تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری اسلامی دعوت کی نشرو اشاعت کا سلسلہ جمود کا شکار ہے بوجہ غیر معلوم کہ علماء اسلام اس اہم ترین شعبہ سے کنارہ کش کیوں ہو چکے ہیں؟اس کے بہت سے اسبابوں میں سے ایک سبب فرقہ بندی و گروہ پسندی ہے۔یہاں پر ہمیں معلوم ہونا چاہئے کہ خلاف و اختلاف میں بنیادی فرق ہے کہ اختلاف انسانی طبیعت میں ودیعت رکھی گئی ہے کہ ہر ایک انسان اپنی سوچ و فکر اور استعداد و صلاحیت کے مطابق کام کرتا نظر آتاہے ہے۔مثال کے طور پر ایک استاذ کی کلاس میں دو شاگر دہمیشہ موجود رہتے ہیں مگر ان میں سے ایک استاذ کے لیکچر کے دوران مکمل طورپر اس کی جانب متوجہ رہتاہے کہ اس کے زبان سے نکلنے والا کوئی حرف یا اس کا کوئی اشارہ و کنایہ اس کی فہم و تفہیم سے رہنے نہ پائے۔جبکہ دوسرا طالب علم کلاس میں حاضر و موجود ہوتے ہوئے بھی سبق میں موجزن ہونے کی بجائے غیر نصابی خیالات و افکار میں مصروف رہتاہے جس کا بدیہی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ جس نے اپنے استاد کی لمحہ بلمحہ کی حرکت و بات پر نظر رکھی اس کی استعداد علمی اور معلومات کا ذخیرہ و خزینہ بہت زیادہ ہوگا بنسبت اس کے جو کلاس میں تو حاضر تھا مگر اس کے عقل کے گھوڑے کسی اور میدان میں دوڑ رہے تھے کے پاس ڈگری تو آجائے گی مگر علم و معرفت کی روح سے محروم رہے گا۔
اسی طرح عقل انسانی کی بھی قسمیں ہیں جیسا کہ بعض لوگوں کی طبیعت کا لازمہ و خاصہ ہوتاہے کہ وہ لہو و لعب اور فضول سرگرمیوں میں مصروف رہنے کی بجائے تعلیم و تحقیق کو اپنا اوڑھنا بچھونا بناتے ہیں۔بعض لوگ اپنے اوقات کو غیر ضرور سرگرمیوں میں مشغول رکھنے کے ساتھ تعلیم و تعلم میں وسعت و عمق پیدا کرنے سے اجتناب کرتاہے تو ایسی حالت میں صاحب علم و معرفت پر وہ اسرار و رموز منکشف ہوتے ہیں جس سے دوسرا محروم رہتاہے۔جیساکہ حضرت دائود ،حضرت سلیمان کی جانب سے ایک اختلافی قصہ میں فیصلہ کا ذکر قرآن حکیم میں وارد ہواہے۔کہ”دائود و سلیمان نے جب فیصلہ کی زمین کے بارے میں جسے مویشیوں نے تیاری کے بعد خراب کردیا تھا اور کھالیا تھا ،اللہ تعالیٰ ان کے فیصلہ کو دیکھنے والاتھا۔سلیمان سمجھا دیا قضیہ البتہ وہ دونوں اپنے علم و حکمت کے ساتھ فیصلہ کررہے تھے”حضرت دائود نے کہا کہ مال مویشی انسانوں ہی کی ایک قسم ہے کہ جو زمین میں کھاتے پیتے ہیںاسی لئے انہوں نے فیصلہ کیا کہ مال مویشی زمین کے مالک کے حوالے کردیئے جائیں کہ وہ اپنا نقصان اس سے پورا کرے جب کہ مویشیوں کے مالک کی غفلت پر اسکو سزا ملے گی جبکہ حضرت سلیمان نے فیصلہ سنایا کہ مویشی چونکہ جانور ہیں اور انہیں فائدہ و نقصان کے مابین فرق کرنے کا شعور نہیں دیا گیا۔
جبکہ مویشی کے مالک زمیندار کا نقصان نہیں چاہتے تھے اس لئے زمین مویشیوں کے مالکوں کے سپرد کردی جائے یہاں تک کہ وہ تیار ہوجائے اور جانور زمین کے مالک کے حوالے کردیئے جائیں تاکہ وہ اس کا دودھ پئیں بعد میں فصل کی تیاری کے بعد زمین والے اپنی زمین کا پھل لے لیں اور مویشیوں کے مالکوں کو ان کے جانور سپرد کردئیے جائیں۔قرآن حکیم نے دونوں مقرب ترین انبیاء کے فیصلہ کو احترام و اکرام کی نظر سے بیان کیا ہے۔
