تحریر: روشن خٹک گزشتہ کئی سالوں سے ضلع کرک سے تعلق رکھنے والے پڑھے لکھے لوگوں سے متواتر یہ بات سنتے اور پڑھتے چلے آ رہے ہیں کہ ضلع کرک معدنی دولت سے مالامال اور بے پناہ وسائل کا مالک ضلع ہونے کے باوجود پسماندگی کی آخری حدوں کو چھو رہا ہے۔ بجلی، پانی،گیس ،صحت اوت تعلیم جیسے زندگی کی بنیادی ضروریات بھی کرک کے عوام کو حاصل نہیں ہیں، یہ ضلع معدنی دولت سے مالامال ہونے کے ساتھ ساتھ کچھ ایسے خصو صیات کی بھی مالک ہے جو پاکستان کے کسی اور ضلع میں وہ خصو صیات نا پید ہیں ،مثلا اس ضلع میں ایک ہی قوم ” خٹک ” آباد ہیں ۔اس ضلع کے تمام لوگ ایک ہی مذ ہبی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔تعلیمی سہولیات نہ ہونے کے باوجود اپنی محنت کے بل بوتے پر خواندگی کی شرح بہت اچھی ہے۔مگر اس کے باوجود کرک نہ صرف یہ کہ نیوٹرل گِیر میں کھڑا ہے بلکہ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے ۔جس کی وجہ سے اپنے ضلع کے لئے دردِ دل رکھنے والے لوگوں کے ذہن میںبار بار یہ سوال اٹھتا ہے کہ ان تمام خوبیوں کے باوجود یہ ضلع اتنا زیادہ پسماندہ کیوں ہے ؟اس کے اسباب کیا ہیں ؟
اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کے لئے ہمیں ماضی اور حال کا جائزہ لینا پڑے گا۔اگر ہم کرک کے ماضی کو ٹٹولیں تو اس کے باسی روزی روٹی کمانے کے کے لئے دو بڑے حصوں میں منقسم تھے۔ایک وہ لوگ تھے جو کھیٹی باڑی کیا کرتے تھے۔بارانی زمینیں ہونے کے باوجود تھوڑی بہت فصل ہاتھ آجاتی تھی ،غربت زیادہ تھی مگر اخلاص کی کمی نہیں تھی ، جو کچھ مِلتا تھا ،اسے آپس میں بانٹ کر کھا لیتے تھے۔
دوسرا ذریعہ معاش سرکاری ملازمت تھی۔علاقہ تھل (pk 41) کے زیادہ تر لوگ محکمہ تعلیم یا سیول سرکاری محکموں میں ملازمت کیا کرتے تھے جبکہ چونترہ (pk40) کے لوگ زیادہ تر فوج یا ملیشیا میں ملازمت کیا کرتے تھے۔ سیاست سے عمومی طور پر کسی کو کوئی سروکار نہیں تھا۔سیاست کی ڈور اسلم خٹک جیسے زیرک اور دور اندیش سیاست دان نے سنبھالی ہو ئی تھی۔اس وقت کرک میں نمک کے علاوہ کوئی معدنی دولت منظرِ عام پر نہیں آئی تھی ۔لیکن عمومی طور پرلوگ صابر، شاکر اور خوش و خرم تھے۔
اس پرانی نسل کی جگہ جب موجودہ نئی نسل سامنے آگئی تو حالات یکسر بدل گئے ۔برداشت کی جگہ عدم برداشت نے لے لی، سکون نے منہ موڑ لیا۔ایک دوسرے کی ٹانگیں کھینچنے کا عمل شروع ہو گیا ۔جس کے متعدد وجوہات ہیں مگر بڑی وجہ یہ ہے کہ پرانی نسل کے جو لوگ ملازمت میں تھے انہوں نے اپنی اولاد کو تعلیم دلوائی،پڑھایا، لکھایا مگر ان سے ایک فاش غلطی یہ ہو ئی کہ انہوں نے اپنے اولاد کے ذہن مین یہ بات ڈال دی کہ تعلیم کا مقصد اچھی ملازمت کا حاصل کرنا اور پیسہ کمانا ہے۔