کراچی (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں پروگریسو یوتھ الائنس کے رکن امر فیاض گزشتہ ایک ماہ سے مبینہ طور پر لاپتہ ہیں۔ امر کی اہلیہ کے مطابق آٹھ نومبر کی شب جامشورو سے ویگو وین میں سوار ’سادہ لباس پہنے افراد‘ نے انہیں جبری طور پر اٹھایا تھا۔
چونتیس سالہ امر فیاض گزشتہ ایک ماہ سے لاپتا ہیں۔
پاکستانی صوبہ سندھ کے شہر جامشورو میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے قریب واقع ایک واٹر پمپ کے سامنے 8 نومبر کی رات دو نوجوان لڑکوں کو مبینہ جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ ان دو لڑکوں کے نام امر فیاض اور سرویچ نوہانی بتائے گئے ہیں۔
لاپتا امر فیاض کی اہلیہ سپنا امر شیخ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ ان کے شوہر امر فیاض پچھلے ایک ماہ سے لاپتہ ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو اردو سے بات چیت میں کہا کہ ان کے شوہر آٹھ نومبر کی رات تقریباﹰ 1:30 بجے جامشورو میں لیاقت میڈیکل یونیورسٹی کے سامنے واقع ایک واٹر پمپ کے قریب اپنے دوستوں کے ساتھ بیٹھے تھے۔ اس دوران وہاں مبینہ طور پر پولیس کی تین ویگو گاڑیاں پہنچیں، جس میں سادہ لباس میں لوگ سوار تھے اور وہ اسلحے کے زور پر امر اور سرویچ کو اغوا کر کے ساتھ لے گئے۔ انہوں نے باقی تین دوستوں کو ایک کمرے میں بند کر دیا تھا۔
سپنا امر شیخ کے بقول، ’’اگلی صبح امر کے دوستوں نے انہیں آ کر بتایا کہ امر کو نامعلوم افراد اٹھا کر لے گئے ہیں۔‘‘
امر فیاض کے ایک دوست نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہوں نے نو نومبر کے روز علاقائی پولیس اسٹیشن میں رپورٹ درج کرانے کی کوشش کی لیکن پولیس نے رپورٹ درج کرنے سے انکار کر دیا۔ اس کے بعد حیدر آباد ہائی کورٹ میں ایک پٹیشن دائر کی گئی تاکہ پولیس کو تفتیش اور رپورٹ درج کرنے کے احکامات جاری کیے جائیں۔
حیدر آباد میں امر کے وکیل عبدالرزاق درس نے ڈی ڈبلیو اردو کو بتایا کہ امر کی اہلیہ نے اپنے شوہر کی جبری گمشدگی کی حیدر آباد ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کی ہے تاہم عدالت میں کیسز زیادہ ہونے کی وجہ سے گزشتہ ہفتے ان کا نمبر نہیں آ سکا تھا اور کیس کی سماعت نہ ہو سکی۔
وکیل کے مطابق جامشورو پولیس اسٹیشن نے پہلے ایف آئی آر درج کرنے سے انکار کر دیا تھا تاہم پٹیشن جمع کرانے کے عدالتی نوٹس کے بعد امر کی اہلیہ کا پولیس اہلکاروں نے بیان ریکارڈ کرایا۔ لیکن عدالت میں پٹیشن ابھی زیرالتوا ہے۔
34 سالہ امر فیاض حیدر آباد میں بائیں بازو کی ایک تنظیم ’پروگریسو یوتھ الائنس‘ کے متحرک کارکن ہیں۔ امر اس تنظیم کے ساتھ طلبہ کے حقوق، طلبہ یونینز کی بحالی اور مفت تعلیم جیسے معاملات کے لیے سرگرم عمل رہتے تھے۔
امر اپنی بیوی اور بیٹی کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے حیدر آباد میں مقیم تھے۔
اس کے علاوہ امر نے اکثر بائیں بازو کے سیاسی نظریات کی کتب کے سندھی زبان میں ترجمے بھی کیے تھے۔ انہوں نے حال ہی میں ’مارکسزم، عہد حاضر کا واحد سچ‘ نامی ایک کتاب کا سندھی ترجمہ بھی کیا تھا۔
امر کے دوست کے مطابق خیرپور میں شاہ عبدالطیف بھٹائی یونیورسٹی سے ابلاغیات میں ماسٹرز ڈگری حاصل کرنے والے امر فیاض ایک بیٹی کے والد ہیں۔ ان کے دوست نے بتایا کہ امر فیاض ایک ترقی پسند سوچ کے حامل سیاسی کارکن ہیں اور وہ سندھ میں لاپتا افراد کی بازیابی کے حوالے سے بھی فعال رہ چکے ہیں۔
