرام کا باہم بھی یہی طرز عمل رہاکہ وہ ایک دوسرے سے اختلاف تو کرتے مگر تکریم انسانیت کو ملحوظ رکھتے تھے۔اختلاف کا وجود معیوب نہیں تاہم اس کو اسباب عداوت بنا لینا یہ بڑا جرم ہے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ صحابہ کرام آپۖ سے اختلاف کا اظہار کھلم کھلا کرتے تھے۔جیسے آپۖ کا حکم ہواکہ کوئی عصر کی نماز بنی قریظہ میں جانے تک نہ بڑھے۔بعض صحابہ نے جلدی کرتے ہوئے نماز عصر پہلے اداکرلی اور بعض نے بنی قریظہ پہنچنے تک نماز عصر ادانہیں کی۔آپۖ کو مطلع کیاتو آپ ۖ نے نہ کسی فریق کو غصہ کیا نہ ہی کسی کو درست کہا ۔یہاں سے یہ درس ملتا ہے کہ مسئلہ کو سمجھنے میں اختلاف کا واقع ہونا معیوب نہیں بلکہ یہ مطلوب شریعت ہے ۔ایسا اختلاف رکھنا دشمنی کو جنم نہیں دیتا اور بڑوں کے درمیان اچھے تعلقات کا باعث بھی رہتاہے اور فقہاء کے درمیان رواداری کا موجب بنتاہے۔فقہ کے میدان میں ہم دیکھتے ہیں کہ فقہ حنفی صرف امام ابوحنیفہ کی فکر و آراء کا مجموعہ نہیں بلکہ امام ابویوسف،امام محمد بن حسن شیبانی اور امام زفر وغیرہ کی آراء بھی فقہ حنفی کا ماخذ و مرجع و مرکب ہیں۔یہی طرز تمام فقہاء کے مذاہب کے ساتھ روارکھا گیاہے۔

معاشرتی و سیاسی اور اقتصادی زندگی میں آسانیاں پیدا کرنے کے لیے فقہاء کے اصول و قواعد ترتیب دئیے ہیں ۔لیکن اس میں انہوں اس بات کا اہتمام بھی کیا ہے کہ دوسرے امام کی فقہ کو ان کی رائے سے گزند نہ پہنچے۔کیونکہ اختلاف میں تو بے پناہ لچک موجود ہے اور اسلامی فکر کی یہ انفرادیت ہے کہ اس میں کشادگی اور رواداری کو یقینی بنایا گیا ہے۔امام ابوحنیفہ کی فقہ میں رواداری کی اس سے بڑی مثال کیا ہوگی کہ ان کی فقہ صرف ان کی آراء کا مجموعہ نہیں قرارپائی بلکہ امام صاحب کے شاگردوں کو اجازت تھی کہ وہ امام صاحب سے اختلاف کرتے رہتے تھے۔امام ابویوسف نے مالیاتی امور پر قلم کو حرکت دی اور امام محمد حسن شیبانی نے سیاسی امور پر کام کیا۔معلوم ہوتاہے فکری اختلاف کا ظاہر ہونا فطری امر ہے اور اختلاف برائے اصلاح و سہل پسندی کاموجب ہو تو مستحسن ہے اور اگر اختلاف وجہ نزاع و عداوت بن جائے تو یہ مترود ہے۔انسان معاشرے میں اختلاف کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے کیونکہ بسااوقات معمولی اختلافات کی وجہ سے کشت و خون کا بازار گرم کردیا جاتاہے جو کسی صورت بھی انسانیت کے حق میں بہتر نہیں ہے۔

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری