تحریر : عتیق الرحمٰن رشید انفرادی زندگی میں کسی مقصد کے حصول کیلئے ہماری محنت، جدوجہد، لگن اور تدبیر کلیدی حیثیت رکھتی ہیں اور اگر اللہ کی رضا بھی شامل حال رہے تو نتیجے کا حصول ہمارے دائرہ اختیار میں ہوتا ہے. لیکن اجتماعی مقصد اور اسکی جدوجہد پر دیگر پہت سے اندرونی و بیرونی عوامل اثر انداز ہوتے ہیں اس لیے کسی ایک فرد کے لیے یہ ممکن نہیں کہ وہ تن تنہا اپنی کاوش سے مقصد حاصل کر لے. اس جدوجہد میں کسی شخص کا کردار کلیدی تو ہو سکتا ہے لیکن دیگر افراد کا ساتھ، انکی محنت اور کچھ بیرونی عناصر کا موافق ہونا جدوجہد کو نتیجہ خیز بناتا ہے. اجتماعی جدوجہد میں باہمی اتحاد اور بہتر حکمت عملی سے بیرونی عناصر اور غیر موافق حالات سے لڑا جا سکتا ہے نیز اگر اندرونی خلف شعار اور تصادم پیدا ہو جائے تو مقصد دور ہو جاتا ہے اگر ہم کسی پتھریلی جگہ پر چل رہے ہوں تو اچھے جوتوں کے استعمال سے اپنے پاؤں کو محفوظ اور سفر کو تیزی کے ساتھ جاری رکھا جا سکتا ہے لیکن اگر کوئی جھوٹا کنکر بھی اپنے جوتے کے اندر موجود ہو تو وہ تکلیف دیتا ہے ہمیں زخمی کردیتا ہے اور سفر میں حائل ہوجاتا ہے۔ بہتر ربط اور اتحاد سے ہی ہم منزل کی طرف سفر کو تیزی سے جاری رکھ سکتے ہیں۔
جب انسان کا عمل اللہ کی رضا کے لیے خالص ہو تو دنیاوی نتائج اور تکلیفوں کو برداشت کرنا ہمارے لیے ممکن ہوجاتا ہے، لیکن دنیاوی فوائد، ذاتیات اور نتائج کے لیے جلد بازی انسان کی استقامت میں کمی لاتی ہے انسان ہر مرحلے پر نتائج کے حصول کا طلبگار رہتاہے اور دوران سفر ہی منزل نہ ملنے پر مایوسی کا شکار ہو جاتا ہے صبر و شکر کا دامن ہاتھ سے چھوٹ جاتا ہے اور وہ طے کردہ فاصلہ اور نتائج کا موازنہ شروع کردیتا ہے جو کہ اس کا کام بھی نہیں ہوتاـ جدوجہد میں یکسوئی اور منزل کے حصول کے لیے یقین کا ہونا ضروری ہے لیکن دوران سفر ہی منزل ملنے کی بے صبری انسان کو مقصد سے دور لے جاتی ہے وہ مایوسی کی وادی کا مسافر ہو جاتا ہے منفی سوچنا شروع کردیتا ہےـ منفی سوچ اور مایوسی کا شکار شخص کبھی اپنی منزل نہیں پاسکتا اس لیے کہا گیا کہ
مایوسی کفر ہے اور رب تعالیٰ کی رحمت سے مایوس شخص کو کہیں پناہ نہیں ملتی
منفی سوچ ایک چھوت کی طرح لگنے والی بیماری ہے جو انسان کو اندر ہی اندر سے کھا جاتی ہے اور اسے خبر بھی نہیں ہوتی، وہ یہی سمجھتا ہے کہ وہ اصلاح کا کام کر رہا ہے لیکن وہ خود مایوس ہوتا ہے اور دوسروں میں بھی وائرس کی طرح منفی سوچ اور مایوسی پھلا رہا ہوتا ہے، اس کے قریب جو لوگ تھوڑا یا زیادہ مثبت کردار ادا کر رہے ہوتے ہیں اس مایوسی کے منتقل ہونے کی وجہ سے اس کام سے بھی جاتے ہیں. مطلب ایک فرد مایوسی و منفی سوچ کی وجہ سے خود تو کام سے رک گیا وہاں اسکی وجہ سے بہت سے افراد بھی مثبت کام سے نہ صرف رک جاتے ہیں بلکہ کچھ عرصہ میں وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہوکر اس مرض کو پھیلانے کا باعث بنتے ہیں. مایوسی اور منفی سوچ وہ بیماری ہے جو قافلے کے قافلے کو مفلوج اور بے کار کر دیتی ہے اس لیے بہت سے عناصر اپنے مخالفین میں یہ بیماری پیدا کرتے ہیں تاکہ اقوام کو ناکامی سے دوچار کیا جائے۔