یہ نہیں کہا کہ دائود غلطی پر تھے بل کہ انہوں نے اجتہاد کیا اور حضرت سلیمان نے بھی اجتہاد کیا تھا ۔دونوں بڑے پیغمبروں کے مابین اس اختلافی مسئلہ پر مشاورت ہوئی جس میں داد تحسین حضرت سلیمان کی رائے کو دی گئی۔یہاں یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اختلاف فرقوں اور گروہوں کے مابین کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ انسان ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرنا چھوڑکر دشمنی و عداوت پیدا کرلے۔لازمی تو یہ ہے کہ آپس میں تعاون کے ساتھ ملت و قوم کے مفاد میں جو بہتر ہو اس پر عمل کیا جائے۔یہ بات جماعت اور معاشرے کو فائدہ دے گی۔ملت کے مفاد میں یہ بات ہے کہ جب بھی ان کے مابین اختلاف ظاہر ہو تو آپس میں مشاور ت اور بحث و تمحیص سے اس کو حل کریں۔یہ امر بالکل فطری نہیں ہے کہ معاشرے میں خلاف کو فروغ دیا جائے جس کے نتیجہ میں دشمنی و عداوت کا ظہور ہوتاہے اور میل جو ل و تعلقات کے استوار رہنے میں سدسکندری کا کام کرتاہے۔جس کے نتیجہ میں معاشرہ میں بے اطمینانی اور بے چینی غیض و غضب کے ساتھ نفرت و حقارت کا عنصر جڑ پکڑلیتاہے جو کہ بہرطور مذموم عمل ہے۔
اصحاب عقل و دانش جن میں فقہاء کرام شامل ہیں ان کے مابین اختلافات ہوتے تھے چھوٹے و بڑے مسائل کے بارہ میں مگر مسرت کن بات یہ ہے کہ ان کے اختلاف کی تاثیر دلوں میں نفرت و کدورت اور دوری پیدا کرنے کا سبب نہ بتا تھا۔اسی لئے تو کہا گیاہے کہ ”امت میں اختلاف رحمت ہے”تاکہ لوگوں پر آسانیاں آشکار ہوسکیں۔جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ۔”اگر اللہ چاہتاتو لوگوں کو ایک امت بنا دیتامگر ہمیشہ کیلئے باہم اختلاف کرتے رہتے ”اختلاف کا فائدہ یہ ہوتاہے کہ بہت سی آراء سامنے آتی ہیں جس سے معذور افراد استفادہ کرسکتے ہیںکہ انہیں حالت اضطرار و مجبوری میں رخصت دی جاسکتی ہے کہ وہ ائمہ کرام میں سے کسی ایک کی رائے پر بوقت حاجت عمل کرلیں۔
سبھی لوگ جانتے ہیں کہ بنی قریظہ جو کہ یہودیوں کا قبیلہ ہے کو جب آپۖ نے ان کی گوشمالی کا فیصلہ کیا تو آپۖ نے فرمایا کہ کوئی فرد نماز نہ پڑھے یہاں تک کے بنو قریظہ پہنچ جائیں مگر راستے میں نماز عصر کی اذان ہوئی تو بعض صحابہ نے وقت نماز کے فوت ہونے کے خدشہ کو مدنظر رکھتے ہوئے راستے میں اپنی نماز اداکرلی اور بعض نے آپۖ کے قول پر عمل کرتے ہوئے بی قریظہ میں پہنچ کرنماز ادا کی۔جب یہ بات نبی اکرمۖ تک پہنچی تو آپۖ نے سکوت اختیار فرمایااور کسی کو مخطی یا ثواب پر ہونے کا نہیں کہا ۔ چونکہ اصل قول نبی ۖ کا مقصد یہ تھا کہ جلدی سے جلدی بنی قریظہ لنگر انداز ہواجائے۔یہ وجہ ہے کہ علماء اسلام صحابہ کے دونوں طبقوں کے عمل کو درست قرار دیتے ہیں۔یہ رواداری و برداشت اختلاف کے حسن میں سے ہے جبکہ وہ اختلاف جو کہ دلوں میں نفرتیں پیداکرنے کا موجب ہو اور بدلہ کی آگ میں انسان کو اندھا کردے وہ مذموم ہے جس سے اجتناب لازمی ہے۔