ضلع سانگھڑ پر ایک نظر

Registered Voters

Registered Voters

1953 میں قائم ہونے والا ضلع سانگھڑ چھ تحصیلوں شہداد پور ،ٹنڈوآدم ،سنجھورو،جام نواز علی ،کھپرواورسانگھڑپر مشتمل ہے ضلع سانگھڑ کا کل رقبہ 10728مربع کلو میٹر پر محط ہے 1998 کی مردم شماری کے مطابق ضلع سانگھڑ کی کل آبادی 14,53,028ہے موجودہ آبادی تقریباََ 20لاکھ کے لگ بھگ ھے کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد 839585جن میں مرد ووٹر ز448470اور خواتین ووٹرزکی تعداد 391115 ھے۔سانگھڑ پاکستان میںسب سے زیادہ کپاس پیدا کرنے والا ضلع ہے صوبہ سندھ میں پیدا ہونے والی کپاس کا تقریبا پچاس فیصد حصہ اسی ضلع میں پیدا ہوتا ہے۔ اس کے علاوہ 150سے زائد کاٹن فیکٹریاں ہیں۔اس کے علاوہ گندم،گنا،مونگ پھلی ،چاول پھلوں میںبیراور آم بھی بکثرت پیدا ہو تے ہیں۔

بنیادی طور پر زرعی حثیت والا ضلع ہے آبی نظام میں چوٹیاریوں ڈیم،نارہ کینال ،جمڑائو کینا ل مو جو دہے۔ضلع سانگھڑ تیل اور گیس کی دولت سے بھی مالا مال ہے۔ضلع سانگھڑ کا شمار پاکستان کے ان اضلاع میں ہوتا ہے جہاں سب سے زیادہ تیل اور گیس کے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔مشہور شخصیا ت میں سابق وزیراعظم راجہ پر ویز اشرف کی جنم بھومی سانگھڑ کے چک نمبر 11 میںہے جبکہ سابقہ وزیر اعظم محمد خان جونیجو کا بھی سندھڑی سے تعلق ہے جو کہ اب سندھڑی میر پور خاص ضلع میںھے ۔دیگر اہم سیاسی شخصیات میں سابق وزیر اعلیٰ سندھ مرحوم جام صادق علی خان ، سابق ڈپٹی اسپیکر سندھ اسمبلی مرحوم عطا محمد مری، شازیہ مری، حاجی خدا بخش راجڑ اور جام مدد علی خان شامل ہیں۔

تاریخی مقا مات میں المنصورہ،سوہنی ماہیوال ،گڑنگ بنگلہ، سید امین علی شاہ بخاری المعروف چن بادشاہ کا مزاراور تعلیمی ادارہ کیڈٹ کا لج سانگھڑ بھی موجود ہے ۔ اگر پاکستان کی آزادی کی بات کی جائے تو گڑنگ بنگلہ کو بڑی اہمیت حاصل ہے اس وقت گڑنگ بنگلہ حر فورس کا ہیڈکواٹر تھا حر فورس کا سپہ سالار پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سورہیہ بادشاہ شہید نے برصغیر کی آزادی کیلئے عملی جدوجہد کی اور ایک وسیع رقبے پر پھیلی ہوئی تخت برطا نیہ انگریز سامراج کی حکومت سے مقابلہ کیا اور اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔

Heydera Bad Jail

Heydera Bad Jail

آخر بزدل اور مکار دشمن نے پیر سید صبغت اللہ شاہ راشدی المعروف سورہیہ بادشاہ شہید کوگڑنگ بنگلہ سے گرفتار کر کے 20 مارچ 1943 کو حیدر آباد کی جیل میں پھانسی دے کرشہیدجسد خاکی کو لا پتہ کر دیا جو کہ ابھی تک ایک معمہ بنا ہو اھے۔
اگر ضلع سانگھڑ کی سیاسی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو ضلع سانگھڑ ہمیشہ مسلم لیگ (ف) کا مضبوط قلع سمجھا جاتا ہے 1985 سے لیکر 2008 کے عام انتخابات تک اس ضلع میں مسلم لیگ (ف) کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔دوسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر پاکستان پیپلز پارٹی نظر آتی ہے جبکہ متحدہ قومی موومنٹ ماضی کے انتخابی نتائج کو دیکھتے ہوئے تیسرے نمبر پر دکھائی دیتی ہے۔