مایوسی کا پیدا ہونا ایک فطری عمل ہے لیکن ایسی صورت میں ہمیں کیا کرنا چاہئے؟
مایوسی بعض اوقات وقتی اور کسی واقعہ کا نتیجہ ہوتی ہے اور جند دنوں میں دور بھی ہوجاتی ہے ایسے وقت میں انسان کو صبر سے کام لینا چاہئے اور ہو سکے تو خاموشی اختیار کرلینی چاہئے تاکہ وقتی مایوسی کی وجہ سے کسی ری ایکشن اور غلطی سے بچا جا سکے۔
دائمی مایوسی اور منفی سوچ کو ہم ایک مثال سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
اگر ایک بوڑھے شخص کو بہت سے نوجوانوں کے گروپ میں رکھا جائے تو کچھ عرصہ بعد وہ خود کو جوان تصور کرے گا اسکی حرکات اور طور طریقہ دیگر بوڑھے افراد سے مختلف ہوں گے، اس میں جینے کی ایک نئی امنگ پیدا ہوجائے گی اور اسکی ول پاور میں اضافہ ہوگا وہ بہت سے کام جو وہ پہلے انجام نہیں دے سکتا تھا اب انجام دینے کے قابل ہوجائے گا۔
اسی طرح اگر ایک نوجوان کو بہت سے بوڑھے اور زندگی کی امنگ سے عاری افراد میں چھوڑ دیا جائے تو وہ دیگر نوجوانوں جیسا نہیں رہے گا اسکی ول پاور متاثر ہوگی۔
ایسے ہی جب ہم منفی سوچ کے حامل اور مایوسی کے شکار افرد میں رہیں تو ہماری سوچ پر اسکا اثر ضرور ہوگا یہ اثر ہر انسان پر یکساں تو نہیں ہوسکتا لیکن اسکی خرابیوں سے قریب کے افراد متاثر ضرور ہونگے.
اگر کوئی شخص مایوسی کا شکار ہوتو اسے یہ مایوسی دیگر افراد میں منتقل کرنے کے بجائے کسی مثبت سوچ کے حامل پرجوش شخص سے رجوع کرنا چاہئے تاکہ اسکی مثبت سوچ اور جوش و جذبہ کی وجہ سے وہ مایوسی سے باہر نکل سکے اس سے وہ خود بھی منفی سوچ سے بچ جائے گا اور وہ تمام افراد جو کہ اس سے متاثر ہوسکتے ہیں وہ بھی بچ جائیں گے۔
اجتماعی جدوجہد میں ہمیں خود سے نتائج اخذ نہیں کرنے چاہئے بلکہ جسے اپنا لیڈر بنایا ہے اسکی آنکھ سے دیکھنا اور اسکی ہدایت پر عمل پیرا ہونا جاہئے کیونکہ ہر کام کی انجام دہی ہر فرد نہیں کر سکتا. اگر ہم کسی بڑے آفس کے باہر موجود گارڈ سے پوچھیں کہ مجھے نوکری مل جائے گی تو وہ کہے گا بھائی یہ میرا کام نہیں اندر صاحب ہیں وہ فیصلہ کریں گے. اسی طرح ہماری زندگی میں ہر کام ہم خود نہیں کرتے نظام کو چلانے کے لئے کچھ قواد و ضوابط بنائے جاتے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر ہی کام جاری رکھا جاسکتا ہے اگر ہم ایک دوسرے کے کام میں طبع ازمائی کریں گے تو عدم برداشت، بگاڑ اور فساد پیدا ہوگا ہر شخص اور ادارے کو اپنے کام پر توجہ دینا چاہئے جس کے متعلق وہ جواب دہ ہو. دوسرے کا کام اسے کرنے دیا جائے جس ذمہ داری کے لیے اسے چنا گیا ہو. کسی کام کو انجام دینے اور ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کا یہی بہتر طریقہ ہے.
دنیا میں سب سے آسان کام اپنی اصلاح کرنا اور سب سے مشکل کام دوسروں کی اصلاح کرنا ہے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ہم آسان کام چھوڑ کے مشکل کو اختیار کئے ہوئے ہیں وہ کام کرنا چاہتے ہیں جس میں ہمارا حصہ نہ ہونے کے برابر ہے جب کہ وہ چھوڑ بیٹھے ہیں جو کوئی اور نہیں ہمیں خود ہی کرنا ہوگا کوئی اور یہ نہیں کرسکتاـ اپنی اصلاح سے ہی گھر، معاشرے اور ملک کی اصلاح ہوسکے گی۔