ذہن پر تہ در تہ جمی دھول، خیالات آپس میں گَڈ مَڈ اور وجود پر ایک عجیب سی بے کلی۔ قلم اُٹھاؤ تو پہروں سوچتے رہ جاؤ کہ کیا لکھنا ہے اور کیوں لکھنا ہے؟۔ مایوسیوں کا یہ عالم کہ جانبِ زیست جست بھرنے کی تمنا بھی مفقود۔ سوچوں کا محور یہی کہ اِس قعرِ مذلت سے نکلنے کی کوئی راہ ہے یا نہیں؟ شب وروز سجنے والے عجب تماشوں سے اماں ملے گی یا نہیں؟۔ حبّ ِ وطن میں غرق آشفتہ سروں کی صدائیں تعیش کے نقارخانوں میں گونجیں گی یا نہیں؟۔ کب یاس کے پنچھی کو آس کا نخلستان نصیب ہو گا، کب چمن مہکے گا، کب بہار آئے گی؟۔
شاید اِس دَورِجدید کے تقاضے ہی ایسے ہوں جن پر پورا اترنا ہم جیسوں کے لیے محال اور شاید ہماری بے کلی کا سبب بھی یہی۔ سیاسی میدان تو عشروں سے سجتے چلے آ رہے ہیں۔ جلسے بھی ہوتے، جلوس بھی نکلتے لیکن افراتفری کا جو عالم اب ہے وہ پہلے تو نہ تھا۔ ہم نے اچھرہ میں مولانا مودودی کے لیکچر سنے، شوکتِ اسلام کے عظیم الشان جلوس دیکھے ،پی این اے کی تحریک میں ادب شناس سیاستدان نواب زادہ نصراللہ خاں کے شائستہ وشُستہ سیاسی تقاریر پر گوش بر آواز ہوئے ۔ شورش کاشمیری اور حبیب جالب کی انقلابی نظمیں سنیں لیکن کبھی ایسا نہ ہوا کہ اِن رہنماؤں نے شائستگی کا دامن چھوڑا ہو۔ لیکن اب ہمارے رَہنماء نسلِ نَو کو متوجہ کرنے کے لیے میوزیکل کنسرٹ کا سہارا لیتے ہیں اور جب ابرار الحق کا گانا ”اَج میرا نَچنے نوں جی کردا” کانوں کے پردوں پہ گرتا ہے تو یہی نسلِ نَو( جس کی تربیت ہمارا فرضِ عین ہے) بے اختیار تھرکنے لگتی ہے۔ کیا اسی لیے ہزاروں عفت مآب بیبیوں کی عصمتیں لٹا کر اور لاکھوں شہیدوں کی قربانی دے کر زمین کا یہ ٹکڑا حاصل کیا گیا تھا؟۔ کیا اقبال کا خواب اور قائد کی جدوجہد کا ثمر یہی تھا؟۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ بھٹو کے خلاف پی این اے کی احتجاجی تحریک کے دوران بھٹو کی حامی خواتین ایک ریلی کی صورت میں ضلع کچہری ساہیوال کی سڑک سے نعرے لگاتی اور تالیاں بجاتی ہوئی گزریں۔ خواتین کے اِس فعل کو کسی نے بھی پسند نہیں کیا حتّٰی کہ پیپلزپارٹی کے جیالوں نے بھی نہیں کہ شریف بیبیوں کا ایسا عمل معیوب سمجھا جاتا تھالیکن ۔۔۔۔ لیکن اب تو کوئی سیاسی جلسہ اُس وقت تک سجتا ہی نہیں جب تک نوجوان لڑکے اور لڑکیاں تھرکتے ہوئے نہ پائے جائیں، جب تک میوزیکل کنسرٹ کی دھنیں جذبات میں اشتعال پیدا نہ کریں اور جب تک کنٹینر پہ کھڑے وزیرِاعلیٰ تک بھی تھرکنے نہ لگیں۔
عام انتخابات 2018ء کی آمد آمد ہے۔ ہر سیاسی جماعت نے اپنی اپنی ”منڈلی” سجا رکھی ہے۔ جھوٹ کی اِس آڑھت میں ضمیر فروشوںکی بولیاں لگ رہی ہیں۔ ہر جماعت جیتنے والے اُمیدوار پر داؤ کھیلنے کے لیے تیار۔ کپتان بھی کہتے ہیں کہ جیتنے والے اُمیدواروں (الیکٹیبلز)کو ٹکٹ دے کر ہی وزارتِ عظمیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے تاکہ نئے پاکستان کی تشکیل کی جا سکے۔ گویا یہ الیکٹیبلز ہی اقتدار تک پہنچنے کی سیڑھی ٹھہرے۔ سوال مگر یہ کہ کیا ”تَن اُجلے، مَن میلے” لوگوں کے اعمال وافعال سے بھی کبھی کسی کا بھلا ہوا ہے؟۔ اِن ”الیکٹیبلز” کو ہر سیاسی جماعت اپنا اثاثہ سمجھتی ہے حالانکہ اِن میں سے کئی ”انگوٹھا چھاپ” ۔ سیاسی جماعتوں کی نظریں اقتدار کے اونچے ایوانوں پر ، خواہ اِس کے لیے کسی گٹر ہی میں کیوں نہ اترنا پڑے۔
