اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے کہ لندن فلیٹ کی خریداری سے متعلق دستاویز اپنے اطمیان کے لئے طلب کیں، میڈیا کس انداز سے چیزوں کو پیش کرتا ہے، اس سے سروکار نہیں، ہماری دلچپسی اس حد تک ہے کہ عمران خان کے اکاؤنٹ میں فلیٹ خریداری کے وقت کتنی رقم موجود تھی، فلیٹ کی خریداری کی رقم بذریعہ بنک ادا کی گئی یا نہیں؟
وکیل نعیم بخاری نے کہا ہے کہ لندن فلیٹ کی خریداری کیلئے رقم کی ادائیگی اور آسٹریلیا اور برطانیہ میں کرکٹ آمدن کا ریکارڈ مل گیا ہے۔ لندن فلیٹ کی ابتدائی رقم 61 ہزار پاؤنڈز ادا کی گئی، 55 ہزار پاؤنڈز بنک سے قرض لیا گیا۔ جمائمہ خان نے 4 کروڑ 8 لاکھ روپے کی رقم پاکستان بھیجی۔ چیف جسٹس نے کہا کہ درخواستگزار نے لندن فلیٹ کی خریداری میں منی لانڈرنگ کا الزام عائد نہیں کیا، الزام یہ ہے کہ عمران خان نے آف شور کمپنی کا بینیفشل مالک ہونا تسلیم کیا، آف شور کمپنی ظاہر نہ کر کے عمران خان صادق اور امین نہیں رہے۔
جسٹس عمر عطاء بندیال نے کہا کہ ٹیکس ایمنسٹی سکیم سے فائدہ اٹھانے پر کسی کو سزاوار قرار نہیں دیا جا سکتا، بتایا جائے کہ کیا عمران خان آرٹیکل 62 کے تحت ایماندار ہیں؟ نعیم بخاری نے کہا کہ عدالتی فیصلے موجود ہیں، آرٹیکل 184 کے مقدمہ میں آرٹیکل 62 کو سیاسی انجینئرنگ کیلئے استعمال نہیں کیا جا سکتا۔
وکیل اکرم شیخ نے کہا کہ عمران خان کی جانب سے غیرمصدقہ دستاویزات پیش کی گئیں، تصدیق کرائی جائے، چیف جسٹس نے کہا کہ کوئی خودساختہ دستاویز عدالت میں کیوں جمع کرائے گا؟ کیس کی مزید سماعت وکیل انور منصور کی عدم دستابی پر 31 جولائی تک ملتوی کر دی گئی ہے، جہانگیر ترین کے خلاف درخواست پر سماعت بدھ سے شروع ہو گی۔