تحریر : ڈاکٹر تصور حسین مرزا جب ہم بارودی گولہ پاکستان کی حدود میں پھینکتے تو وہ گولہ کوئی سفید لباس میں ملبوس فورس اُس کو ہاتھ میں پکڑ کر واپس ہماری طرف پھینک دیتی، جب تک وہ گولہ اُس سفید لباس والے جوانوں کے ہاتھ میں رہتا تو وہ نہ تو پھٹتااور نہ ہی کسی قسم کا نقصان کرتا، مگر جیسے ہی وہ فولادی جوان واپس ہماری طرف پھینکتے تو وہ فوراً پھٹ بھی جاتا اور ہمارا بہت بڑا نقصان بھی کر جاتا، ایسی مخلوق سے ہمارا جانی، اور فوجی سازوسامان کا بھی بہت بڑا نقصان ہوا۔جس سے ہماری ہمت ٹوٹ گئی، ہمارے حوصلے پست ہو گئے۔
ہمارے جوانوں میں خوف ، ڈر اور دہشت بیٹھ گئی تھی ان جیسے ملے جلے خیالات کا اظہار اُن انڈین آرمی کے جوانوں نے کیا جو پاکستان نے ستمبر 1965 کو جنگی قیدی بنا لئے تھے،آج 2015 ء ہے پچاس سال گزر گئے اب بھارت اپنی شکست کو کامیابی میں بدلنے کے لئے جنگ نہیں بلکہ کامیابی کا جشن منارہا ہے، بھارت اس جشن کو اس لئے بھی منانا چاہتا ہے کہ 1962 میں شرم ناک شکست جو چین نے تبت وغیرہ میں دی وہ دھبہ دھل جائے تا کہ اندیا اپنی عوام جسکے خون پسینے کی کمائی انڈین فوج کے ناز و نخرے پر خرچ کر رہا ہے اس کو بتایا جائے کہ بھارتی فوج ایک طاقت ور فوج ہے ۔ حقیقت میں انڈیا آرمی طاقت ور نہیں بلکہ پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی بجائے مکرو فریب اور تعصب پسند ہے ۔حالانکہ جنگی سازو سامان انڈین سرمؤں کے پاس بہت زیادہ تھااور یہ تعداد میںکئی گناہ زیادہ تھے۔
بھارت اب اپنی عوام کو یہ باور کروارہا ہے کہ 1971 کی پاکستان کے خلاف کامیابی کا دارومداد ستمبر 1965 کی جنگ ہے، اگر بھارت پاکستان کو شکست نہ دیتا تو پھر ہم 1971 کی کامیابی کیسے حاصل کر سکتے تھے؟حقیقت میں بھارت کو نہ کامیابی 1965 میں نصیب ہوئی اور نہ ہی 1971 کو پاکستان کو شکست دے سکا، ہمارا بازو ہم سے کاٹ دیا گیا، افسوس صد افسوس۔۔اس میں بھارت کی پوری مداخلت تھی،لیکن ہمارے سیاستدان اور حکمران ڈگمگا گئے تھے اور اس کافائدہ انڈیا نے اُٹھایا پہلے بھی عرض کرچکا ہوں ، انڈیا طاقت کے بل بوتے پر نہ کل ہم سے مقابلہ کر سکتا تھا اور نہ آئندہ کبھی مقابلے کا سامنانہ کر سکے گاکیونکہ انڈیا کافر ہے اور پاکستان مسلمان بقول ڈاکٹر علامہ محمد اقبال۔
کافر ہے تو شمشیر پر کرتا ہے بھروسہ مومن ہے تو بے تیخ بھی لڑتا ہے سپائی
تاریخ انسانی نے ستمبر 1965کو دیکھا کہ پاکستان اللہ کے فضل و کرم سے ایسے ریکارڈ بنائے۔جو نہ اس سے پہلے دنیا نے ایسے ریکارڈ دیکھے اور نہ قیامت تک دیکھے گئی انشااللہ ۔1965 کی جنگ میں جب دشمن کے فضائیہ پائلٹ نے ساری گولیاں فائر کردی مگر پاکستان کو ایک بھی نہ لگی، اس موقع پر ایک غازی ایم ایم عالم صاحب کا ایک واقعہ ایم ایم عالم نے 15 سیکنڈ کے پاور فائر تھا، ہمارے پاس F-86 saber ائیر کرافٹ تھا اور اس میں سے جب فائر کیا جاتا ہے تو 15 سیکنڈ کی گولیاں ہوتیں ہیں ، 15 سیکنڈ کی گولیوں سے بھارت دشمن کے 5 طیارے مار گرائے۔اور یہ ورلڈ ریکارڈ ہے، جس کو کوئی بھی توڑ نہیں سکا اور نہ توڑ سکے گاجب لاہور پر بم گرانے انڈیا کے طیارے آتے تو ملت اسلامیہ پاکستان کے شاہین ان کا پیچھا کرتے تھے اور لاہور کے رہائشی لوگ اپنے چھتوں پر چڑھ جاتے اور دشمن کے طیاروں پر جوتے ، انڈے اور ڈنڈے پھینکتے تھے اور پوری وادی نعرہ تکبیر سے گونجنے لگ جاتی تھی، گویا میلے جیسا سماں تھا،جب ہمارے شاہین دشمن کے طیاروں کو مار گراتے تو لوگوں کا جوش و خروش کو سمجھنے کے لئے انڈیا اور پاکستان کے میچوں سے لگایا جا سکتا ہے حالانکہ میچ کھیل ہوتا ہے اور جنگ جنگ ہوتی ہے۔
