تحریر : عمران عباس ضلع بدین میں سرکاری تعلیمی اداروں کی تباہ حالی کے باعث نجی تعلیمی اداروں کی چاندی ہوگئی ، نجی اسکول سب سے بہتر کاروبار بن گیا، سہولیات سے خالی اور تعلیمی معیار کے اصولوں سے ہٹ کر نجی تعلیمی ادارے دونوں ہاتھوں سے طلبات کے والدین کو لوٹنے لگے، انتظامیہ خاموش تماشائی بن گئی، تفصیلات کے مطابق ضلع بدین میں سرکاری تعلیمی اداروں میں سہولیات کا فقدان ہونے کے باعث نجی تعلیمی اداروں کی برمار ہوچکی ہے اور بدین میں نجی اسکول ایک کاروبار بن چکا ہے ، جہاں پر بچوں کو کسی اعلیٰ مقام پر پہنچانے کے وعدوں پر دونوں ہاتھوں سے ان کے والدین کو لوٹا جا رہا ہے۔
پرائمری سے لیکر سیکنڈری اور پھر کالیج اور یونیورسٹی کی پڑھائی تک بھاری فیسوں نے والدین کی کمر توڑ کررکھ دی ہے، ضلع بھر میں پانچ سو سے زائد ایسے سرکای تعلیمی اداری موجود ہیں جو مکمل طور پر بند پڑے ہوئے ہیں جبکہ سینکڑوں کی تعداد میں ایسے سرکاری اسکولز ہیں جن کی حالت خراب ہے جہاں پر نا تو فرنیچر موجود ہے اور نا ہی بلڈنگ اگر کوئی بلڈنگ ہے تو وہ مکمل طور پر کھنڈرات بن چکی ہیں جس کے باعث آئے دن وہاں پر حادثات رونما ہوتے رہتے ہیں جبکہ حکومت سندھ کی جانب سے تعلیمی ایمرجنسی کے دعوے کہیں بھی سچ ہوتے دکھائی نہیں دے رہے ہیں، ایک اندازے کے مطابق ضلع بدین میں پانچ سو کے قریب نجی تعلیمی ادارے ہیں جو بچوں سے بھاری فیسیں وصو ل کرکے انہیں وہ تعلیم نہیں دے رہے ہیں جن کے وہ دعوے کرتے ہیں۔
ایک طالب علم کو اسکول سے واپس آکر پھر سے ٹیوشن لینی پڑتی ہے اس سے وہ طالب علم اسکول کو فیس الگ سے دیتا ہے اور اسے ٹیوشن کی فیس الگ سے دینی پڑتی ہے، دوسری جانب کئی ایسے نجی اسکولز موجود ہیں جن میں ناتو صفائی کا نظام موجود ہے اور نا ہی پینے کا صاف پانی اس کے علاوہ بیشتر نجی اسکولوں میں کھیلنے کے لیئے میدان تک موجود نہیں ہوتا جس کے باعث بچوں کی جسمانی نشونما نہیں ہوتیں اور بیشتر بچے ایسے ہی بیمار اور سست پڑے رہتے ہیں، اکثر نجی اسکول جہاں پر ہیں وہاں پر ہر وقت ٹریفک جام لگا رہتا ہے کیوں کہ آج کل ایک رواج عام ہوگیا ہے کہ کہیں بھی دو رومس کی جگہ کرائے پر لے اور باہرایک انگلش نام کی اسکول کی تختی لگادی تو وہ ایک اچھا اسکول بن جاتا ہےاور پھر وہاں سے شہریوں اور ٹریفک کو چلنے میں شدید دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے،ہر ماہ لاکھوں روپے کمانے والے ان اداروں کے مالکان اسکول میں مقرر اساتذہ تک کو ان کا جائز حق نہیں دیتے اکثر پرائیوٹ اسکولوں میں ایک استاد کی تنخواہ چار سے چھ ہزار کے درمیاں ہوتی ہے جبکہ ایک بچے کی فیس 15سو سے لیکر 3ہزار تک کی ہوتی ہے ، انٹری ٹیسٹ کی سیزن شروع ہوتے ہی ضلع بدین کے نجی کالجز کی چاندی ہوجاتی ہے۔
ایک طالب علم سے دس ہزار سے 18ہزار لیئے جاتے ہیں ایک چھوٹی سی کلاس میں ایک سو سے زائد طالب علموں کو بیٹھایا جاتا ہے جس کے باعث انہیں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے ، ایک طالب علم کے مطابق انٹری ٹیسٹ کی تیاری کے کلاسز کا ٹائم صبح نو بجے کا ہے اور انہیں گھر سے صبح سات بجے نکلنا پڑتا ہے اگر دیر ہوجائے تو توانہیں کلاس روم میں بیٹھنے کے لیئے کرسی تک نہیں ملتی جبکہ کلاس میں گنجائش تیس طالب علموں کی ہے اور ایک سو سے زائد طلبا و طالبات اس میں انٹری ٹیسٹ کی ٹیوشن دی جا رہے ہیں، نجی اسکولوں میں ہر ماہ فیس کے علاوہ ایک دو فنکشنس، کوئی خاص دن مثال کے طور پر فلاور ڈے، گرین ڈے، ییلو ڈے، 23مارچ، 14اگست ، اسکول کی سالگرہ کا دن ، اسکول کی مینٹن، کمپوٹر لیب چارجز، اسکول وین کا کرایا،کلرس، چارٹ شیٹ، فوم ،اور بھی بہت کچھ ہے جس کا خرچہ ایک والد کو یا پھر طالب علم کے رشتہ داروںکو ہی برداشت کرنا پڑتا ہےجبکہ کے طالب علموں کے ولدین ان دنوں میں دو سے تین ہزار کا خرچہ کرتے ہیں اور ان کے بچوں کی حوصلہ افزائی کے لیئے ان بچوں کو ایک سرٹیفکیٹ تک نہیں دیا جاتا، ان اخراجات کے باعث آج کل کے دور میں ایک بچے کو اچھی تعلیم دلانا بہت ہی مشکل ہوتا جارہا ہے۔
ضلع بدین سمیت سندھ بھر میں محکمہ تعلیم کی جانب سے کوئی چیک اینڈ بیلنس موجود نہیں ہے جس کے باعث نجی اداروں کے مالکان ان کی انتظامیہ اپنی من مانی کرنے پر تلی ہوئی ہے، ظلم تو یہ ہے کہ اکثر سرکاری اساتذہ نجی اداروںمیں پڑھا رہے ہیں جس سے وہ گورنمنٹ سے تو الگ سے تنخواہ لے رہے ہیں پر نجی اداروں سے بھی الگ سے تنخواہ وصول کررے ہیں ، بدین کے پریشان حال والدین نے اسی حکومت سے مطالبہ کیا ہے جو حکومت ان مسائل پر دھان دینے کو تیار نہیں ہے کہ سرکاری اسکولز ، کالیجز اور یونیورسٹیز میں تعلیم کا معیار بہتر بنایا جائے تاکہ انہیں نجی تعلیمی اداروں کے مالکان اور انتظامیہ کے ہاتھوں بلیک میل ہونا نہیں پڑے۔