تحریر : جاوید چوہدری پاکستان میں اس وقت بے روزگاری کے سبب جرائم کا کینسر رکنے کا نام نہیں لے رہا ہمارے ملک میں پہلے ہی کینسر جیسے موذی مرض کے علاج کے لیے کوئی سرکاری ہسپتال نہیں ہے ایک طرف جرائم کی بڑھتی ہوئی وارداتوں سے شہری پریشان ہیں تو دوسری طرف کینسر کا علاج بھی کہیں ممکن دکھائی نہیں دیتا اور اب اوپر سے پنجاب میں ایڈز کے مریضوں کی تعداد میں بھی بے انتہا اضافہ ہوچکا ہے بلخصوص نوجوانوں میں جنسی بے راہ روی کی بدولت ایڈز جیسی موذی امراض خوفناک حد تک بڑھ چکی ہیں اور اس وقت ملک بھر میں گذرے ہوئے گذشتہ ڈیڑھ سال کے عرصہ میں 8ہزار سے زائد ایڈز کا شکارہوئے اور سب سے زیادہ 3870کیسز پنجاب میں رجسٹرڈ ہوئے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ہولناک مرض پنجاب میں تیزی سے پھیل رہا ہے جس کی روک تھام کیلئے پنجاب حکومت کو ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنا ہونگے اور اس سلسلہ میں محکمہ صحت پنجاب ایڈز کے مرض کی روک تھام،اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا میں آگاہی پروگرام کیلئے فوری اقدامات کرے۔
اس بات کی تحقیقات کرے کہ چند ہی سال میں اس مرض میں اتنی تیزی کیوں آئی ابھی پچھلے ہی دنوں پنجاب کے ایک ضلع چنیوٹ کے ایک گاؤں میں50ایڈز کے مریض دریافت ہوئے ان مکینوں جن میں چھوٹے بچے بچیاں بھی شامل ہیں ایڈز جیسے مرض کا ہایا جانا انتہائی ہولناک ہے یہ لاعلاج مرض ہے جس کا اختتام صرف موت ہے اس لیے پنجاب حکومت کو چاہیے کہ صوبہ کے سرکاری ہسپتالوں میں خصوصی کاؤنٹر اور مریضوں کو مفت علاج معالجہ کی سہولیات فراہم کی جائیں اور ترجیحی بنیادوں پر اس موذی مرض کی روک تھام کیلئے فوری اقدامات کیے جائیں تاکہ پنجا ب میں اس مرض کی روک تھام ممکن ہوسکے ہمارے ایک دوست اور ماہر ڈاکٹر جو اس وقت ٹی ایچ کیو کوٹ ادو میں بطور میڈیکل آفیسر اپنی ڈیوٹی سرانجام دے رہے ہیں اور وہ کینسرہیپاٹائٹس اور ایڈز جیسے امراض کے ماہر ہیں انہوں نے بھی ملک میں بڑھتی ہوئی ان تینوں امرض پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ہوشربا انکشافات کیے بقول ڈاکٹر صاحب اس وقت پاکستان میں مردوں کے مقابلے میں عورتوں میں کینسر کا مرض زیادہ ہے اور اس وقت پاکستان بھر میں کینسر کا صرف ایک ہسپتال کام کر رہا ہے جو مریضوں کی سامنے آنے والی تعداد کا علاج کرنے کیلئے ناکافی ہے ،پاکستان میں کینسر کے 3لاکھ 40ہزار کیسز میں 80فیصد سے زیادہ مریضوں کی علاج نہ ہونے یا بروقت کینسر کی تشخیص نے ہونے کے باعث موت ہو جاتی ہے۔
دنیا کے تمام بڑے شہروں میں 3سے 4کینسر ہسپتال ہوتے ہیں لیکن پاکستان میں اس طرف توجہ نہیں دی گئی،اسلام آباد میں کینسر اسپتال کی تعمیر کے نام پر ماضی میں 20ارب روپے ضائع کیا گیا،دنیا بھر میں سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والی بیماریوں میں کینسر کا تیسرا نمبر ہے،آئندہ10سالوں میں کینسر سب سے زیادہ اموات کا باعث بننے والی بیماری بن جائے گی، دنیا میں اس وقت سالانہ کینسر کے ایک کروڑ مریض رپورٹ ہو رہے ہیں، جبکہ 2020تک کینسر کیسز کی تعداد ایک کروڑ 60لاکھ سالانہ تک پہنچ جائے گی،2020میں کینسر سے اموات کی تعداد80لاکھ ہو گی ڈاکٹر صاحب اپنی گفتگو کرتے رہے اور میں اس سوچ میں ڈوب گیا کہ ہماری حکومتوں کو صرف اپنے علاج معالجے کی فکر رہتی ہے اسکے لیے انکے جہاز بھی تیار کھڑے ہوتے ہیں اگر انکے سر میں درد بھی ہو تو فورا یورپ کا راستہ پکڑ لیتے ہیں جہاں پر وہ قومی دولت سے نہ صرف اپنا علاج کرواتے ہیں بلکہ انکے پورے خاندان کا سرکاری خرچ پر علاج معالجہ شروع ہوجاتا ہے جبکہ جن کے ووٹوں سے یہ سیاستدان حکمرانی کا تاج اپنے سر پر سجاتے ہیں انہیں آزادی سے پہلے بنائے گئے ہسپتالوں میں ایک ڈسپرین کے لیے لائن میں کھڑا کیے رکھتے ہیں ایک طرف ہماری عوام میں جہالت کوٹ کوٹ کربھری ہوئی ہے تو دوسری طرف بے روزگاری اور غربت نے ان کی مت مار رکھی ہے اور ایسے ماحول میں جہاں پیٹ کی آگ بھجانے کے لیے دو روٹیاں ملنا مشکل ہوجائے تو پھر وہاں پر فحاشی اور بے حیائی عام ہوجاتی ہے جسکے نتیجہ میں آج ایڈز جیسی امراض تیزی سے پھیل رہی ہیں۔
اب بھی وقت ہے کہ ہمارے حکمران اس طرف توجہ دیں عوام میں شعور پیدا کرنے کے لیے اپنے سرکاری اداروں کو متحرک کریں بی ایچ یو سے لیکر ڈسٹرکٹ ہیڈ کوراٹر ہسپتالوں تک علاج معالجہ کی مفت سہولیات فراہم کریں بلخصوص ایڈز ،ہیپاٹائٹس اور کینسر جیسے امراض پر فوری قابوں پانے کے لیے مضبوط بنیادوں پر کا م کرنے کی ضرورت ہے اور اس سلسلہ میں عوام کو بھی سمجھنا چاہیے کہ کوئی بھی ایسا غلط کام مت کریں جن سے انکی زندگی کو خطرہ لاحق ہوجائے ہمارے جیسے معاشرے میں ایک فرد کی موت صرف ایک فرد کی نہیں ہوتی بلکہ ہم معاشی طور پر ایک ایسے خاندانی نظام میں بندھے ہوئے ہیں کہ ایک شخص کے چلے جانے سے پورا خاندان متاثر ہوتا ہے اور اس سلسلہ میں حکومت کو بھی اپنا بھر پور رول ادا کرنا چاہیے۔