ضلع سانگھڑ میں 1998 کی مردم شماری سے قبل قومی اسمبلی کی دو جبکہ صوبائی اسمبلی کی پانچ نشستیں تھیں جبکہ اس وقت ضلع میں قومی اسمبلی کی تین نشستیں این اے 234 ,این اے235اور این اے 236 جبکہ صوبائی اسمبلی کی چھ نشستیں P.S 78,P.S 79 , P.S 80 , P.S 81, P.S 82 , P.S 83 ہیں۔اس مرتبہ ضلع سانگھڑ سے مسلم لیگ (فنکشنل)، پاکستان پیپلز پارٹی، متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان تحریک انصاف اور دیگر جماعتیں حصہ لے رہی ہیں۔ضلع سانگھڑ کی تمام ہی سیٹوں پر اصل مقابلہ مسلم لیگ (ف) اور پیپلز پارٹی کے درمیان متوقع ہے تاہم ضلع سانگھڑ میں ایم کیو ایم کا بھی ایک بڑا ووٹ بینک ہے۔

پاکستان تحریک انصاف کی نوجوانوں کسی حد تک مقبولیت ہے جبکہ شاہ محمود قریشی کے مریدین بھی ضلع سانگھڑ میں کافی تعداد میں آباد ہیں۔حلقہ NA-234 سانگھڑ۔١ دو تعلقوںسانگھڑاور سنجھورو پر مشتمل ہے۔ اس حلقہ سے2008 میں مسلم لیگ (ف) کے امیدوارمحمد جادم منگریو 71394 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے ا ن کے قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے غلام محمد جونیجوتھے جنہوں نے44858 ووٹ حاصل کئے تھے۔ جب اس حلقے کی عوام پر 2010میں تباہ کن برساتوں کے پہا ڑ ٹوٹے تو ان کے اپنے ووٹروں اور دوسرے لوگوں نے مو بائل پر ان کے لئے SMSتلاش گم شدہ کا اشتہار بھیجا کہ ہمارے حلقے کے MNAجا دم منگریو حلقہ NA-234سے گم ہو گئے ہیں اگر کسی کو ان کے بارے میں خبر ہو تو وہ حلقہ NA-234 کی عوام مطلع کریں۔

یہ کارگردگی ان کی پانچ سال تک جاری رہی وہ بھی بضد رہے اور آخر تک ثا بت قد م ر ہے ۔2002 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے عام انتخابات میں مسلم لیگ (فنکشنل) کے حاجی خدا بخش نظا مانی نے مسلم لیگ( ن) کے امید وار میاں اعجاز شفیع جنھوں نے 24474 ووٹ حاصل کئے تھے کو شکست دے کر ایم این اے منتخب ہوئے تھے انہوں نے61741 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ پی پی کے امیدوار عابد حسین رند نے 9165اور متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوارعبدالمالک شر نے 4441 ووٹ حاصل کئے تھے ۔ماضی کے انتخابات میں اس حلقہ میں ہمیشہ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے درمیان ہی ہوتا رہا ہے اور ایم کیو ایم تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔

MQM

MQM

ماضی میں ایم کیو ایم مسلم لیگ فنکشنل کی حمایت کرتی رہی ہے اور اس بار فنکشنل لیگ بلدیاتی نظام پر اختلاف کی وجہ سے ایم کیو ایم کی حمایت حاصل کرنے میں ناکام نظر آتی ہے جس کی وجہ سے اس بار دونوں جماعتوں مسلم لیگ (ف) اور پاکستان پیپلز پارٹی میں کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے ریاض احمد چوہان سمیت پانچ امید واروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ان میں سے کچھ کے کاغذات منظور بھی ہوچکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (فنکشنل) نے اس حلقہ سے پیر بخش جونیجو کو ٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔جو کہ2002 کے الیکشن میںسنجھورو سے MPA بھی منتخب ہو چکے ہیں۔