علم کا حصول برائے علم نہیں بلکہ اچھی ملازمت اور پیسے کا حصول ٹہرا۔۔تعلیم نے اگر ایک طرف موجودہ نسل میں سیاسی شعور اجاگر کیا تو دوسری طرف دولت کی حصول کی خواہش کو مہمیز لگا دی جب دولت آتی ہے تو شہرت اور اختیار کی خواہش خود بخود سر اٹھانے لگتی ہے۔کرک میں یہی ہوا، جس کے پاس دو پیسے آئے ،وہ اپنے آپ کو سب سے زیادہ ہو شیار اور مشر سمجھنے لگا۔کرک کے مقامی اخبارات کا مطالعہ کیجئے تو آپ کو ہر روز نئے نئے لیڈرز خود رو پودوں کی طرح سر اٹھاتے ہو ئے نظر آیئںگے۔
جب کسی علاقے میں دولت اور شہرت زندگی کا مقصد سمجھا جائے، وہاں ترقی کبھی نہیں ہو سکتی وہاں انتشار اور بے اتفاقی جنم لے لیتی ہے ۔کرک سے عام انتخابات میں دو ایم پی ایز کا انتخاب کیا جاتا ہے مگر آپ ان کا ریکارڈ مطالعہ کیجئے وہ دونوں ایم پی ایز ہمیشہ آپس میں ایک دوسرے کی ٹاننگیں کھنیچتے رہے اور اس وقت بھی یہی حال ہے ۔دونوں کا مطمع نظر کرک کی ترقی نہیں بلکہ ایک دوسرے کو نیچا دکھا کر اپنی ذاتی خواہشات کی تکمیل ہے۔عوام کی اکثریت بھی ووٹ دیتے وقت اپنی ذاتی مفاد کو مدِ نظر رکھ کر نہ صرف ووٹ دیتے ہیں بلکہ زیادہ تر منافقت سے کام لیتے ہیں ،جو بھی امیدوار ان کے پاس ووٹ مانگنے جاتا ہے وہ ہر کسی کو یہی یقین دلاتے ہیں کہ میرا ووٹ آپ کا ہے۔ یوں کرک میں سر سے لیکر پاوئں تک پوری عمارت تین چیزوں پر کھڑی ہو جاتی ہے ، دولت کا حصول، اقتدار و اختیار تک رسائی اور جھوٹ و منافقت۔۔کرک میں معدنی دولت یقینا اللہ کی ایک بہت بڑی دولت ہے مگر ہوسِ زر نے اس نعمت کو زحمت میں تبدیل کر دیا ہے کیونکہ ہمارے کرتا دھرتا لوگوں کی نظر کرک کی ترقی پر نہیں بلکہ تیل و گیس کی مد میں ملنے والی رائلٹی پر ہو تی ہے۔ان حالات کو مدِ نظر رکھتے ہو ئے ہم کہہ سکتے ہیں کہ کرک کی ترقی نہ کرنے کی وجہ اگرا یک طرف منتخب نمائیندوں کی لالچ ہے تو دوسری طرف عوام کا غلط انتخاب اور ذاتی مفاد کی بناء پر ووٹ کا استعمال ہے۔
اگر یہی روِش جاری رہی تو بے انتہا وسائل اور معدنی دولت کے باوجود کرک ترقی سے کبھی ہمکنار نہیں ہو سکے گا۔کرک سے تعلق رکھنے والے زیادہ تر مخلص ،قابل اوردیانتدار لوگوں نے ملک کے دیگر بڑے شہروں پشاور، اسلام آباد یا لاہور جیسے شہروں میں رہائش اختیار رکھی ہے ۔کرک بھی قابل اور مخلص لوگوں سے بالکل خالی نہیں ہے مگر وہ منافق ٹولے کے آگے بے بس ہیںاور تماشہ دیکھ رہے ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ مخلص لوگ آگے آئیں اور عوام بھی ضلع کرک کی ترقی کے خاطر اہل اور مخلص لوگوں کو ووٹ دے کر کرک کو ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں اپنا کردار ادا کریں۔۔۔۔۔