ایف اے ٹی ایف اجلاس کے اختتام پر جاری کردہ اعلامیہ کے مطابق پاکستان کو مزید چار ماہ تک کیلئے گرے لسٹ میں برقرار رکھنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ پاکستان کو جون 2020ء تک فنانشل ایکشن ٹاسک فورس کی سفارشات پر مزید عمل کرنا ہو گااور جون میں ایف اے ٹی ایف پاکستان کی طرف سے سفارشات پر عمل درآمد کا جائزہ لے گا۔ اسی طرح یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان کو اکتوبر تک گرے لسٹ میں برقرار رکھا جاسکتا ہے۔ ایف اے ٹی ایف اجلاس سے قبل بہت دعوے کئے جارہے تھے کہ پاکستان اس مرتبہ گرے لسٹ سے نکل جائے گا، ہمارے مطالبات کو دنیا نے تسلیم کر لیا ہے اور امریکہ سمیت بہت سے ملکوں کی پاکستان کو حمایت حاصل ہو گئی ہے لیکن اجلاس کے آغاز پر ہی اس بات کو بڑی کامیابی کے طور پر پیش کیا جانے لگا کہ بھارت کی سازش ناکام ہوئی اور پاکستان بلیک لسٹ ہونے سے بچ گیا ہے۔
وہی پرانی باتیں جو گزشتہ برس ایف اے ٹی ایف اجلاس کے موقع پر کی گئی تھیںاس مرتبہ بھی انہیں دہرا کر قوم کو مطمئن کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ باخبر حلقوں کی طرف سے پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ بین الاقوامی طاقتیں پاکستان پر ایف اے ٹی ایف کی تلوار لٹکا کررکھنا چاہتی ہیں اور بھارتی خواہش پر امریکہ اس سارے عمل میں پیش پیش ہے۔ پاکستان کو بلیک لسٹ سے بچنے کیلئے چین، ترکی اور ملائشیا کی صورت میں تین ووٹ تو میسر ہیں لیکن گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے مطلوب بارہ ووٹ حاصل نہیں ۔ گرے لسٹ سے نکالنے کا اصل فیصلہ انٹرنیشنل کوآپریشن ریویو گروپ یعنی آئی سی آر جی نے کرنا ہے اور اس کے ارکان ایک طاقتور لابی کی صورت رکھتے ہیں۔ یہ طاقتور لابی مکمل طور پر امریکہ کے زیر اثر ہے۔ٹرمپ انتظامیہ اگر چاہے تو ایف اے ٹی ایف کی یہ تنظیم پاکستان کو فوری طور پر گرے لسٹ سے نکال سکتی ہے لیکن امریکہ افغانستان سے محفوظ انخلاء تک ہر صورت پاکستان پر دبائو بڑھا کر رکھنا چاہتا ہے اور کسی صورت اسے ریلیف دینے کے حق میں نہیں ہے۔
حکومت پاکستان کی طرف سے ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ سے نکلنے کیلئے اب تک کئی ایسے اقدامات اٹھائے گئے جن کا کچھ عرصہ پہلے تک تصور کرنا بھی محال تھا۔ سابقہ ادوار میں بھی ملک و قوم کے محسن حافظ محمد سعید کوبار بار گرفتار اور نظربند کیا جاتا رہالیکن موجودہ دور حکومت میں جس طرح ان کی جماعت پر پابندیاں لگائی گئیں اور سزائیں سنا کر ایف اے ٹی ایف کی خوشنودی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی اس کی مثال پہلے دیکھنے میں نہیں آئی مگر مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی’ کے مصداق ایف اے ٹی ایف کے شکنجے سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا۔ ہر اجلاس میں چھ ماہ آگے کی تاریخ اور مزید شرائط پر عمل درآمد کا ٹارگٹ دے دیا جاتا ہے۔ اکتوبر 2019ء کی طرح حالیہ اجلاس میں بھی یہی بات دیکھنے میں آئی ۔