اِن بزعمِ خویش رَہنماؤں کو کون سمجھائے کہ حکمت ودانائی کسی کی میراث نہیں۔ تاریخ گواہ کہ یہ متاعِ گراں مایہ اکثر حبّ ِ دنیا سے بے نیازاُن فقیروں کے ہاں دستیاب ہوئی جن کے افکاروخیالات کے تابندہ نقوش آج بھی اقوامِ عالم کے رَہنمائ۔ یہ متاع حبّ ِ جا ہ اور دولتِ دنیا کے حریصوں کے ہاں نایاب ۔ بدقسمتی مگر یہ کہ ہماری سیاسی آڑھت میں صرف یہی ”بکاؤ مال” دستیاب ۔ انتخابات 2018ء میں انہی100 سے زیادہ سیاسی گھرانوں کی بالادستی اور طُرفہ تماشہ یہ کہ اِن میں سے بعض خاندانوں میں باپ بیٹا، دادا پوتا، نانا نواسہ، بہن بھائی، بھتیجا بھتیجی، چچا چچی، پھوپھا پھوپھی ،سبھی الیکشن لڑ رہے ہیںاور یہ سبھی ٹکٹ ہولڈر بھی کہ الیکٹیبلز جو ٹھہرے۔ کاش کہ ہماری قوم میں اتنا سیاسی شعور آجائے کہ وہ ”کھمبوں” کو ووٹ دینے کی روایت ترک کر کے اپنے ضمیر کی آواز پر ووٹ دے سکے۔ تحقیق کہ روزِ حساب اِن سے یہ سوال بھی کیا جائے گا کہ جب تمہیںاپنا رَہنماء چننے کا اختیار دیا گیا تو تمہارا انتخاب کیا تھا؟ ۔ فی الحال تویہی نظرآتا ہے کہ حکمرانی اِنہی الیکٹیبلز کی ہوگی خواہ وہ کسی بھی جماعت سے ہوں۔ ”ووٹ کو عزت دو” کا نعرہ مقبول ضرور اور اِس کی اثر پذیری بھی عیاں لیکن ”مہربان” بھی کمر بستہ کہ نوازلیگ کسی بھی صورت میں قبول نہیں۔
جنامی گرامی الیکٹیبلز کے کاغذاتِ نامزدگی کے ساتھ جمع کروائے گئے حلف نامے چشم کشا لیکن قوم کے ساتھ بھونڈا مذاق بھی۔ اِس طبقے نے اپنے اثاثے تو عیاں کر دیئے لیکن اثاثوں کی قیمتیں رائج الوقت نہیں ،پچاس سال پرانی۔ پھر بھی قوم کے درد میں گھلے جانے والوں کے اثاثے اربوں کھربوں میں۔ ایسی جمہوریت بھلا کیونکر ثمر آور ہو سکتی ہے جس کی بنیاد ہی جھوٹ پر رکھی گئی ہو۔ شاید یہی وجہ ہو کہ سات عشرے گزر چلے لیکن جمہوریت اپنی جگہ ساکت وجامد اور جمہور کی آواز بمانند صدا بصحرا۔ یوں تو ”بابا رحمت ” جاوبے جا ازخود نوٹسز کی بھرمار کیے بیٹھے ہیں۔
وہ ہر روز برق کی مانند جھپٹتے ،پلٹتے نظر آتے ہیںلیکن الیکٹیبلز کی اِس صریحاََ دروغ گوئی کی طرف توجہ کیوں نہیں؟۔ اِس معاملے میں عصائے عدل کہاں جا سویا، آرٹیکل 62-1F کا کیا ہوااور صادق وامین کے شورِقیامت پر یکلخت سکوتِ مرگ کیوں طاری ہوگیا؟۔ کہیں یہ خوف دامن گیر تو نہیںکہ اگرصداقتوں اور امانتوں کی شمشیر برہنہ ہوگئی تو اسمبلیوں میں پہنچنے والوں کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکے گی؟۔ شاید ہمارا معیارِ عدل بھی ”نظریۂ ضرورت” کا محتاج کہ جہاں ضرورت ہو ،وہاں ایک ”اقامہ” بھی کافی اور جہاں سب کچھ روزِ روشن کی طرح عیاں ہو وہاں صرفِ نظر کہ نظریۂ ضرورت کا تقاضہ یہی۔ سلگتا ہوا سوال یہ کہ اِس پُتلی تماشے میں کیا جمہور یا جمہوریت کا بھلا ہو سکتا ہے ؟اگر نہیں تو پھر کیا فائدہ انتخابات میںاربوں کھربوں صرف کرنے کا۔ اگر ایسے ہی انتخابات ہونے ہیں جن میں صرف پیسہ بولے تو پھر آمریت بھی بری نہیں۔ اِس میں کم از کم پیسے کا زیاں تو نہیں ہوتا۔ مہربان چپکے سے آتے ہیں اور قوم کو تب پتہ چلتا ہے جب فضاؤں میں ”میرے عزیز ہم وطنو! کی صدائیں گونجنے لگتی ہیں۔ یہ محض کہنے کی باتیں ہیںکہ ”بدترین جمہوریت ،بہترین آمریت سے بہتر ہے”۔ ہم نے تو یہی دیکھا کہ ” جمہوری آمریت” زیادہ خطرناک ہے طالع آزماؤں کی آمریت سے۔ اگر ہم نے جمہوریت کو ثمربار کرنا ہی ہے تو پہلے اِن الیکٹیبلز سے جان چھڑانی ہوگی۔ جب تک یہ مسلط رہیں گے،کسی کا بھلا نہیں ہوگا، ملک کا نہ قوم کا اور نہ ہی جمہوریت کا۔