پاکستان پیپلز پارٹی نے اس حلقہ سے فدا حسین ڈیرو کو اپنا امید وار نامزد کیا ہے جن کا تعلق ٹنڈو آدم سے ہے۔اس حلقہ میں فنکشنل لیگ اور پی پی پی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام ا ور بعض دیگر جماعتوں نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔حلقہPS -78 سانگھڑ ون تحصیل سانگھڑ پر مشتمل ہے اس حلقہ سے ماضی میں کبھی بھی مسلم لیگ(ق)کے علاوہ کسی اور جماعت کا امید وار کامیاب نہیں ہوا۔اس حلقہ میں مختلف لسانی اکائیوں سے تعلق رکھنے والے لوگ آباد ہیں بالخصوص سانگھڑ شہر اور اس کے دیہی علاقوں( مختلف چک) میں پنجابی بولنے والوں کی بڑی تعداد آباد ہے۔

اس مرتبہ اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) نے سابق تحصیل ناظم سعید خان نظامانی جبکہ پیپلز پارٹی نے اس بار بھی پنجابی بولنے والوں کے ووٹ بینک کو مد نظر رکھتے ہوئے سابق یوسی ناظم چوہدری عابد فاروق کو اپنا امید وار نامزد کیا ہے۔ اس حلقہ میں پیر صاحب پاگارہ کے مریدین کی ایک بہت بڑی تعداد آباد ہے۔یہاں پر 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (فنکشنل) کے خلیفہ علی غلام نظامانی پاکستان پیپلز پارٹی کے عابد فاروق کو شکست دے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ علی غلام نظامانی نے 35862 اور عابد فاروق نے 18161 ووٹ حاصل کئے تھے۔ان انتخابات میں ایم کیو ایم کی جانب سے بھی مسلم لیگ (ق) کی حمایت کی گئی تھی۔

2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق)کے چوہدری افتخار احمد 28365 لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے سید قربان علی شاہ تھے جنہوں نے 6982 ووٹ کئے تھے جبکہ دیگر امید واروں میں مسلم لیگ (ن) کے محمد نواز سلہری نے 6194 اور متحدہ قومی موومنٹ کے محمد انور مغل نے 2940 ووٹ حاصل کئے تھے۔اس مرتبہ روایتی حریف پارٹیوں مسلم لیگ(ق)اور پیپلز پارٹی کے علاوہ ایم کیو ایم اور پاکستان تحریک انصاف بھی اس حلقہ سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ دیگر نوقوم پرست اور سیاسی پارٹیوں نے مسلم لیگ (ق) کے امیدوار کی حمایت کررکھی ہے۔ حلقہ PS 79 سانگھڑ II(سنجھورو) تحصیل سنجھورو کی تمام (آٹھ) یونین کونسلوں اور شہدادپور کی تین یونین کونسلوں شاہپور چاکر، سرہاری اور برہون پر مشتمل ہے۔

Muslim League (Q)

Muslim League (Q)

اس حلقہ سے 1985 سے لیکر 2008 تک ماسوائے ایک عام الیکشن کے مسلم لیگ(ق) کے امیدوار ہی کامیاب ہوئے ہیں تاہم 1988 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوار رئیس الطاف حسین رند مسلم لیگ (ق) کے امید وار خلیفہ وریام فقیر خاصخیلی کو شکست دیکر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔ 2008 میں مسلم لیگ (ق) کے امید وار رانا عبدالستار اس حلقہ سے 41021 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے۔ان کے قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے رئیس عابد حسین رندتھے جنہوں نے30425 ووٹ حاصل کئے تھے۔ 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (فنکشنل) کے پیر بخش جونیجو پاکستان پیپلز پارٹی کے رئیس عابد حسین رند کو شکست دے کر ایم پی اے منتخب ہوئے تھے۔

انہوں نے 37952 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف عابد حسین رند نے 24393 اور متحدہ قومی موومنٹ کے امیدوار جمشید خانزادہ نے 2032 ووٹ حاصل کئے تھے ۔1997 کے عام انتخابات میں فنگشنل لیگ کے امید وار خلیفہ وریام فقیر 20080 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے ۔ ان کے قریب ترین حریف رئیس الطاف حسین رند تھے جنہوں نے 8061 ووٹ حاصل کئے جبکہ تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے حمایت یافتہ آزاد امید وار جام قائم علی خان رہے جنہوں نے 3436 ووٹ حاصل کئے تھے ۔عام انتخابات 1993 میں اس حلقہ سے جام مدد علی 23283 ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ اس بار بھی قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے الطاف حسین رند رہے جنہوں نے 14523 ووٹ حاصل کئے۔

