تحریر : غلام مرتضیٰ باجوہ پانامہ کیس کے بعد اب پاکستان میں نئی بحث شروع ہو چکی ہے، بہت سے چیلنجز کے بعد پاکستان سپر لیگ کا لاہور میں کا میاب انعقاد ہوا۔جسے پاکستانیوں نے بہت پسند کیا، پاکستان سپر لیگ کرکٹ میچ کے کامیاب انعقاد میں حکومت کے ساتھ ساتھ سکیورٹی اداروں نے اہم کردار ادا کیا۔ حکومت اور سکیورٹی اداروں کو عوامی خراج تحسین پیش کیا۔ اس دوران بہت سے دلچسب واقعات رونما ہوئے ۔جس میں گو نواز گو کے نعرے، سربراہ عوامی مسلم کوشیخ رشید احمد کو جوتا پڑا،اور حکومت اور اپوزیشن کے کئی گلے شکوے میڈیاپر نشر کئے گئے۔
لیکن چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان طرف سے پاکستان سپر لیگ کے لاہور میں ہونے والے فائنل میچ میں شرکت کرنے والے غیر ملکی کھاڑیوں کے بارے میں پھٹیچر اور ریلو کٹا کے الفاظ استعمال کرنے کے بعدحکومتی ارکان اور سوشل میڈیا پرمباحث کا آغاز ہو گیا ۔ مبصر ین ،کالم نگاروں ،صحافیوں اور سیاست دانوں نے چیئرمین پاکستان تحریک انصاف عمران خان بیان پرنئی بحث شروع کردی گئی۔عمران خان نے شائد ایک یا دوباریہ لفظ استعمال کیا ہوگا۔ لیکن چند ممتازصحافیوں اور حکمرانوں نے دنیا کے بچہ بچہ کو ’’پھٹیچر‘‘کا لفظ یاد کروا دیا۔
عالمی اخبارات میں شائع ہونے والے تبصروں اور تجزوں میں کہاگیاہے کہ عمران خان کی طرف سے پی ایس ایل کی مخالفت سے لے کر اس کے کامیاب انعقاد کے بعد تک کئے جانے والے تبصرے افسوسناک اور غیر ضروری تھے ۔ لیکن اگر اس ملک کے نامور سیاست دان اور تبصرہ نگار عمران خان کی ان فضول باتوں کو غیر ضروری اہمیت نہ دیتے تو ان بیانات کی کوئی اہمیت بھی نہ ہوتی۔ اس لئے ایک مقبول کھیل کے حوالے سے عمران خان کے دانستہ جارحانہ رویہ اور سخت الفاظ کے استعمال کو اگر اس تناظر میں دیکھا جائے کہ انہوں نے اس طرح پی ایس ایل کے حوالے سے دیوانہ وار رپورٹیں اور خبریں نشر کرنے والی میڈیا نشریات میں اپنے لئے جگہ بنا لی اور اینکر پرسنز کے علاوہ سیاست دان بھی ان کے بیان کی مذمت کرنے اور اپنے خیالات کا اظہار کرنے سے باز نہیں رہ سکے ۔ تو یہ سمجھنا مشکل نہیں ہے کہ عمران خان کے میڈیا منیجرز نے ایک کامیاب حکمت عملی اختیار کی تھی۔بصورت دیگر شاید ان دنوں میں عمران خان کا ذکر بھی کسی خبر یا پروگرام میں نہ کیا جاتا۔ اس لحاظ سے عمران خان نے بظاہر متنازعہ اور اشتعال انگیز بیانات دے کر میڈیا کو خوب استعمال کیا اور ریٹنگ کا محتاج ہمارا ’معصوم ‘ میڈیا دراصل عمران خان کے ہاتھوں میں کھیلتا رہا۔ اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔
یہی صورت پھٹیچر اور ریلو کٹا کے الفاظ کے بارے میں بھی سامنے آئی ہے ۔ عمران خان نے یہ گفتگو دراصل مستقبل کے بارے میں اپنی سیاسی حکمت عملی بیان کرنے کے لئے کی تھی۔ اس بات چیت میں ضمنی طور پر پی ایس ایل اور اس میں شریک انٹر نیشنل کھلاڑیوں کا ذکر بھی ہؤا۔ عمران خان نے ہلکے پھلکے انداز میں اس معاملہ پر بات کرتے ہوئے ان کھلاڑیوں کو پھٹیچر کہا۔ اس بات کو اصل تناظر میں دیکھتے ہوئے نظر انداز بھی کیا جا سکتا تھا لیکن اس طرح ہمارے ہر دلعزیز میڈیا ور مقبول سیاستدانوں کا توجہ حاصل کرنے کا مقصد پورا نہیں ہو سکتا تھا۔
اس کے ساتھ ہی عمران خان کو میڈیا میں وہ توجہ اور جگہ بھی ملک گئی جو وہ حاصل کرنا چاہتے تھے۔ان مباحث کا واحد افسوسناک پہلو یہ کہ اس طرح اہم قومی اور سماجی معاملات نظر انداز ہوتے ہیں۔ لیکن اس کی نہ سیاستدانوں کو پرواہ ہے اور نہ ہی میڈیا کو اس کا افسوس ہوتا ہے۔ معاملہ اگر مقبولیت اور ریٹنگ تک محدود ہو تو یہی مزاج قومی رویہ بن جاتا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اگر اپوزیشن اور حکومتی ارکان صوبائی و قومی اسمبلی ملکی مفادات کے پیش نظر ایسی گفتگو سے پرہیز کریں ۔جس بحث سے قوم کا وقت ضائع ہوا اور وطن عزیز ترقی روک جائے۔