Pak Army
دشمن نے مکاری سے 6 ستمبر 1965 کی اندھیری رات میں اچانک لاہور کے تین اطراف سے حملہ کردیا، شمال میں جسٹر کے مقام اور جنوب میں قصور کے مقام کے ساتھ عین وسط میں آر بی آر کنارے دشمن نے توپوں، گنوں سے گولیوں کی بوچھارڑ کردی،پاک فوج کے جوان دشمن کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے گولیوں سے سینہ چھلینی کرواتے رہے، لاشوں پر لاشیںگرتیں رہیں ، مگر پاکستان کی بہادر افواج کے شاہینوں نے جام شہادت کو نوش کرنااور دشمن کے سامنے سیسسہ پلائی کی دیوار اپنے آپ کو ثابت کر دیا۔نہر آر بی آر نے دیکھا پاکستانی فوج اور پاکستانی عوام کے حوصلے جو چٹانوں سے بلند فولاد سے مضبوط تھے، دشمن جو اپنی طاقت ، اپنے اسلحہ بارود کے نشے میں بد مست ہاتھی بنکر پاکستان کے دل ، داتا کی نگری لاہور میں ناشتہ کرنے کا خواب لیکر اس قوم کو للکارہ جو موت سے محبت کرتے ہیں ،دشمن جنگ کی تیاری کر ہم پو حملہ آور ہوا تھااور دشمن پورے جنگی سازو سامان سے لیس تھا، نفری میں بھی دشمن کو برتری حاصل تھی قصہ مختصر ایک وقت آیا دشمن ہماری توپوں کے بلکل قریب پہنچ گیا اور دشمن کے پاس ٹینک تھے ٹینک میں بہت ساری خصوصیات ہوتیں ہیں۔
یعنی موبائل سسٹم ٹینک میں ہوتا ہے جبکہ توپ اپنی ضگہ سے حرکت نہیں کر سکتی صرف گولہ فائر کرتی ہیں،دشمن نے گھبراٹ میں آکر ہماری توپوں کو تباہ و برباد کر کے مٹی کا ڈھیر کرنے کا سوچ رہا تھا۔کہ اللہ تعالیٰ کی ذات بابرکت نے پاکستان کے مسلمانوں کی اُسی طرح غائبانہ مدد فرمائی جسے چودہ سو سال قبل غذوہ بدر کے مقام پر فرمائی تھی، غزوہ بدر میں بھی دشمن بے پناہ جنگی سازو سامان سے لیس تھا،افرادی قوت میں بھی بہت زیادہ تھے مگر جزبہ ایمانی سے لبریز مسلمان تھے اور شہادت کی تمنا اور دعائیں لیکر دشمن پر ٹوٹ پڑے تھے،اللہ تعالیٰ کی ذات دلوں کا حال جانتی ہیں ، یہی وجہ ہے چودہ سوسال قبل بھی اللہ نے غزوہ بدر کے مسلمانوں کی مدد فرمائی اور بارش کو اتنا برسایا کہ دشمن کے سارے پلان بارشی پانی میں بہہ گئے، دشمن لاچار اور بے بسی کی حالت میں زلیل و خوار ہوا تھا۔
اب 1965 میں بھی اللہ کی رحمت جوش میں آئی اور پاکستان کو نصرت نصیب ہوئی، جب ٹینک اور توپوں کا آمنا سامنا ہوا جو فاصلہ تھا کوئی زیادہ نہ رہا۔تو اللہ تعالیٰ نے پاکستان کے مسلمانوں پر اپنا خاص کرم و فضل کیا اور ٹینکوں اور توپوں کی لڑائی نہ ہوئی کیونکہ اللہ تعالیٰ نے دھند کو اتنا پھیلایا کہ ایک قدم پر بھی کوئی چیز نظر نہ آتی تھی۔
جب بھی کوئی حسد ، بغص اور کینہ پروری کی عینک اتار کر 1965 ء کی انڈیا اور پاکستان کی جنگ جو بھارتی افواج نے چھپ چھپا کر اپنی کئی گناہ افرادی برتری، جدید جنگی سازوسامان اور تیاری کے ساتھ پاکستان پر یلغار کی اور پھر دنیا نے دیکھا عبرت ناک شکست سے انڈیا کا سارا غرور اور تکبر خاک میں ملیا میٹ ہو گیایہ سب اس بات کی نمائدگی ہے کہ مسلمان جب بھی حق پر ہوتا ہے تو اللہ کی مدد مسلمانوں کے ساتھ ہوتیں ہیں اور 1965 ء میں بھی ایسا ہی ہوا۔اور یہ دو ملکوں کے درمیاں جنگ نہیں تھی بلکہ عالم کفر اور اسلام کی جنگ تھی،اور اللہ پاک نے قدم قدم پر مسلمانوں کی مدد فرمائی۔