عام انتخابات 1990 میں عطا محمد مری 41642 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف الطاف حسین رندنے 10233 ووٹ حاصل کئے تھے۔1988 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے الطاف حسین رند 16941 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ مسلم لیگ (ق) کے وریام فقیر خاصخیلی نے 10708 اور آزاد امید وار چوہدری محمد عاصم جٹ نے ایم کیو ایم کی حمایت سے 8043 ووٹ حاصل کئے تھے۔آئندہ عام انتخابات میں بھی اس حلقہ میں اصل مقابلہ پی پی پی اور فنکشنل لیگ کے درمیان ہی متوقع ہے تاہم ایم کیو ایم کا بھی قابل ذکر ووٹ بینک موجود ہے۔پیپلز پارٹی نے اس مرتبہ چوہدری عاصم کو پارٹی ٹکٹ دیا ہے ۔ چوہدری عاصم پنجابی بولنے والے جٹ برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔

اس حلقہ میں جٹ برادری سمیت پنجابی بولنے والوں کے اچھے خاصے ووٹ ہیں ۔ انہوں نے 1988 کے عام انتخابات میں ایم کیو ایم کی حمایت سے آزاد امید وار کی حیثیت سے الیکشن لڑ کر 8043 ووٹ حاصل کئے تھے۔ماضی کے انتخابات میں اس حلقہ میں ہمیشہ اصل مقابلہ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (فنکشنل) کے درمیان ہی ہوتا ہے اور ایم کیو ایم تیسری بڑی سیاسی جماعت کے طور پر سامنے آتی رہی ہے۔ایم کیو ایم کی جانب سے غلام نبی شیخ سمیت پانچ امید واروں نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں اور ان کے کاغذات منظور بھی ہوچکے ہیں جبکہ مسلم لیگ (فنکشنل) نے اس حلقہ سے دو مرتبہ ایم پی اے منتخب ہونے والے خلیفہ وریام فقیر خاصخیلی کوٹکٹ دینے کا فیصلہ کیا ہے۔

PTI

PTI

اس حلقہ میں فنکشنل لیگ اور پی پی پی کے علاوہ متحدہ قومی موومنٹ ، پاکستان تحریک انصاف، جمعیت علماء اسلام اور بعض دیگر جماعتوں نے بھی اپنے امیدوار کھڑے کئے ہیں۔ اس حلقہ میں حسب روایت اس مرتبہ بھی اصل مقابلہ ان ہی دونوں جماعتوں کے درمیان ہی ہو گا۔حلقہ این اے 235 سانگھڑ ٹو کم میرپور خاص۔ تحصیل جام نواز علی اور تحصیل کھپرو پر مشتمل ہے جبکہ اس حلقہ میں ضلع میر پور خاص کی کچھ یونین کائونسلیں بھی شامل ہیں۔یہ حلقہ سیاسی حلقوں کی خاص توجہ کا مرکز بنا ہوا ہے کیوں کہ سابق وزیر اعظم محمد خان کے آبائی گائوں، سندھڑی ، سابق وزیر اعلیٰ سندھ جام صادق علی خان ، سابق اپوزیشن لیڈر جام مدد علی خان اور جام معشوق علی خان کے آبائی گائوں جام نواز علی (جام گوٹھ) ، سابق ڈپٹی اسپیکر عطا محمد مری اور شازیہ مری کا آبائی گائوں بیرانی اسی حلقہ میں ہیں۔

اس مرتبہ اس حلقہ سے اہم سیاسی شخصیات پیر صدرالدین شاہ راشدی اور شازیہ مری انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے بھی سابق حق پرست ایم این اے دیو داس نے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرارکھے ہیں۔ اس حلقہ سے 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان مسلم لیگ (ف) کے امید وار غلام دستگیر راجڑ 68122 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے سرفراز راجڑ تھے جنہوں نے 31997 ووٹ حاصل کئے تھے۔حاجی دستگیر راجڑ کو بعد میں جعلی ڈگری کی بنیاد پر الیکشن لڑنے کی وجہ سے نا اہل قرار دے دیا گیا تھا جس کے بعد ضمنی انتخاب میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) کے سابق ضلعی ناظم حاجی خدابخش راجڑ کامیاب ہوئے تھے۔