امر کی اہلیہ اور ان کی بیٹی گزشتہ ایک مہینے سے امر فیاض کی واپسی کی راہ دیکھ رہے ہیں۔ امر کی اہلیہ سپنا نے ڈی ڈبلیو اردو سے گفتگو میں کہا کہ امر کی نہ کسی کے ساتھ دشمنی تھی اور نہ ہی انہیں کسی قسم کی دھمکیوں کا سامنا تھا۔ ان کے بقول، ’’امر طلبہ کے حقوق کے لیے کوشاں تھے۔ ہمارا صرف یہ مطالبہ ہے کہ اگر ان کا کوئی جرم ہے تو انہیں عدالت میں پیش کیا جائے۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا کہ انہیں شبہ ہے کہ امر کی جبری گمشدگی میں ملکی خفیہ ایجنسی کے اہلکار ملوث ہوسکتے ہیں۔ سپنا کے بقول، ’’پاکستان میں مسنگ پرسنز کے معاملات کسی سے چھپے نہیں ہیں، گزشتہ تین چار سال سے ایسے متعدد واقعات ہو رہے ہیں۔ اسی لیے ریاستی اداروں پر ہی شک ہے۔‘‘
گزشتہ ایک ماہ کے دوران امر فیاض کی بازیابی کے لیے پاکستان کے مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی ممالک میں واقع پاکستانی سفارت خانوں کے سامنے بھی احتجاج کیا گیا۔ جرمن دارالحکومت برلن میں طلبہ کی تنظیم مارکسسٹ اسٹوڈنٹس الائنس نے بھی پاکستانی سفارتخانے کے سامنے 23 نومبر کو ایک مختصر احتجاجی مظاہرہ کیا تھا۔
اس مظاہرے کے منتظمین نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ امر کی بازیابی تک احتجاجی مہم جاری رہے گی۔ انہوں نے جرمنی میں انسانی حقوق کی تنظیموں اور بائیں بازو کی سیاسی جماعتوں کے ارکان پارلیمان کو بھی اس بارے میں آگاہ کیا ہے تاکہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں رکوانے کے لیے اپنا کردار ادا کر سکیں۔
ادھر امر کی اہلیہ نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ وہ پروگریسو یوتھ الائنس کے ممبران سے مسلسل رابطے میں ہیں۔ اس کے علاوہ لاپتا افراد کی بازیابی کی تنظیم وائس فار مسنگ پرسنز آف سندھ نے بھی امر کی بازیابی کے لیے احتجاجی مظاہرے کیے ہیں۔ سپنا کے مطابق حکومتی یا قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں میں سے کسی نے بھی ابھی تک ان سے رابطہ نہیں کیا۔
جبری گمشدگیاں پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال پر کئی دہائیوں سے ایک بدنما داغ رہی ہیں۔ جبری گمشدگی کو جرم قرار دینے کے حق میں ماضی کی حکومتوں کی جانب سے کئی دعوے کیے جاتے رہے ہیں لیکن قانون سازی میں سست روی کی وجہ سے آج بھی کئی افراد جبری طور پر لاپتہ ہو رہے ہیں۔
اپتہ افراد سے متعلق انکوائری کمیشن (COIED) کی ایک حالیہ رپورٹ کے مطابق رواں برس اگست کے اواخر تک پاکستان بھر سے کل 6752 جبری گمشدگیوں کے کیس درج ہوئے، جن میں سے 3672 افراد زیر حراست ہیں، 2097 کی ان کے گھروں میں واپسی ہو چکی ہے اور 2110 کیسز ابھی تک حل نہیں ہو سکے۔
اسی رپورٹ میں شائع کیے گئے اعداد و شمار میں 213 لاپتا افراد کی لاشیں ملنے کا بھی ذکر ہے۔ اس کے علاوہ جبری گمشدگی کے سب سے زیادہ واقعات صوبہ خیبر پختونخوا میں 2571، صوبہ سندھ میں 1618، پنجاب میں 1406، بلوچستان میں 509، اسلام آباد اور فاٹا دونوں سے 291، پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں 57 اور گلگت بلتستان میں ایسے نو کیس رپورٹ کیے گئے۔
پاکستان میں لاپتا ہونے والے افراد میں نمایاں طور پر سندھی، بلوچ، پشتون، شیعہ مذہبی برادری، سیاسی کارکن، انسانی حقوق کے محافظ، قوم پرست گروپوں کے حامی، مسلح گروہوں کے مشتبہ ارکان اور کچھ کالعدم سیاسی اور مذہبی تنظیموں کے افراد شامل رہے ہیں۔