تحریر : پروفیسر رفعت مظہر جب سے پاناما ہنگامہ شروع ہوا ہے، یوں محسوس ہوتا ہے جیسے انکشافات کا مینابازار سجا ہو۔ ہر روز جھوٹ کی آڑھت سجائی اور الزامات کی بارش برسائی جاتی ہے ۔دراصل ہمیں عدالتیں لگانے کا شوق ہی بہت ہے۔ پاناما لیکس میں بھی جگہ جگہ عدالتیں کھُلی ہیں۔ ایک ”اصلی تے وَڈی” عدالت سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ پر مشتمل ہے، دوسری ہر روز سپریم کورٹ کے باہر لگتی ہے جہاں سیاستدان چونچیں لڑاتے نظر آتے ہیں اور تیسری میڈیا پر سجتی ہے۔
اصول تو یہی ہے کہ جب کوئی کیس عدالت میں زیرِسماعت ہو تو اُس پر بحث نہیں کی جاتی لیکن زور آور بھلا کب اِس کی پرواہ کرتے ہیں ۔ عدالت کی بار بار کی تنبیہہ کے باوجود ہر روز نہ صرف الزامات کی بھرمار ہوتی ہے بلکہ فیصلے بھی سنائے جاتے ہیں ۔ پُرلطف بات یہ ہے کہ نوازلیگ اور تحریکِ انصاف ، دونوں ہی یہ دعویٰ کرتی ہیں کہ فیصلہ اُن کے حق میں” آوے ای آوے ”۔ تحریکِ انصاف کے فواد چودھری نے تو نوازلیگ کو یہ مشورہ بھی دے ڈالا کہ ابھی سے نیا وزیرِاعظم ڈھونڈ لے کیونکہ اِس وزیرِاعظم کو تو اعلیٰ عدلیہ نے ”پھڑکا” دینا ہے جبکہ دوسری طرف نوازلیگ کے دانیال عزیز اورطلال چودھری یہ دعوے کرتے نظر آتے ہیں کہ 2018ء کے انتخابات میں بھی نواز شریف ہی وزیرِاعظم ہوں گے ۔ پنجاب کے وزیرِ قانون رانا ثناء اللہ کی بھی کبھی کبھار کوئی نہ کوئی بڑھک سنائی دے جاتی ہے ۔ پیپلز پارٹی کے دَورِ حکومت میں تو رانا صاحب بہت فعال تھے کیونکہ مقابلہ پیپلز پارٹی کے پہلوان راجہ ریاض سے ہوتا تھا لیکن جب سے راجہ جی ”نُکرے” لگے ، رانا صاحب کی بڑھکوں میں بھی ٹھہراؤ آ گیاراجہ جی نے تو اپنے کھڑاک قائم دائم رکھنے کے لیے پیپلز پارٹی کو داغِ مفارقت دے کر تحریکِ انصاف کی راہ لے لی لیکن بات بَنی نہیں کیونکہ وہاں تو بڑھک بازی کے اُستاد بیٹھے ہیں ۔ شنید ہے کہ راجہ جی نے ایک دفعہ پھر پیپلز پارٹی میں جانا چاہا لیکن وہاں سے بھی کورا جواب مِل گیا۔
اب اُن کی حالت یہ ہے کہ خُدا ہی مِلا نہ وصالِ صنم اِدھر کے رہے نہ اُدھر کے رہے
آمدم بَرسرِ مطلب ، نواز لیگ اور تحریکِ انصاف کے دعوؤں کی گونج میں کوئی ہمیں بتائے کہ ”کیدی مَنیے تے کیدی نہ مَنیے۔ کپتان صاحب فرماتے ہیں کہ تحریکِ انصاف نے ٹھوس ثبوت پیش کر دیئے ہیں اِس لیے فیصلہ نوازلیگ کے خلاف ہی آئے گا جبکہ نوازلیگ کا یہ دعویٰ ہے کہ تحریکِ انصاف کی طرف سے جمع کرائے گئے تمام ثبوت ردی کی ٹوکری کی نذر ہو چکے جبکہ اُن کے سارے ثبوت پاناما بنچ نے سینے سے لگا کر داد و تحسین کے ڈونگرے برسانے شروع کر دیئے ۔ حیران اور کچھ کچھ پریشان جسٹس صاحبان یہ رونا رو رہے ہیںکہ اُن کے سامنے ٹھوس شواہد ہیں نہ مصدقہ دستاویزات ، اِس لیے وہ کسی فیصلے پر کیسے پہنچ سکتے ہیں ۔ محترم جسٹس اعجاز الاحسن نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ اگر ایسے ہی فیصلہ سنا دیا گیا تو یہ فیصلہ قبر تک ہمارا پیچھا نہیں چھوڑے گا ۔ کہا جا سکتا ہے کہ تحریکِ انصاف جسٹس صاحبان کو مطمٔن کر سکی ہے نہ نوازلیگ ۔ حتمی فیصلے تک پہنچنے کے لیے ابھی سپریم کورٹ کو بہت سی گھاٹیاں عبور کرنا ہوں گی اور ہو سکتا ہے کہ وہ تحقیقاتی کمیشن قائم کر دے جبکہ لال حویلی والے نے ایک دفعہ پھر پیشین گوئی کر دی کہ جنوری میں فیصلہ ہو جائے گا ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ جیسے اُن کی پہلی پیشین گوئیوں کی طرح یہ بھی کسی گَٹر کی نذر ہو جائے گی اور لوگ اُنہیں یہ کہتے نظر آئیں گے کہ ”شرم تُم کو مگر نہیں آتی۔
Imran Khan
اِس سارے ہنگامے میں اگر کوئی مزے لوٹ رہا ہے تو صرف الیکٹرانک میڈیا، جس کی پانچوں گھی میں اورسَر کڑاہی میں ۔ ہر روز نیوز چینلز پر محفل سجتی ہے اور موضوع صرف پاناما پیپرز ، ایسے جیسے پاکستان میں سوائے پانامہ پیپرز کے سارے مسائل حَل ہو چکے اور اب راوی چین ہی چین لکھتا ہے ۔ قصور اِن نیوز چینلز کا بھی نہیں کہ وہ تو وہی کچھ بیچتے ہیں جو بِکتا ہے کیونکہ یہاں سوال ریٹنگ کا ہے ، ملک و قوم کی بہتری جائے بھاڑ میں۔ہمیں اگر پاناما ہنگامہ کا کچھ فائدہ ہورہا ہے تو یہ کہ نِت نئے انکشافات کی بدولت ہمیں اپنے کالموں کا پیٹ بھرنے میں آسانی رہتی ہے ۔ ابھی دو دِن پہلے کپتان صاحب نے انکشافات کی پٹاری کھولی اور فرمایا کہ محترمہ مریم نواز صاحبہ نے دانیال عزیز کو کہا کہ اگر وزارت چاہیے تو عمران خاں کو گالیاں دو ۔ خواجہ آصف سیالکوٹی کو دھمکی دی کہ اگر عمران خاں کو گالیاں نہ دیں تو بجلی کی کمپنیوں کو 480 ارب روپے کی ادائیگی کا راز فاش کر دوں گی اور خواجہ سعد رفیق کو دھمکایا کہ اگر اُس نے عمران خاں کو گالیاں نہ دیں تو دنیا کو پرائز بانڈ ز کے ذریعے ارب پتی بننے کا راز فاش کر دوں گی۔ ہمیں تو پتہ ہی نہیں تھا کہ کپتان صاحب اتنے بڑے بڑے رازاپنے سینے میں چھپائے بیٹھے ہیں ۔ ویسے ایک بات کی ہمیں سمجھ نہیں آئی کہ یہ ”اَندر کی بات” کپتان صاحب تک پہنچی کیسے؟۔ یہی سوچا جا سکتا ہے کہ کپتان صاحب کے پاس ”سلیمانی ٹوپیاں” ہوںگی جنہیں وہ اپنے کارندوں کو پہنا کرخبریں جمع کرنے پر لگا دیتے ہیں ۔ اگر ایسا ہے تو اُنہیں ازراہِِ کرم ایک ٹوپی اپنے ”لنگوٹیے شیخ رشید کو بھی دے دینی چاہے تاکہ اُن کی کوئی ایک پیشین گوئی ہی سچ ثابت ہو سکے ۔ وہ بیچارے تو پیشین گوئیاں کر ، کر کے تھک بلکہ ”ہَپھ”’ چکے ہیںلیکن مجال ہے جوگوہرِ مقصود ہاتھ آیا ہو ۔ لیگئیے کہتے ہیں کہ خاں صاحب کی سلیمانی ٹوپیاں بھی دو نمبر ہیں کیونکہ اُنہیں جو پہن لیتا ہے ، وہی خاں صاحب تک الٹ خبر پہنچا دیتا ہے ۔ 2014ء کے دھرنے میں ایسے ہی کسی سلیمانی ٹوپی والے نے خاں صاحب کو یقین دلا دیا کہ امپائر کی انگلی بَس کھڑی ہونے ہی والی ہے لیکن ہوا یہ کہ خاں صاحب بیچارے 126 روز تک کنٹینر پر کھڑے ایڑیاں اُٹھا اٹھاکر امپائر کی انگلی کا انتظار کرتے رہے لیکن امپائر آیا نہ اُس کی انگلی کھڑی ہوئی البتہ خاں صاحب کو اپنا بستر بوریا سمیٹنا پڑا ۔ اب بھی شاید کسی سلیمانی ٹوپی والے نے ہی کپتان صاحب کو یقین دلا دیا ہے کہ فیصلہ نوازلیگ کے خلاف ہی آئے گا۔
پاناما ہنگامہ میں پیپلز پارٹی نے سپریم کورٹ کا دروازہ تو نہیں کھٹکٹایا لیکن میاں نواز شریف کو گھر بھیجنے کے لیے اپنا پورا زور وہ بھی صرف کر رہی ہے ۔ یہ الگ بات کہ سوائے دیہی سندھ کے اُس کی آواز پر کان دھرنے والا کوئی نہیں ۔ 19 دسمبر کو بلاول زرداری کی قیادت میں لاہور سے فیصل آباد تک کرپشن مخالف ریلی کا انعقاد کرکے پیپلز پارٹی نے اپنی انتخابی مہم کا آغاز کر دیا ۔ اِس ریلی میں جیالوں کی تعداد انتہائی مایوس کُن تھی حالانکہ خیال یہی تھا کہ پیپلزپارٹی اپنی بھرپور کوششوں اور کاوشوں سے متاثر کُن ریلی نکالنے میں کامیاب ہو جائے گی لیکن شاید پنجاب سے پیپلز پارٹی کا دانہ پانی اُٹھ چکا ۔ ویسے بھی پنجابیوں کو ابھی تک بلاول زرداری کے والدِ محترم آصف زرداری کی کرپشن کی کہانیاں بھولی نہیں ، اِسی لیے لوگ کہہ رہے ہیں کہ پیپلز پارٹی بھی کرپشن مخالف ریلی نکال رہی ہے جو یقیناََ قُربِ قیامت کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔
ریلی کے اختتام پر بلاول زرداری نے اپنی ساری توپوں کا رُخ نواز لیگ ہی کی طرف موڑے رکھا جس کی وجہ یہ ہے کہ پیپلز پارٹی اور تحریکِِ انصاف ، دونوں ہی نہ صرف نوازلیگ کی مخالف ہیں بلکہ مسندِ اقتدار تک پہنچنے کے لیے ایک دوسرے کی ٹانگیں بھی کھینچتی رہتی ہیں ۔ پیپلز پارٹی پنجاب میں ایک دفعہ پھر قدم جمانے کی تَگ ودَو میں ہے جبکہ تحریکِ انصاف پنجاب میں ”کلین سویپ” کے سَپنے سجائے بیٹھی ہے۔ اُسے کسی بھی صورت میں پیپلز پارٹی کی مقبولیت قبول نہیں۔ اِن دونوں سیاسی جماعتوں کی باہمی چپقلش سے نواز لیگ نہ صرف آج بلکہ 2018ء کے انتخابات میں بھی فائدہ اُٹھائے گی۔