تحریر : روہیل اکبر ہمارا حال تو اس مریض جیسا ہو چکا ہے جس کے بارے میں یہ کہا جائے کہ جوں جوں دوا کی مرض بڑھتا گیا ہم نے تو آمریت کے مرض سے جان چھڑوانے کے لیے جمہوریت کے نعرے لگانے والوں کو ووٹ دیے تاکہ اس بیماری سے جان خلاصی ہو جو ہماری بنیادوں کو کمزور کر رہی ہے ایسی کرپشن ،چور بازاری ،لوٹ مار اور دنگا فساد والی سیاست سے نکل کر ہم بھی خوشحالی کی طرف قدم بڑھا سکیں مگر جیسے جیسے ہم نے آمریت کے مرض سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے قربانیاں دی ماریں کھائیں جیلوں میں پابند سلاسل ہوئے اور سب سے بڑھ کر یہ ہوا کہ گھر کے رہے نہ گھاٹ کے مگر ہر آنے والے جمہوری نما آمر نے ہمیں پہلے سے زیادہ ٹیکے لگا ئے ہماری رگوں میں رہا سہا خون بھی کھینچنے کی کوشش کی ہماری کمزوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا اٹھا کر ہمیں ایک ایسے لاعلاج مرض میں مبتلا کربستر مرگ پر اوندھے منہ لٹا دیا کہ اب جسکا علاج دنوں، مہینوں اور سالوں میں ممکن نہیں ہے بلکہ اسکے لیے پوری ایک صدی درکار ہو گی۔
کیونکہ ان لوٹنے والوں نے ہمارے ضمیر کو بھی لوٹ لیا ہے اور ہم انسان ہوتے ہوئے بھی انسانوں جیسی زندگی نہیں گذار رہے نہ کہیں نظم وضبط ہے اور نہ ہی کہیں شعور کی پختگی نظر آتی ہے اور نہ ہی ہم میں صبراور برداشت کا مادہ پایا جاتا ہے ہر طرف اوپر سے لیکر نیچے تک لوٹ مار کا سماء ہے جسکے ہاتھ میں جو آ رہا ہے و ہی اسے مال غنیمت سمجھ کر فرار ہورہا ہے ہمارے سب سے کم درجے کے کاروباری حضرات سڑکوں پر پھل فروٹ بیچنے والے رہڑی والے حضرات ہیں جو صبح سے شام تک اچھی چیزیں دکھا کر خراب فروخت کردیتے ہیں اور ان سے بھتہ وصول کرنے والے ہمارے بلدیاتی ملازم ہر ماہ ان رہڑی والوں اور غیر قانونی تھڑے لگانے والوں سے لاکھوں روپے بھتہ وصول کرلیتے ہیں اس کے بعد ان بھتہ خوروں سے انکے اعلی افسران ،کچھ بدمعاش قسم کے سابق عوامی نمائندے اور رہی سہی کسر کچھ صحافی حضرات بھی پوری کرکے اپنا اپنا حصہ وصول کرلیتے ہیں اس چھوٹے سے کاروباری فرد رہڑہی والے سے شروع ہونے والاکرپشن اور چور بازاری ا کا سلسلہ ا وپر تک پہنچ جاتاہے اور جن کو ہم اپنے ووٹ دیکر اپنی تقدیر بدلنے کے لیے اسمبلیوں میں پہنچاتے ہیں وہ اپنے اوپر بکنے والے گھوڑوں کی چھاپ لگوا کر واپس آجاتے ہیں اور حقیقت بھی یہی ہے کہ ہم میں سے ہر فرد بکنے کے لیے تیار بیٹھا ہوا ہے۔
Terrorism
