تحریر : سید عارف سعید بخاری آئین پاکستان اور ملک میں رائج دیگر قوانین کے مفہوم اور تشریحات تو ماہرقانون دانوں کی ذمہ داری ہے لیکن وطن عزیز کی یہ بدقسمتی ہے کہ یہاں قوانین بنانے والوں نے بھی ایسے ایسے کمالات دکھائے ہیں کہ رہے نام اللہ کا۔۔۔جبکہ آئین پاکستان او رائج دیگر قوانین کو سمجھنا بھی عوام و خواص کے لیے مشکل ہے ۔ سپریم کورٹ نے وزیراعظم نواز شریف کو دبئی میں اقامہ کے حوالے کے حقائق چھپانے پر نااہل قرار دیا تو وہ اپنی ”نااہلی ” پر واویلا کرتے ہوئے سڑکوں پر نکل آئے اور عوام سے باربار یہ سوال کرتے رہے ہیں کہ ا ے لوگو! مجھے کیوں نااہل قرار دیا گیا ہے ۔؟ یوں انہوں نے خود کو ایک تماشا بنا لیا اور ثابت کیا کہ وہ واقعی ”نااہل ” ہیں کیونکہ انہوں نے بذات خود اور اُن کے مشیران و وکلاء صاحبان نے انہیں یہ نہیں بتایا کہ عدالت اعظمیٰ انہیں نااہل قرار دینے کی مجاز ہے بھی یا نہیں ۔اللہ کا شکر ہے کہ ابھی فیصلے کو چند دن ہی گذرے تھے کہ انہیں اُن کے مشیران نے بتایا کہ عدالت ِعظمی ٰملک کے سب سے بڑے عہدے پر فائز شخص یعنی کہ” وزیر اعظم” کو نااہل قرار دینے کی مجاز نہیں ہوتی ۔اس انکشاف پر انہوں نے سپریم کورٹ میں اپنی نااہلی کے خلاف تین درخواستیں دائر کر دی ہیں ۔ بڑی دیر کی مہرباں آتے آتے ۔
یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ جب سپریم کورٹ نے اُن کے خلاف درخواستوں کی سماعت شروع کی تھی تو کیا اُن کے مشیران اور وکلاء صاحبان کو اس بات کا علم نہ تھا کہ عدالت اعظمیٰ اس کیس کی سماعت کا حق نہیں رکھتی ۔پاکستان میں پہلی بار ایک وزیر اعظم نواز شریف عدالت کی طرف سے نااہل قرار دئیے جانے کے بعد صدائے احتجاج کے لئے سڑکوں پر نکلے ورنہ اس ملک میں آئین پاکستان کی پامالی پر اکثر خاموشی اختیار کی جاتی رہی ہے ۔
عدالت اعظمیٰ کی طرف سے ”نااہلی” کے فیصلے کے بعد نواز شریف کا واویلا کچھ اچھا نہیں لگتا ۔ اُن کا کہنا ہے کہ عدالتی فیصلہ 20کروڑ عوام کے مینڈیٹ کی توہین ہے ۔مگر انہیں یہ نظر نہیں آتا کہ اُن کے خطابات اور بڑھکیں کس حد تک توہین عدالت کے زمرے میں آتی ہیں ۔ ہمارا نواز شریف صاحب سے ایک سوال یہ بھی ہے کہ کیا وہ یہ بتانا پسند کریں گے کہ جب انہیں ایک الیکشن میںملک کے ذمہ داران کے ساتھ خفیہ ڈیل کے ذریعے ”بھاری عوامی مینڈیٹ ” سے نوازا گیا تھا اور پری پلان حقیقی عوامی مینڈیٹ کو ثبوتاژ کرکے انہیں کامیابی سے ہمکنار کیا گیا تھا۔یعنی اس وقت تو نواز شریف صاحب نے پوری قومی اسمبلی ہی سکریپ کی طرح خرید لی تھی ۔تو اُس وقت انہوں نے یہ سوال کیوں نہیں اٹھایا کہ جناب ! میں اس قدر بھاری مینڈیٹ کا متحمل نہیںہو سکتاجو مجھے ”مہربانوں ”کی طرف نے عطا کیاگیا ہے ۔ اسی طرح جب جنرل پرویز مشرف نے نواز حکومت کا تختہ الٹ دیا تھا اور وہ اپنی جان بچانے کیلئے انہی سے کئے گئے ایک10سالہ معاہدے کے تحت سعودی عرب جلا وطن ہو گئے تھے تو اس وقت بھی انہوں نے اس شب خون پر کوئی واویلا نہیں کیا تھا ۔ماضی میں جتنی بھی حکومتوں کو کسی نہ کسی شکل میں چلتا کیا گیا ۔کسی بھی موقع پر نواز شریف صاحب ہوں یا کوئی اور سیاسی رہنماء ، کبھی کسی نے کوئی احتجاج نہیں کیا ۔ لیکن جب ان کی ذات اس کا شکار ہوئی تو وہ عوام کو سڑکوں پر لے آئے ۔ اورانہیںجب عوامی عدالت میں جانا لاحاصل نظر آیا تو ایک بار پھر اپنی کرسی بچانے کیلئے اسی سپریم کورٹ سے رجوع کر لیا ہے ، جس کے فیصلے کے خلاف وہ سڑکوں پر دہائی دینے نکلے تھے آگے آگے دیکھئے ہوتا ہے کیا ۔