2002 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے امیدوار حاجی عبدالقدوس راجڑ 61671 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف آزاد امید وار (سابق وزیر اعظم محمد خان جونیجو کے صاحبزادے) اسد علی خان جونیجو تھے جنہوں نے 34888 ووٹ حاصل کئے تھے تیسرے نمبر پر پیپلز پارٹی کے امیدوار سرفراز راجڑ تھے جنہوں نے 52112 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ ایم کیو ایم کے امید وار ڈاکٹر تاج محمد کے حصہ میں 1609 ووٹ آئے تھے۔حلقہ PS – 80 سانگھڑ تھری (کھپرو) بھی پاکستان مسلم لیگ (ق) کا مضبوط گڑھ سمجھا جاتا ہے جہاں پیر صاحب پاگارہ کے مریدوں ، مخدوم امین فہیم اور مخدوم شاہ محمود قریشی کے مریدوں کی بھاری اکثریت آباد ہے۔

اس حلقہ کے اہم شہروں اور قصبوں میں کھپرو اور ہتھنگو شامل ہیں۔ جن میں اردو بولنے والے کھپرو شہر میں قائم خانی، جٹ اور دیگر برادریاںاور ہتھنگو میں قائم خانی برادری کے کافی ووٹ ہیں ۔اس حلقہ میں اقلیتی برادری(ہندوئوں) بہت بڑی آبادی ہے۔اس حلقہ سے ماضی میں کبھی بھی عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے علاوہ کسی اور جماعت کا امید وار کامیاب نہیں ہوا ہے۔

People's Party

People’s Party

اس مرتبہ اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کی جانب سے علی حسن ہنگورجو جبکہ مسلم لیگ (ق) کی جانب سے حاجی خدا بخش راجڑ کو امید وار نامزد کیا ہے۔2008 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پاکستان مسلم لیگ (ق) کے امید وار قاضی شمس الدین راجڑ 47151ووٹ لیکر کامیاب قرار پائے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے علی حسن ہنگورجو 18847ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے۔

2002 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ(ق) کے امید وار انور عادل 41254 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پیپلز پارٹی کے علی حسن ہنگورجو تھے جنہوں نے 19363 ووٹ حاصل کئے تھے جبکہ آزاد امید وار کانجی مل نے 3418 ایم کیو ایم کے ڈاکٹر تاج محمد نے 1703 ووٹ حاصل کئے تھے۔حلقہ PS – 81 سانگھڑفور(جام نواز علی کم کھپرو) جام خاندان کا آبائی حلقہ ہے جہاں سے ہمیشہ اس خاندان کے امیدواروں کو کامیابی ملتی رہی ہے تاہم پیپلز پارٹی کی اہم سیاسی شخصیت شازیہ مری کا تعلق بھی اس حلقہ کے قصبہ بیرانی سے ہے۔ان کے والد عطا محمد مری صوبائی اسمبلی کے ڈپٹی اسپیکر رہ چکے ہے جو اس وقت مسلم لیگ(ق) کی حمایت سے کامیاب ہوئے تھے اور ان کو بھی سیاسی حلقوں میں ایک اہم مقام حاصل تھا۔

شازیہ مری نے بھی اس علاقہ کے عوام کے دلوں میں ایک خاص مقام پیدا کیا ہے اور اس علاقہ میں اس وقت ان کا کافی اثر رسوخ پایا جاتا ہے۔اس حلقہ میں اس مرتبہ اصل مقابلہ مسلم لیگ (ف) کے جام مدد علی اور سندھ کے کلاسیکل وڈیرے مرحوم شاہنواز کے بیٹے محمد خان جونیجو کے درمیان ہے۔جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے دیوداس اور شاہ محمد شیخ نے بھی اس حلقہ سے اپنے کاغذات نامزدگی جمع کرارکھے ہیں۔اس حلقہ سے 2008 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار جام مدد علی خان31817 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ پیپلز پارٹی کے میر سہراب خان مری 20844ووٹ لیکر دوسرے نمبر پر رہے تھے۔ 2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ(ق) کے جام مدد علی خان 30344 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ پیپلز پارٹی کے غلام علی وسان 18287 لیکر قریب ترین حریف تھے تیسرے نمبر پر ایم کیو ایم کے محمد طیب راجپوت رہے جنہوںنے 777 ووٹ حاصل کئے تھے۔

