متنازعہ ریاست جموں و کشمیر کے مختلف موضوعات سے متعلق اہم معلومات کا اہم ذریعہ ہفت روزہ ” کشیر ” ہے ۔ کشمیر کے مختلف موضوعات پر تحقیق کرنے والے ”کشیر” کے پرانے شماروں کا مطالعہ کرتے ہیں ۔مختصر طور پر کہا جا سکتا ہے کہ ” کشیر ” ریاست جموں و کشمیر و گلگت بلتستان کی سیاسی، جغرافیائی، سماجی، مذہبی، تاریخی، سیاحتی، الغرض ہر شعبے کی قیمتی معلومات کا خزانہ ہے۔ ہفت روزہ ” کشیر ” کی اس گراں قدر معلومات کا ذریعہ ریاست کشمیر کی مائیہ ناز شخصیت خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم) ہیں، یوں ریاست کشمیر سے متعلق ” کشیر ” کی معلومات کا مصدقہ ہونا لازمی امر ہے۔ خواجہ عبدالصمد وانی (مرحوم) کو کشمیر کا انسائیکلو پیڈیا بھی کہا جاتا تھا اور ان کے ذریعے ہفت روزہ ” کشیر” کی تحریریں ریاست جموں و کشمیر کا قیمتی صحافتی، سماجی، سیاسی، تاریخی و دیگر موضوعات کا اہم ریکارڈ ہے اور اس کا مطالعہ کئے بغیر کوئی بھی کشمیر کے بارے میں اپنی معلومات کو مکمل نہیں کہہ سکتا۔ وقتا فووقتا ہفت روزہ ” کشیر” کی پرانی فائلوں کا مطالعہ کرتا رہتا ہوں اور ہر بار اہم معلومات حاصل ہوتی ہے لیکن اس معلومات سے بھرپور استفادہ نہیں کر پاتا۔
گزشتہ دنوں ” آل کشمیر نیوز پیپرز سوسائٹی” کے صدر عامر محبوب نے سید علی رضا(برسلز) کے اعزاز میں اسلام آباد کلب میں عشائیہ دیا جس میں آزاد کشمیر کی مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنمائوںاور کئی سینئر صحافیوں نے بھی شرکت کی۔ تقریب کے اختتام پر اسلام آباد کلب کے صدر دروازے کے سامنے گروپ تصاویر کے بعد سب رخصت ہونے لگے تو اسی دوران آزاد کشمیر حکومت کے وزیر مطلوب انقلابی نے کہا کہ ہفت روزہ ” کشیر ” ان کے والد صاحب کے نام ان کے گھر آتا رہا ہے۔انہوں نے مجھ سے کہا کہ اگر آپ ”کشیر” کی پرانی فائلوں کو بھی دیکھ لیں تو آپ کو کسی اور معلومات کی ضرورت ہی نہیں۔دو تین دن قبل ” کشیر ” کی پرانی فائلوں سے کچھ تلاش کر رہا تھا کہ اچانک میری نظر 15 ستمبر تا21 ستمبر1987 ء کے شمارے پر پڑی جس میں خواجہ عبدالصمد وانی ( مرحوم) کے مشہور مستقل کالم انکشافات’ میں ” آزاد کشمیر ،زمانہ جہالیت کا عرب” کے عنوان پر پڑی۔اس مختصر کالم میں آزاد کشمیر کی صورتحال اس خوبصورت انداز میں بیان کی گئی ہے کہ میں نے ضروری سمجھا کہ 26سال قبل کی آزاد کشمیر کی اس صورتحال کو قارئین کے سامنے پیش کروں جواب مزید ابترطور پر درپیش ہے۔ ریاست جموں و کشمیر کے ممتاز صحافی ،دانشور خواجہ عبدالصمد وانی( مرحوم)چھبیس سال قبل(1987ء میں) آزاد کشمیر کے بارے میں لکھتے ہیں کہ ‘ریاست جموں وکشمیر کا وہ پہاڑی علاقہ جو آج کل آزادکشمیر کہلاتا ہے۔
ہر لحاظ سے ریاست کا پسماندہ ترین علاقہ تھا۔ اس علاقے میں صرف ایک انٹرمیڈیٹ کالج / میر پور جہاں غیر مسلموں کی آبادی زیادہ تھی چند ہائی سکول تھے جو زیادہ تر ایسے مقامات پر تھے۔ جہاں غیر مسلموں کی آبادی تھی۔سیاسی طورپر بھی یہ علاقہ خاصا پسماندہ تھا۔ سکھوں کے آخری دنوں اور ڈوگرہ راج کے ابتدائی دور میں اس علاقے کے مقامی راجوں اور سرداروں نے بغاوت کی اور ان بغاوتوں میں راجگان راجوروی اور بھمبر وغیرہ کو اپنی جاگیروں سے محروم ہونا پڑا اور ان علاقوں کے مسلمانوں کو المناک حالات سے دوچار ہونا پڑا۔ پونچھ کے بعض علاقوں میں حریت پسند مسلمانوں کی زندہ کھالیں کھینچوائی گئیں۔
