تحریر : رائو عمران سلیمان گتا ہے کہ اس ملک کے حکمران سیاستدانوں کے پاس ضمیر نام کی کوئی چیز نہیں ہے ،اپنے جہنم ذدہ پیٹ کو بھرنے کے لیے لوگوں کو ان کے حقوق سے محروم کردینا کہاں کی انسانیت ہے؟کیا عوام کے گھروں کے چولہے بجھا دینے کانام اقتدار ہے ؟کیا مظلوموں اور معصوموں کا مال کھانے کانام بھی اقتدار ہے ؟ میں نے تو اس ملک کی سیاست میں زیاد ہ تر یہ ہی دیکھا ہے کہ جس کسی کو اقتدار ملا اس نے گزشتہ حکمرانوں سے زیادہ اس ملک کی عوام کو دکھ دیا ہے۔
کیا ان حکمرانوں کے اندر کا آدمی کبھی ان کو ملامت نہیں کرتا کہ ا س عوام نے ہی انہیں منتخب کیا اور انہیں ہی زلیل و رسوا کیا جارہاہے ،یہ سب جانتے ہوئے کہ یہ ہی قوم ان حکمرانوں کو تخت پر بٹھانے والی ہے اس ملک کے لوگ ان حکمرانوں کے محسن ہیں۔ یہ سب کے سب ڈرامے باز اورشعبدہ بازسیاستدان ہیں سب کے سب سیاسی اداکار ہیں جو وقت بدلنے کے ساتھ ساتھ اپنے چہرے اور الفاظوں کے اتار چڑھائو سے اس ملک کے عوام کو نچاتے ہیں اور اپنے دکھوں کو بھلا کر اپنے اقتدار کے چھن جانے کے دکھوں کا رونا روتے ہیں۔مسلم لیگ نواز کی قیادت کا اس وقت یہ حال ہے کہ ان کی گفتگو کو سنتے ہوئے مجھے اس ملک میں بسنے والی بیوائوں ،یتیموں اور مسکینوں پر بھی اس قدر رحم نہیں آرہا جس قدر دکھ ان الفاظوں پر ہوتا ہے کہ مجھے کیوں نکالا ،آخر ہمارا قصور کیا تھا یہ تمام تر باتیں ایک ایسے طاقتور ترین سیاستدان کے منہ سے نکل رہی ہیں کہ دل ودماغ اس بات کو ماننے کے لیے تیار ہی نہیں ہے کہ آخر ایسا بھی ہوسکتاہے ؟۔خیر ایک بار پھر سے اس ملک کی حالیہ سیاست میں بے رحم سیاستدانوں کے معصوم اور مظلومیت سے بھرے چہرے منظر عام پر آنا شروع ہوگئے ہیں۔
ان کی سیاسی اداکاریوں کا دور شروع ہوچکاہے ملک میں غربت اور افلاس سمیت معاشی چے مہ گوئیاں اب خاموش سی دکھائی دیتی ہیں لگتا ہے کہ ہر کوئی یہ جاننا چاہتاہے کہ بلاول بھٹو زیادہ مظلوم ہے یا پھر نوازشریف صاحب زیادہ رحم کے قابل ہے ۔یہ بڑے بڑے محل نما بنگلے بڑی بڑی چمچماتی گاڑیاں ہزاروں کی تعداد میں آگے پیچھے گھومتے نوکر چاکراور سب سے بڑھ کرریاست کی خدمت پر تنخواہیں وصول کرنے والی پولیس بھی ان کے بچوں کی آیا بنی ہو تو پھر اس کے باوجود مظلومیت کا یہ عالم ہے کہ قوم اس بات کو جاننا چاہتی ہے کہ آیا مریم بی بی نے ابھی تک ناشتہ کیابھی ہے کہ نہیں ! حسن نواز ابھی تک آفس گئے بھی کے نہیں اور یہ کہ میاں نوازشریف اس وقت کیا سوچ رہے ہیں انہیں دل بہلانے کے لیے کچھ روز کے لیے کہیں چلے جانا چاہیے مگر کیا ان کی جیب میںپیسے بھی ہیں یا نہیں ؟ ۔ یہ تمام تر سوچ میں نے خود اپنے ارد گرد بسنے والی سادح لوح خواتین اورمردوں کے تاثرات سے لی ہیںبہت سے لوگ اس وقت شریف فیملی سے کہیں زیادہ رنجیدہ ہیں۔
حالانکہ حقیقت کچھ اور ہے یہ تمام کہ تمام سیاستدان مالی اور اقتصادی لحاظ سے کافی مستحکم ہیں جو ہمدردی اس قوم کے دلوں میں موجزن ہے کاش کہ دوران اقتدار ان حکمرانوں کے دلوں میں بھی اللہ اسی انداز میں رحم پیدا فرماتا تاکہ اس ملک میں ایمرجنسیوں میں زخموں اور دردوں سے چور مریض تڑپ تڑپ کا نہ مرتے نوجوان نسل نوکریاں نہ ملنے پرخودکشیاں نہ کرتی ،جہیزنہ ہونے پر ہاریوں اورمزدوروں کی بیٹیاں گھروں پر نہ بیٹھتی ،غریب مائیں بچوں کو بہلانے کے لیے خالی ہنڈیاں آگ پر رکھ نہ بچوں کو بہلارہی ہوتی ، کیا اس ملک کے عوام کا حق نہیں ہے کہ ان کو بھی ایک پرسکون زندگی ملے ؟ ان کے بھی جان ومال کا تحفظ ممکن ہو ان کو بھی روزگار ملے ان کے بچے بھی بلاول زرداری کی طرح آکسفورڈیونیورسٹی میں اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ان کی بیٹیاں بھی نوازشریف کی نواسیوں اور نواسوں کی طرح خوشحال زندگیاں گزار رہے ہو؟ حالانکہ مظلوم سیاستدانوں کے پاس ڈھیروں دولت نہ صرف کیش کی صورت میں موجود ہے ان کی قدم قدم پر ملک اور ملک سے باہر جائیدائیں بھی ہیں یہ ایک الگ بات ہے کہ وہ اپنی آمدنی کے تمام تر زرائع بتانے سے قاصر ہوتے ہیں مگر اقتدار میں جب ہوتے ہیں تو جس قومی خزانے کا وہ صفایا کررہے ہوتے ہیں وہ ان کے باب دادا کا مال نہیں ہوتا بلکہ وہ خزانہ اس قوم کے خون پسینے کی کمائی سے بھرا ہوتا ہے جو صرف ان ہی غریبوں کے فلاح وبہبود پر خرچ نہیں ہوتا باقی ان مظلوم سیاستدانوں کے نوکروں اور چمچوں کے کام ضرور آتاہے۔
یہ سیاستدان جب عوام میں جاتے ہیں تو عوام کی ہمدردی میں ہی گفتگو کرتے ہیں اپنی بے بسی کا رونا روتے ہوئے آنسو بہاتے ہیں گارا اور مٹی میں لتھڑے مزدورں کو سینے سے لگاتے ہیں اور پھر کسی وڈیرے کے در پر شام کو غریب سے ہاتھ ملانے اور گلے لگانے والے مٹی کو غلاظت تصور کرتے ہوئے خوب غسل کرتے ہیں اور اعلیٰ پیمانے کی دعوتوں میں غریب عوام کا مذاق اڑاتے ہیں ۔اس دوغلے طرز زندگی کااثر ہم ان سیاستدانوں کی زندگیوں میں ہر جگہ دیکھتے ہیں مگر اس کے باجود ان ہی روایتی لوگوں کو اپنے لیے منتخب کرلیتے ہیں جو اقتدار میں آکر صرف اس ہی چیز کی کوشش کرتے ہیں کہ کسی نہ کسی انداز میں وہ تمام تر سرکاری وسائل کا رخ اپنے خزانوں کی جا نب موڑ دیں اور کسی طرح سے اپنے قارون سے بھی بڑے خزانے کو مزید بھرلیا جائے۔
اس سارے چکر میں جہاں ان چند سیاسی جماعتوں کے سربراہ مال بنارہے ہوتے ہیں وہاں یہ اپنے حواریوں اورچمچوں کو بھی کھلی چھوٹ دیتے ہیں کہ وہ بھی ان کے ساتھ اس لوٹ کھسوٹ میں شامل ہوجائیں،کوئی مجھے پیپلزپارٹی کے بڑے سربراہ سمیت ان کے بڑے بڑے کھرب پتی لیڈروں کی ہسٹریاں بتا سکتاہے یقیناً کوئی ہیڈ کلرک تھا تو کوئی میٹر چیک کرنے والا تو پھر کوئی اسکول ٹیچر اور آج ان کی دولت کا یہ عالم ہے کہ وہ خود بھی نہیں جانتے ہیں کہ ان کے پاس آخر کتنی دولت ہے بلکل اسی انداز میں شریف فیملی کے صنعتکار اور اقتصادی ترقی کا عمل بھی اقتدار سے جڑاہے یہ لوگ 1982سے صنعتکار بننا شروع ہوئے اور یہ ہی اس خاندان کے اقتدار کے سال ہیں ۔ دوستوں اپنے مقاصد کو سمجھنا اپنی منزلوں کی فکر کرنااور اپنے بہتر مستقبل کا تعین کرنا ہی زندہ اور بہادر قوموں کا شیوہ ہواکرتی ہے کوئی سیاستدان کسی ملک اور قوم کا رکھوالا نہیں ہوتا یہ لوگ تو خود ہی اپنی حفاظت کے لیے سینکڑوں پولیس اہلکاورں کو اپنے ساتھ رکھتے ہیں یہ بھلا نہتی عوام کی کیا حفاطت کرسکتے ہیں۔
یہ فیصلہ کرنا ہمارا کام ہے کہ اس ملک کی حفاظت اور ترقی کے لیے کس طرح کے لوگوں کو سامنے لایا جائے یہ عوام کی طاقت ہے کہ وہ مجرم اور بے رحم سیاتدانوں کا محاسبہ کرے ان سے قومی دولت میں لوٹ کھسو ٹ کا حساب طلب کرے مگران سیاسی اداروں نے اس ملک کی عوام کو کرسیاں لگانے اور نعرے لگانے کے لیے رکھ چھوڑا ہے اس ملک کے عوام اپنی منزل تو کیا اپنی پہچان تک بھول گئی ہے ،اس ملک کے عوام کو ترقی اورخوشحالی کے راستے سے الگ کردیاگیا ہے،اس قوم کو فسادات پھیلانے والی نسلوں میں تقسیم کردیا گیاہے ، ہم یہ بھی بھولتے جارہے ہیں ہم کیوں اور کب آزاد ہوئے اس قوم کو ضرورت مند بنادیا گیا ہے لوگوں کو اس قدر پریشانیوں میں الجھادیا گیاہے کہ ان کی نسلیں بھی ان پالیسی میکروں کی غلام بن کر رہ گئی ہیں ۔