ایک اور بات کہ اقتدار میںرہ کر ملک میں کوئی انقلاب نہ لا سکنے والے میاں نواز شریف نااہلی کے بعد بڑے جوش و خروش سے ”انقلاب۔۔انقلاب۔۔کی دہائی دے رہے ہیں تو کیا وہ اس بات کا جواب دیں گے کہ گذشتہ 30سالوں میں جبکہ وہ خودپنجاب میں وزیر خزانہ، وزیراعلیٰ پنجاب اور پھر تین بار اس ملک کے وزیر اعظم رہ چکے ہیں تو اس دوران وہ کون سا انقلاب لائے ۔ جو اب انقلاب لائیں گے ۔وہ ملک کو ایشین ٹائیگر بنانے کے اُن کے دعوے کیا ہوئے ۔؟وطن عزیز تو آج بھی بحرانوں میں گھرا ہے ۔
قوانین میں موجود سقم ، احتسابی اداروں کی لوٹ کھسوٹ اورپولیس کی طرف سے مقدمات میں حقائق کو مسخ کئے جانے کی وجہ اکثر مظلوم سزا پاجاتے ہیں جبکہ ظالم اپنے اثر و رسوخ اور دولت کے بل بوتے پر انہی عدالتوں سے باعزت بری ہو جاتے ہیں۔اسی قانونی سقم کی سزا وزیر اعظم نواز شریف کو ملی ۔حقیقت تو یہ ہے کہ ظلم اور ناانصافیوں پر عدالتوں سے انصاف نہ ملنے پر بیسیوں مظلوموں کو خود سوزی کرنا پڑی یاتنگ آمد بجنگ آمد کے مصداق ۔مظلوم کواپنے سینے میں جلنے والی انتقام کی آگ سے دل برداشتہ ہو کر یا لوگوں کے طعنوں سے مجبور ہوکر ظالموں کوخود ہی اپنے ہاتھوں سے گولی مار کر واصل جہنم کرنا پڑا ۔اس عمل کا المناک پہلو یہ ہے کہ بعد ازا ں انہی مظلوموں کو قانون ہاتھ میں لینے کے جرم میں تختہ دار پر لٹکایا جاتا رہا ہے ۔اور ظم و انصافی کا یہ سلسلہ سال ہا سال سے پاکستان کے مظلوم عوام کو مقدر بن چکا ہے ۔
قیام پاکستان کے بعد سے اب تک ہزاروں بلکہ لاکھوں لوگ قانون سے نابلد ہونے کی وجہ سے ناانصافیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں ۔مگرآج تک پاکستان کو کوئی حاکم ایسا نہیں ملاکہ جس نے ”عدل جہانگیری ”کی یاد تازہ کر دی ہو۔ جو بھی آیا اُس نے اپنی تجوریاں بھری اور اپنے آقاؤں کی خوشنودی کو مقدم سمجھا ۔اسمبلیوں میں جانے والوں کی اکثریت قانون سازی کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتی ۔یہ عوام کے منتخب نمائندے قومی اسمبلی کے ممبر کی حیثیت سے اپنی تمام تر توجہ حلقے کے ترقیاتی کام کروانے اور ٹھیکیداروں سے اپنا حصہ وصول کرنے پر مرکوز رکھتے ہیں۔رکن اسمبلی کی حیثیت سے بھاری تنخوائیں اور مراعات لینے والے مقررہ مدت میں محض تفریح و طبع کے لیے اسمبلی آتے ہیں اور خاموش تماشائی کی طرح اجلاس ختم ہونے پر گھر چلے جاتے ہیں یا وہاں خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں ۔قانون کیا ہے اور اس پر عملدرآمد کیسے ہونا چاہئے ۔اس پر کسی کی توجہ نہیں ہوتی۔
نواز شریف صاحب کورب کاشکر ادا کرنا چاہئے کہ وہ پاکستان کے وزیر اعظم بنے انہیں عدالت اعظمیٰ نے صرف اقامہ ظاہر نہ کرنے پر جھوٹا قرار دے کر ”نااہل” قرار دیا ہے ۔ ورنہ اگر وہ چین کے وزیر اعظم ہوتے تو آج اس قدر کرپشن اور لوٹ مار پر( جس کی تاریخ میں مثال نہیںملتی) آج پھانسی کی سزا پا چکے ہوتے اور انہیں کسی عدالت میں اپیل کا حق بھی حاصل نہ ہوتا ۔لیکن بندہ بھی کتنا ناشکرا ہے کہ وہ ایک چھوٹی سی سزا پر بھی واویلا کررہا ہے اور اپنی اس مہم میں توہین عدالت کے ساتھ ساتھ عساکر پاکستان کو بھی تنقید کا نشانہ بنا رہا ہے ۔لگتا ہے کہ انہیں کسی بڑی آزمائش کی آرزو ہے ۔ خدا نہ کرے کہ اُن پر کوئی ایسابُرا وقت آئے کہ جہاںاُن کے ہمدرد ، دوست اور عوام بھی اُن کا ساتھ چھوڑ جائیں ۔ اور وہ میلے میں تنہاء انصاف ، انصاف اور انقلاب انقلاب کی دہائی دیتے اس دنیا سے ہی کوچ کر جائیں۔
Syed Arif Saeed Bukhari
تحریر : سید عارف سعید بخاری Email:arifsaeedbukhari@gmail.com