مقدونیہ (جیوڈیسک) یونان میں ہمسایہ ملک مقدونیہ کے نام کی وجہ سے پائے جانے والے شدید سیاسی تنازعے کے باعث ایک بڑا حکومتی بحران پیدا ہو گیا ہے۔ یونانی وزیر دفاع اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے ہیں اور ان کی پارٹی مخلوط ملکی حکومت سے نکل گئی ہے۔
مقدونیہ میں یونان کے ساتھ طے پانے والے معاہدے کی عوامی منظوری کی خاطر ایک ریفرنڈم بھی کرایا گیا تھا، جس کے انعقاد کی بہت سے مقامی باشندوں نے مخالفت بھی کی تھی۔
یونان کے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاستدان اور ملکی وزیر دفاع پانوس کامینوس نے آج اتوار تیرہ جنوری کو اپنے عہدے سے استعفیٰ دے دیا۔ انہوں نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم الیکسس سپراس کی قیادت میں ایتھنز میں موجودہ مخلوط ملکی حکومت سے اپنی علیحدگی کا یہ اعلان ایک مجوزہ پارلیمانی رائے شماری سے کچھ عرصہ پہلے کیا۔
یہ رائے شماری یونان اور سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کے مابین پائے جانے والے اس طویل تنازعے سے متعلق ہے، جو بلقان کے خطے کی ریاست مقدونیہ کے نام کی وجہ سے پیدا ہوا تھا اور جو عشرے گزر جانے کے باوجود ابھی تک حل نہیں ہو سکا۔
وزیر اعظم سپراس کے ساتھ اتوار کے روز ایک ملاقات کے بعد اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے پانوس کامینوس نے ایتھنز میں کہا، ’’مقدونیہ کے نام سے متعلق تنازعے نے مجھے مجبور کر دیا کہ میں اپنے حکومتی عہدے کی قربانی دے دوں۔‘‘
پانوس کامینوس نے مزید کہا، ’’میں نے وزیر اعظم سپراس کو بتا دیا ہے کہ اس قومی مسئلے کی وجہ سے میں وزیر دفاع کے طور پر اب مزید اپنے فرائض انجام نہیں دے سکتا۔ ہماری جماعت بھی مخلوط حکومت سے نکل رہی ہے۔‘‘ کامینوس یونان میں قوم پسندوں کی ’آزاد یونانیوں کی جماعت‘ یا ANEL نامی پارٹی کے سربراہ بھی ہیں۔
اس صورت حال نے یونانی وزیر اعظم سپراس کے لیے پارلیمان میں ان کی حکومت کے لیے کافی تائید سے متعلق کئی سوالات بھی پیدا کر دیے ہیں۔ اسی لیے سپراس نے اتوارکی دوپہر ایتھنز میں کہا، ’’میں اسی ہفتے پارلیمان سے درخواست کروں گا کہ ملکی پارلیمنٹ میں میری حکومت پر نئے سرے سے اظہار اعتماد کے لیے رائے شماری کرائی جائے۔‘‘
ساتھ ہی الیکسس سپراس نے اب تک وزیر دفاع کے فرائض انجام دینے والے کامینوس کا شکریہ بھی ادا کیا اور اعلان کیا کہ وہ ملکی مسلح افواج کے جوائنٹ چیفس آف سٹاف کے چیئرمین اور بحریہ کے ایڈمرل ایوانگیلوس آپوستولاکِس سے کہیں گے کہ وہ وزیر دفاع کے فرائض بھی سنبھال لیں۔
مقدونیہ یونان کا ایک علاقہ بھی ہے اور اسی نام کی سابق یوگوسلاویہ کی ایک ریاست بھی ہے، جو اب ایک آزاد ملک ہے۔ اس ملک کے نام سے متعلق سکوپیے حکومت کا ایتھنز کے ساتھ عشروں پرانا تنازعہ گزشتہ برس نومبر میں ایک باقاعدہ لیکن متنازعہ معاہدے کے ساتھ حل تو ہو گیا تھا تاہم پانوس کامینوس کی سیاسی جماعت عرصے تک اس معاہدے کے خلاف ہی رہی تھی۔
مذکورہ عرصے کے دوران یونان میں سیاسی پناہ کے حصول کے لیے سب سے زیادہ درخواستیں خانہ جنگی کے شکار ملک شام کے باشندوں نے جمع کرائیں۔ یورپی ممالک میں عام طور پر شامی شہریوں کو باقاعدہ مہاجر تسلیم کیے جانے کی شرح زیادہ ہے۔ یونان میں بھی شامی مہاجرین کی پناہ کی درخواستوں کی کامیابی کی شرح 99.6 فیصد رہی۔
اس معاہدے کے مطابق سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ کا نیا نام اب جمہوریہ شمالی مقدونیہ طے ہو چکا ہے۔ مقدونیہ اور یونان کے مابین اس متنازعہ معاہدے کے بعد ہی یہ ممکن ہو سکا تھا کہ جمہوریہ شمالی مقدونیہ کو اب مستقبل میں ممکنہ طور پر مغربی دفاعی اتحاد نیٹو اور یورپی یونین کی رکنیت دی جا سکے گی۔
سکوپیے میں مقدونیہ کی پارلیمان نے جمعہ 11 جنوری کو اس معاہدے کی توثیق کرتے ہوئے اس سلسلے میں ملکی آئین میں ضروری ترمیم کی منظوری بھی دے دی تھی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ مقدونیہ اپنا یہ نیا نام صرف اسی وقت استعمال کرنا شروع کرے گا، جب ایتھنز میں یونانی پارلیمان بھی اس معاہدے کی توثیق کر دے گی۔
یونانی پارلیمانی میں اس موضوع پر رائے شماری اسی مہینے ہونا ہے لیکن اب اس سے پہلے ہی اس معاہدے کے مخالف سیاستدان اور وزیر دفاع پانوس کامینوس مستعفی ہو گئے ہیں۔
پاکستانی صوبہ پنجاب کے ضلع گجرات سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان تارک وطن کے مطابق وہ اپنی والدہ کا زیور بیچ کر اور اپنی جان خطرے میں ڈال کر یونان تک پہنچا ہے اور کسی صورت واپس نہیں جائے گا۔
کامینوس نے گزشتہ سال کے آخری مہینوں کے دوران کئی بار یہ دھمکی دے دی تھی کہ وہ مقدونیہ کے نام سے متعلق ایتھنز کی پارلیمان میں رائے شماری سے پہلے ہی حکومت سے علیحدہ ہو جائیں گے۔ ان کے بقول سابق یوگوسلاویہ کی جمہوریہ مقدونیہ یا اب جمہوریہ شمالی مقدونیہ کے نام میں مقدونیہ کے لفظ کا استعمال یونان کے لیے اس وجہ سے قابل قبول ہے ہی نہیں کہ مقدونیہ ناقابل تنسیخ انداز میں یونانی شناخت، تاریخ، ثقافت اور تہذیب سے جڑا ہوا ہے۔
زمانہ قبل از مسیح کے عظیم یونانی فاتح اسکندر اعظم کا تعلق بھی مقدونیہ ہی سے تھا اور یہ بات آج بھی بہت سے یونانیوں کے لیے قومی فخر کا باعث ہے۔ لیکن ساتھ ہی جمہوریہ شمالی مقدونیہ کی قومی شناخت میں بھی اسکندر اعظم کے نام سے جڑی یہی تاریخی میراث مرکزی کردار ادا کرتی ہے۔