منی لانڈرنگ اور دہشت گردوں کی مالی معاونت روکنے کیلئے جاری کوششوں میں بہتری لانے کی ہدایات کرتے ہوئے مزید پوائنٹس کی نشاندہی کر دی گئی ہے۔پاکستان حکام سے اس امر کی یقین دہانی کروانے کیلئے کہا گیا ہے کہ اگر آئندہ بھی کوئی مبینہ طور پر منی لانڈرنگ اور دہشت گردی کی سرگرمیوں میں ملوث ہوتا ہے تو اسے گرفتار کیا جائے گا۔ جن تنظیموں اور شخصیات کے خلاف کاروائی کی جارہی ہے، انہیں کسی طور ریلیف نہیں ملنا چاہیے اور اس کیلئے مزید سخت قوانین بنائے جائیں۔ اسی طرح یہ بھی کہاگیا ہے کہ انتظامی طور پر صوبائی اور وفاقی ادارے ایک دوسرے کے ساتھ بہتر انداز میں تعاون کریں۔ ایسی تنظیمیں اور شخصیات جن کے خلاف سلامتی کمیٹی کی قرار1267کے تحت پابندیاں لگائی گئی ہیں ان کے اثاثے اس طرح منجمند کئے جائیں کہ یہ چیزیں دوبارہ ان کے استعمال میں نہ آسکیں یعنی ایف اے ٹی ایف کی آڑ میں بین الاقوامی طاقتیں پاکستان کے گرد گھیرا تنگ کر کے رکھنا چاہتی ہیں ۔یہ طے شدہ اصول ہے کہ جب کسی ملک کی طرف سے کمزوری کا مظاہرہ کیا جاتا ہے تو پھر دبائو بڑھانے والوں کے مطالبات بھی دن بدن بڑھتے جاتے ہیں۔ پاکستان کے ساتھ بھی یہی کچھ ہو رہا ہے۔ ایف اے ٹی ایف کے سامنے اگر شروع سے ہی اس طرح گھٹنے نہ ٹیکے جاتے اور غیرت و حمیت کا مظاہرہ کیا جاتا تو آج یہ دن نہ دیکھنا پڑتے۔ ایک طرف پاکستان کے اقداما ت کی تعریف کی جارہی تو دوسری جانب یہ کہہ کر دھمکایا جارہا ہے کہ اگر ٹیرر فنانسنگ میں پراسیکیوشن اور سزائوں میں پیش رفت نہ ہوئی تو ایف اے ٹی ایف کی طرف سے ایکشن لیا جائے گا۔
پاکستانی حکومتوں نے حافظ محمد سعید جیسے ملک قوم کے محسن رہنما جنہیں لاہور ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ نے اپنے فیصلوں میں ہر قسم کے الزامات سے بری قرار دیا، ایف اے ٹی ایف کے مطالبہ پر گرفتار کر کے نہ صرف جیلوں میں ڈالا بلکہ ان کے خلاف درجنوں مقدمات قائم کر کے سزائیں بھی سنا دی گئیں مگر ایف اے ٹی ایف کی تسلی نہیں ہوئی اوراب ایک مرتبہ پھر جون اور اس سے بھی آگے اکتوبر کی بات کر کے تقریبا ایک سال کیلئے دوبارہ سے بلیک لسٹ کئے جانے کی تلوار لٹکا دی گئی ہے۔ یہاں یہ امر بھی لائق تحسین ہے کہ حافظ محمد سعید اور ان کی جماعت نے ایف اے ٹی ایف کی پابندیوں کے دوران جو کردار پیش کیا ہے، اسے تاریخ میں سنہری حروف میں لکھا جائے گا ۔ ان کے سینکڑوں سکول، کالج، ہسپتال ، ڈسپنسریاں اور دیگر ادارے قبضے میں لیکر وہاں سرکاری عملہ تعینات کر دیا گیا مگر پورے پاکستان میں ایک پتہ تک نہیں ٹوٹااور ملکی مفادات کے تحفظ کیلئے صبر و استقامت کا ایسا عظیم مظاہرہ کیا گیا کہ اس کی مثال ملنا بھی مشکل ہے۔ دنیا جانتی ہے کہ حافظ محمد سعید نے کوئی جرم نہیں کیااور ان کی جماعت نے دہشت گردی کی بیخ کنی اور فتنہ تکفیر کے خاتمہ کیلئے نظریاتی محاذ پر جو کردار ادا کیاہے وہ کوئی دوسرا نہیں کر سکا۔ ملک میں خودکش حملے شروع ہوئے تو ایسے حالات میں جب کوئی اس مذموم عمل کے خلاف بولنے کیلئے تیار نہیں تھا حافظ محمد سعید نے ببانگ دہل کہا کہ یہ جہاد نہیں فساد ہے۔ کسی کلمہ گو مسلمان کی طرف ہتھیار کا رخ کرنا بھی حرام ہے۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ کے دوران جتنے بھی آپریشن کئے گئے انہوں نے کھل کر ان کی حمایت کی اور پاکستان کو اللہ کی بہت بڑی نعمت قرار دیتے ہوئے اس کے تحفظ کیلئے بھرپور کردار ادا کیا۔ دفاع پاکستان کونسل کے پلیٹ فارم پر ان کی جماعت سب سے زیادہ متحرک رہی اور قریہ قریہ ، شہر شہر جاکراسلام اور پاکستانیت کے پیغام کو عام کیاگیا۔پاکستان میں زلزلہ، سیلاب ہو یا کوئی اور قدرتی آفت، اس جماعت کے کارکنان سب سے پہلے دکھی انسانیت کی مدد کیلئے پہنچے اور بڑھ چڑھ کر ریلیف سرگرمیاں انجام دیں۔ ان کے بے لوث خدمت کا عالم یہ تھا کہ 2005ء کے زلزلہ کے دوران یو این اور دیگر بین الاقوامی ادارے بھی ریلیف کا سامان متاثرہ علاقوں تک پہنچانے کیلئے اس تنظیم کے کارکنان کی مددکا سہارا لیتے رہے۔ غرضیکہ ہر مشکل وقت میں یہ عظیم شخصیت اور ان کی جماعت اہل پاکستان کے ساتھ قدم سے قدم ملا کر کھڑی رہی۔ حافظ محمد سعید کے خلاف سب سے زیادہ الزامات مظلوم کشمیریوں کی مدد کے حوالہ سے لگائے جاتے ہیں۔ اس وقت بھی مظلوم کشمیریوں کی جدوجہد آزادی کی حمایت اور بھارتی ریاستی دہشت گردی کے خلاف جرأتمندانہ انداز میں آواز بلند کرنے کو ہی ان کا سب سے بڑا جرم قرار دیا جارہا ہے۔
ایف اے ٹی ایف کے ادارہ میں چونکہ بھارت کی مداخلت بہت زیادہ ہے اور امریکہ بھی اس کا ہمنوا بن جاتا ہے اس لئے پاکستان پربلاجواز دبائو ڈالا جاتا رہا ہے۔ حافظ محمد سعید کو مسلسل پابند سلاسل رکھے جانے پر جہاں بھارتی حلقوں میں بے پناہ خوشیاں منائی جارہی ہیں وہیںکشمیری قوم سخت غمزدہ اور دکھ کی کیفیت میں ہے۔ اسی لاکھ کشمیری جو اپنے سینوں پر گولیاں کھاتے ہوئے گلی کوچوں میں پاکستان اور حافظ سعید سے رشتہ کیا، لاالہ الااللہ کے نعرے لگاتے ہیں ان کے سینوں پر غم کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ہیں کیونکہ آج اس شخصیت کوپابند سلاسل رکھا گیا ہے جسے کشمیری قوم اپنا مسیحا سمجھتی ہے اور کشمیری مائیں، بہنیں و بیٹیاں اپنے لئے انہیں محمد بن قاسم کے طور پر دیکھتی ہیں۔
پاکستانی حکمرانوں کے حالیہ اقدامات کو اگرچہ ایف اے ٹی ایف اور بین الاقوامی طاقتوں کے دبائو کا نتیجہ قرار دیا جارہا ہے لیکن ا س حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس سے بھارتیوں کو کھل کھیلنے کا موقع ملے گا اور کشمیریوں کی تحریک آزادی کو نقصان پہنچے گا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ حکومت پاکستان اپنے قدموں پر کھڑی ہو اور بیرونی دبائو کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ملکی و قومی سلامتی کو مدنظر رکھتے ہوئے جرأتمندانہ فیصلے کئے جائیں۔