PPP-PML (Q)

PPP-PML (Q)

حلقہ این اے 236 سانگھڑ تھری ٹنڈو آدم اور شہدادپور تحصیلوں پر مشتمل ہے جہاں پر ہمیشہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ق)  کے درمیان کانٹے کا مقابلہ ہوتا ہے۔اس حلقہ میں متحدہ قومی موومنٹ کا بھی بہت بڑا ووٹ بینک موجود ہے۔اس حلقہ کے بڑے شہروں اور قصبوں میں ٹنڈو آدم، شہدادپور، شاہ پور چاکر، سرہاری اور لنڈو شامل ہیں۔مذکورہ تمام ہی شہروں اور قصبوں میں اردو بولنے والی آبادی کی اکثریت ہے جن کی اکثریت ہمیشہ متحدہ وقومی موومنٹ کو ووٹ دیتی رہی ہے۔اس حلقہ سے پاکستان پیپلز پارٹی نے روشن دین جونیجو کو ٹکٹ دیا ہے جبکہ مسلم لیگ (ق) نے اس حلقہ میں اردو بولنے والی آبادی کو مد نظر رکھتے ہوئے ملک امام الدین شوقین کو اپنا امیدوار نامزد کیا ہے۔

ملک امام الدین شوقین ایک بڑے صنعت کار ہیں اور خاص طور پر ملک برادری اور ٹنڈو آدم شہر میں ان کو بڑی مقبولیت حاصل ہے۔ملک امام الدین کو جتنی مقبولیت حلقہ کے شہری علاقوں میں حاصل ہے پیپلز پارٹی کے امیدوار روشن الدین جونیجو کا ٹنڈو آدم کے دیہی علاقوں میں اس سے کہیں زیادہ اثر رسوخ ہے۔وہ سندھ کے ماضی ماضی میں کلاسیکل وڈیرے کی حیثیت سے مشہور اور علاقہ کی بااثر ترین شخصیت مرحوم شاہ نواز جونیجو کے بیٹے ہیں جو ماضی میں سینیٹر اور میمبر قومی اسمبلی بھی رہ چکے ہیں۔اس حلقہ میںایم کیو ایم نے ابھی تک اپنے امیدوار کا اعلان نہیں کیا۔علاقہ کی سیاست میں 1988 کے عام انتخابات میں بھونچال پیدا کرنے والے اور 2003 کے ضمنی انتخابات میں ایم کیو ایم کے ٹکٹ پر 24000 سے زائڈ ووٹ حاصل کرنے والے ڈاکٹر محمد ایوب شیخ نے بھی اس مرتبہ پھر کراچی کی بجائے اس حلقہ سے کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔

ڈاکٹر محمد ایوب شیخ ایم کیو ایم کے سینٹرل اگزیکٹو کمیٹی کے رکن ہیں اور وہ دو مرتبہ وزیر اعلیٰ کے مشیر رہنے کے علاوہ ایک مرتبہ کراچی کے علاقہ کورنگی سے ایم این اے رہ چکے ہیں۔ ایم کیو ایم کی جانب سے اس حلقہ سے دیو دا س سمیت دیگر امیدواروں نے بھی کاغذات نامزدگی جمع کرائے ہیں۔ دیوداس 2002 کے انتخابات میںمتحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے مخصوص اقلیتی نشست سے میمبر قومی اسمبلی رہ چکے ہیں۔اس حلقہ سے 2008 کے عام انتخابات میں پاکستان پیپلز پارٹی کے روشن دین جونیجو 90311 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پاکستان مسلم لیگ(ق) کے جام معشوق علی خان (جنہیں ایم کیو ایم کی حمایت بھی حاصل تھی)نے 49483 ووٹ حاصل کئے تھے۔

