تحریر : صباء نعیم مسلم لیگ (ن) نے پنجاب میں کئی شہروں کے میئرز اور ضلع کونسل کے چیئرمینوں کے لیے امیدواروں کے نام فائنل کر لیے۔ چیئرمین ضلع کونسل کے امیدواروں کا تعلق وزرا، ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کے رشتہ داروں سے ہے۔ ذرائع کے مطابق راولپنڈی میٹروپولیٹن کے لیے سردار نسیم، ملتان کے لیے سابق صوبائی وزیر وحید آرائیں کے بھائی نوید آرائیں، فیصل آباد کی میئرشپ کے لیے رانا ثناء اللہ گروپ کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیاگیا ہے۔ ضلع اٹک کے لیے وزیر داخلہ چودھری نثار کے بھانجے سردار احسن، ضلع کونسل چکوال کے لیے ملک ظہور اعوان کو ٹکٹ جاری کیا گیا ہے، ضلع کونسل جہلم کے لیے حافظ اعجاز جنجوعہ کا نام فائنل کیا گیا’ جو بری امام کے گدی نشین راجہ سرفراز کے بھائی ہیں۔ کئی دوسرے امیدوار بھی اسی طرح اہم شخصیات کے رشتے دار اور عزیز ہیں۔ میئرز اور ضلع کونسلوں کے چیئرمینوں کے لیے امیدواروں کا انتخاب اس حوالے سے خوش آئند ہے کہ پورے ملک میں بلدیاتی نظام کی تکمیل کی جانب ٹھوس قدم اٹھایا گیا ہے۔ پارلیمانی جمہوریت عام طور تین پرتوں پر مشتمل ہوتی ہے۔
بلدیاتی ادارے’صوبائی اسمبلیاں اور پارلیمنٹ’ یعنی قومی اسمبلی اور سینیٹ۔ ان میں سے کسی ایک کی بھی غیر موجودگی میں یہ نہیں کہا جا سکتا کہ جمہوریت مکمل ہو گئی’ لیکن یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے کہ ماضی میں بلدیاتی اداروں کو مسلسل نظر انداز کیا جاتا رہا اور اس کی راہ میں رکاوٹیں کھڑی کرنے والا کوئی اور نہیں جمہوریت کی حامی سیاسی جماعتیں تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس عرصے میں گلی محلے کی سطح کے مسائل جوں کے توں رہے اور ان کے حل کی کوئی ٹھوس سعی نہ کی جا سکی۔ بلدیاتی کام کرانے کے لیے عوام کے صوبائی نمائندوں کو فنڈز فراہم کیے جاتے رہے’ لیکن چونکہ صوبائی نمائندوں کی جڑیں گلی محلوں تک نہیں ہوتیں’ اس لیے لوگ بنیادی نوعیت کے مسائل کے حل سے محروم رہے۔
اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے عدالتِ عظمیٰ ملک میں بلدیاتی الیکشن کرانے کی ضرورت پر بار بار زور دیتی رہی اور آخرکار اسی کے حکم پر صوبائی حکومتوں کو اس کا اہتمام کرنا پڑا؛ تاہم یہ بات قابلِ غور اور تعجب خیز ہے کہ پنجاب میں مقامی حکومتوں کے انتخابات تقریباً ایک سال پہلے ہوئے تھے اور اب ایک سال کے بعد میئرز اور ضلع کونسل کے چیئرمینوں کے لیے امیدواروں کے نام فائنل کیے گئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک سال تک عوام کو مقامی حکومتوں کے فائدوں سے محروم رکھنے کا ذمہ کون ہے؟ اور اب اگر اس طرف توجہ دی جا رہی ہے تو اس کا سبب اگلے عام انتخابات کی تیاری تو نہیں؟ علاوہ ازیں یہ بات بھی سمجھ سے بالاتر ہے۔
Democracy
اگر یہ جمہوری نظام ہے تو صرف طاقت وروں’ یعنی وزرا، ارکان پارلیمنٹ اور حکومتی عہدیداروں کے رشتہ داروں کے نام ہی کیوں فائنل کیے جا رہے ہیں؟ اس طرح تو جمہوریت اشرافیہ تک ہی محدود ہو کر رہ جائے گی اور عوام کی سطح سے کوئی بھی پارلیمنٹ تک اوپر نہیں جا سکے گا۔ عام لوگوں کو بھی موقع دیا جانا چاہیے تاکہ ملک میں حقیقی جمہوریت کی ترویج ہو سکے۔ اب اگر میئر اور چیئرمین ضلع کونسل لگانے کا فیصلہ کر لیا گیا ہے تو صوبائی حکومت کو اس بات کا خیال رکھنا ہو گا کہ بلدیاتی اداروں کو سیاست دانوں یا بیوروکریسی کا مرہون منت نہ رکھا جائے اور انہیں ہر طرح کے اختیارات دیے جائیں تاکہ ان سے وہ کام لیا جا سکے’ جس کے لیے یہ نظام وضع کیا گیا ہے۔
علاوہ ازیں بلدیاتی اداروں کو سیاسی دھڑے بندیوں سے بچانے اورہر طرح سے آزاد رکھنے کی بھی ضرورت ہو گی’ کیونکہ دھڑے بندیاں اس نظام میں تقسیم کا باعث بنیں گی۔ ہمارا جمہوری سیٹ اپ ایک عرصے تک مقامی حکومتوں کے نظام سے محروم رہا’ اس کمی کو پورا کرنے کے لیے بھی ضروری ہے کہ اس نظام کو اس کی روح کے مطابق نافذ کیا جائے تاکہ ماضی میں ہونے والی تاخیر کا ازالہ ہو سکے اور مستقبل میں بھی اس کو ڈی ریل ہونے سے بچایا جا سکے۔
اس طرح صوبائی اور وفاقی سطح پر سیاست کو نیا خون ملتا رہے گا’ کیونکہ کہا جاتا ہے کہ بلدیاتی ادارے سیاست کی نرسریاں ہوتے ہیں’ یہیں سے اہلیت کے حامل سیاست دان صوبائی سطح اور پھر قومی سطح کے انتخابات میں حصہ لیتے اور جیت کر ملک و قوم کی خدمت کرتے ہیں۔ یہ نرسریاں ہری رہیں گی تو اعلیٰ سطح پر نئے نئے سیاست دان ابھر کر سامنے آتے رہیں گے۔