یہ اب خریدار کی مرضی ہے کہ وہ اپنا دست شفقت رکھ کر کسے اپنا ساتھی بنالیتا ہے اور جو بکنے کو شش تو کرتا ہے اور خریدار نہیں ملتاتو وہ پھر ڈنڈا سوٹا لیکر اپنا حصہ لینے کے لیے ان پر چڑھائی شروع کردیتا ہے پھر جسکے باس جتنی طاقت ہوتی ہے وہ اپنا حصہ اتنا ہی زیادہ وصول کرلیتا ہے رہی بات ہماری پولیس کی ان بیچارے غنڈوں نے کیا دہشت گردی روکنی ہے اور جرائم پر قابو پانا ہے یہ تو خود چوروں کے ساتھی، ڈکیتوں کے ہمسائے،عوام کی رگوں میں نشہ جیسی لعنت کو پھیلانے والوں کے محافظ ہیں چند ایک پولیس افسران اگر اس ادارے میں نہ ہوں تو یہ محکمہ کب کا قبہ خانوں اور دلالوں کا محافظ بن کر عوام کی کھال اتار رہا ہوتا اگر کسی کو کوئی شک ہے تو آج ہی وہ اپنی گلی محلہ میں دیکھ لے کہ کون شراب کا کاروبار کررہا ہے چرس کہاں سے آتی ہے اور لاہورجیسے شہر کے صرف ایک پولیس اسٹیشن نولکھا کے علاقہ میں اسٹیشن سے لیکر میکلوڈ روڈ تک کے ہوٹلوں میں کیا کچھ نہیں ہورہا لڑکیوں کی خریدوفروخت سے لیکر دنیا بھر کا نشہ یہاں کھلے عام فروخت ہورہا ہے یہ وہ شہر ہے جہاں اس جمہوری ملک کے جمہوری وزیراعظم میاں محمد نواز شریف صاحب کا گھر ہے۔
انہی کے چھوٹے بھائی پنجاب کے اس دارالحکومت لاہور میں رہائش پذیر ہیں اور اپنے آپ کو خادم اعلی کہلاتے ہیں انہی کے احکامات اور افسران کی سفارش پر تعینات ہونے والے اکثر پولیس کے ایس ایچ اوز اپنے اپنے علاقوں میں لوٹ مار میں اپنا ثانی نہیں رکھتے یہ حال صرف لاہور ہی کا نہیں ہے بلکہ پورے پاکستان میں جہاں آپ کا دل کرے چلے جائیں وہاں پر آپ کو جواری ،نوسر باز ،نشہ باز ،چرسی ،شرابی اور فراڈیوں کی ایک لمبی لائن مل جائے گی آپ صرف ٹیلی فون کریں شراب ،چرس اور افیون آپ کی دہلیز پر پہنچا دی جاتی ہے آپ صرف ایک ٹیلی فون پر کرکٹ میچ پر جوا بک کروا سکتے ہیں ہر چھوٹے درجے کا کاروباری خاص کر روزانہ کما کر کھانے والے ہمارے پاکستانی بھائی راتوں رات امیر ہونے کے چکر میں جواء کھیل کر اپنے بچوں کے لیے کمائی ہوئی۔
ایک وقت کی روٹی بھی ہار جاتے ہیں کیا یہ سب کچھ ہمارے قانون نافذ کرنے والے اداروں سے چھپ کرہورہا ہے بلکل نہیں بلکہ ہمارے ہر حکمران نے ہمیں کچھ نہ کچھ برائی تحفے میں ضرور دی آج عوام ،حکمران اور بیوروکریسی کے درمیان اتنا فرق پیدا ہوچکا ہے کہ جسے ٹھیک کرنے میں ایک دو سال کا وقت نہیں لگے گا کیونکہ انسان کا ضمیر جب ختم ہوجائے تو پھر اس خالی جگہ میں د وبارہ ضمیر پیدا کرنے میں بہت لمبا عرصہ لگے گا ہاں اگر کوئی جادوئی اثر رکھنے والا فرد حکمران بن جائے جو قانون پر عمل کروا سکے چور کو چور اور قاتل کو قاتل بنا کر فوری سزا دیدے تو پھر اس ملک میں پھیلی گندگی کو صاف کیا جاسکتا ہے مگر ایسا ہوتا ہوا نظر نہیں آرہا کیونکہ قیام پاکستان کے بعد قائد اعظم سے وفا نہ کرنے والے اب ہم سے کیا وفا کرینگے۔