1931 ء میں جموں و کشمیر میں تحریک آزادی کا باقاعدہ آغاز جموں شہر میں توہین قرآن پاک کے المیہ سے ہوا تو دیکھتے دیکھتے یہ تحریک جموں و کشمیر کے پست و بالا اور طول و عرض میں آگ کی طرح پھیل گئی اور اس تحریک میں موجود ہ آزادکشمیر کے بعض سیاسی کارکنوں نے بھی سرگرم حصہ لیا۔ ضلع میرپور میں عدم ادائیگی مالیہ کی تحریک ضلع پونچھ کے علاقہ تھکیالہ پڑائو/ موجودہ نکیال/ میں کسٹم چوکیوں کی تباہی اورسود خور ہندوئوں کی صفائی ہماری تحریک آزادی کے یادگار اورروشن اوراق ہیں۔ تاہم مجموعی طورپر موجودہ آزاد علاقے اقتصادی میدان کی طرح سیاسی طور پر بھی نسبتاً پسماندہ رہے۔ مگر 1947 ء میں اس علاقے کے غیرت مند اور حریت نواز عوام نے ڈوگرہ راج کیخلاف مسلح بغاوت کر کے جموں و کشمیر کی تاریخ کا رخ موڑ کر رکھ دیا۔ آزادکشمیر کے لئے اس تاریخی اور انقلابی جدوجہد نے اس علاقے کے لوگوں کو وافر سیاسی شعور عطا کیا۔
Elections
علاقائی اور قبیلائی سوچ بھی اس علاقے کے عوام کو ورثے میں ملی ہے۔ یہاں کے مسلمان برادریوں میں بٹے ہوئے ہیں۔ علاقے کے دائرے میں بند ہیں اور یہی وجہ تھی کہ 1938 ء میں جب جموں و کشمیر کے مسلمانوں کی واحد نمائند ہ اور ترجمان جماعت آل جموں و کشمیر مسلم کانفرنس نے پرجا سبھا / اسمبلی میں مسلمانوں کے لئے 21 مسلم نشستوں میں سے 19 پر کامیابی حاصل کی۔ تو مسلم کانفرنس نے جو دو نشستیں ہاری ہیں۔ ان میں ایک موجودہ ضلع میرپور اور کوٹلی کی مشترکہ نشست ہی تھی اس طرح پرجا سبھا کے پہلے انتخابات 1934 ء میں مسلم کانفرنس نے اپنے اکثر رہنمائوں کے جیلوں میں بند ہونے کے سبب 21 میں سے 7 نشستیں ہاری ہیں۔ ان میں زیادہ تر موجودہ آزاد علاقے میں تھیں۔ 1947 ء کے عام انتخابات میں مسلم کانفرنس نے صوبہ جموں کی 9 نشستوں میں جو دونشستیں ہاری تھیں۔ ان میں سے ایک ضلع کٹھوعہ اور دوسری موجودہ تحصیل بھمبر کی نشست تھی یہ دونوں نشستیں قبیلائی تعصب اور برادری ازم کی سوچ کے سبب ہی ہاری تھیں۔
المیہ یہ ہے کہ آزادی کے 40 سال کے بعد اس علاقے میں علاقائی سوچ اور برادری ازم کا تعصب عروج پر ہے۔ آزادکشمیر کی سابق غیر نمائندہ نامزد حکومت نے سیاسی جماعتوں کو غیر موثر بنانے کے لئے اس علاقے میں دانستہ طور پر علاقائی سوچ اور قبیلائی تعصب کو ہوا دی ار اس طرح اس مختصر علاقے کو عملاً زمانہ جہالت کا عرب بنایا گیا۔ یہاں ہر علاقے ہر معاملے میں اپنی اپنی سوچ اوراپروچ رکھتا ہے۔ یہاں برادری کی سوچ سراسر قبیلائی سوچ ہے۔ اور اکثر برادریوں نے زمانہ جہالت کے عرب کی طرح اپنے اپنے قبیلے کا الگ الگ بت بنایا ہے۔ ظہور اسلام سے قبل خانہ کعبہ میں جو 360 بت جمع تھے۔ وہ بھی زیادہ تر عرب کے قبیلوں نے اپنے اپنے قبیلے اور علاقے کی نمائندگی کے طور پر رکھے تھے۔
اسلام کا سورج طلوع ہوا تو یہ تمام بت توڑے گئے اور صرف ایک خدا کی عبادت کا درس دیا گیا۔آزادعلاقے میں صدیوں سے موجودہ علاقائی اور قبیلائی سوچ کوختم کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔ اسلام نے قبیلے کوصرف اور صرف پہچان کا ذریعہ بتایا ہے۔ لیکن بدقسمتی سے آزاد علاقے میں ہربات اپنے علاقے اور برادری کے حوالے سے کی جاتی ہے۔
آل جموں کشمیر مسلم کانفرنس بجا طور پر جموں و کشمیر کے مسلمانوں کے سواداعظم کی نمائندگی اور ترجمانی کرتی ہے۔ اس لئے اس جماعت اور اس کے رہنمائوں پر یہ ذمہ داری دوسروں سے زیادہ عائد ہوتی ہے کہ وہ اس علاقے میں علاقائی اور قبیلائی سوچ کی کم کرنے کے لئے اپنے قول و فعل کی مکمل ہم آہنگی سے کام کریں اور ایک نظریاتی سیاسی جماعت کے قائدین ہونے کے حوالے سے آزاد علاقے میں علاقائی اور قبیلائی سوچ اور اپروچ کی ہرممکن حوصلہ شکنی کریں۔