Fake Degrees

Fake Degrees

2002 کے عام انتخابات میں مسلم لیگ (ق) کے امیدوار محمد خان جونیجو 66543 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے تھے جن کے انتخاب کو جعلی ڈگری رکھنے کی بناء پر کلعدم قرار دے دیا گیا تھا۔ان کے قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے فدا حسین ڈیرو تھے جنہوں نے 56628 ووٹ حاصل کئے تھے۔بعد ازاں اس حلقہ پر ضمنی الیکشن میں مسلم لیگ (ق) اور پیپلز پارٹی کے مشترکہ امیدوار لیاقت علی مری (جماعت اسلامی ، مسلم لیگ ن اور دیگر جماعتوں کی حمایت بھی حاصل تھی) ایم کیو ایم کے امیدوار ڈاکٹر محمد ایوب شیخ کو شکسست دے کر کامیاب قرار پائے تھے۔

حلقہ پی ایس 82 سانگھڑ فائیو(ٹنڈو آدم) میں ہاکثر کانٹے کے مقابلے ہوتے رہے ہیں۔یہ حلقہ ٹنڈو آدم تعلقہ کی تما م دس یونین کائونسلوں پر مشتمل ہے۔جن میں پانچ
یونین کائونسل ٹنڈوآدم سٹی کی اور پانچ دیہی شامل ہیں ۔میں اس مرتبہ پیپلز پارٹی کی جانب سے فدا حسین ڈیرو کے بیٹے فراز ڈیرو ، مسلم لیگ (ف) (ق) ونل انچارج اسرار قریشی اور دیگر کے کاغذات نامزدگی جمع کرائے گئے ہیں۔ 2008 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لی(ق) کے امید وارفدا حسین ڈیرو 48547 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے قریب ترین حریف لیاقت علی مری تھے۔

Vote

Vote

جنہوں نے 12091 ووٹ حاصل کئے۔2002 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) کے امید وار ملک امام الدین شوقین28889 ووٹ لیکر کامیاب ہوئے جبکہ ان کے قریب ترین حریف پاکستان پیپلز پارٹی کے امیدوارمختار علی شوروتھے جنہوں نے 25324 ووٹ حاصل کئے۔ایم کیو ایم کے امید وار محمد آصف 3648 ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔حلقہ پی ایس 83 سانگھڑ سکس(شہدادپور) تحصیل شہدادپور پر مشتمل ہے تاہم شہدادپور کی تین یونین کائونسل شاہ پور چاکر، سرہاری اور برہون اس میں شامل نہیں ہیں۔اس حلقہ میں بھی ماضی میں ضلع کی دونوں بڑی پارٹیوں کے درمیان سخت مقابلے ہوتے رہے ہیں۔اس حلقہ میں ایم کیو ایم کا بھی کافی ووٹ بینک موجود ہے۔اس علاقہ سے بلدیاتی انتخابات میں ایک یوسی ناظم سمیت سترہ ایم کیو ایم کے حمایت تافتہ کونسلرز کامیاب ہوئے تھے۔

اس مرتبہ اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) نے محمد بخش خاص خیلی جبکہ پیپلز پارٹی نے شاہد خان تھہیم کو اپنا امید وار نامزد کیا ہے جن کے درمیان کانٹے کا مقابلہ متوقع ہے۔ 2008 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے پیپلز پارٹی کے ٹکٹ پر مرحوم عبدالسلام تھہیم 30542 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے قریب ترین حریف مسلم لیگ (ق) کے امید وار ماہی خان وسان تھے جنہوں نے 22631 ووٹ حاصل کئے تھے۔

2002 کے عام انتخابات میں اس حلقہ سے مسلم لیگ (ق) کے امید وار ماہی خان وسان 24057 ووٹ حاصل کرکے کامیاب ہوئے تھے۔ ان کے قریب ترین حریف عبدالسلام تھہیم کے بیٹے پیپلز پارٹی کے امید وار عبدالرحمٰن تھہیم تھے جنہوں نے 23614 ووٹ حاصل کئے تھے۔ایم کیو ایم کے حبیب بیگ مجاہد 4492ووٹ لیکر تیسرے نمبر پر رہے۔

تحریر : راناواقار حسین
(0313-3045846)