تحریر : علی عبداللہ مشرقی غوطہ 2013 سے شامی حکومت کے محاصرے میں ہے اور یہ اسد کے خلاف بر سر پیکار عسکری تنظیموں کا مضبوط ترین علاقہ بھی سمجھا جاتا ہے _ حالیہ بدترین جنگی صورتحال اور عام شہریوں کی ہلاکتوں کی خبریں عالمی میڈیا پر مختلف انداز میں دکھائی جا رہی ہیں اور یہ بہت افسوسناک بات ہے کہ یہاں مرنے والوں میں بچے اور عورتیں بھی شامل ہیں _ گو کہ اب تیس دنوں کے لیے جنگ بندی کا معاہدہ ہو چکا ہے لیکن بہت دیر کر دی مہرباں آتے آتے کے مصداق سینکڑوں عام شہریوں کی ہلاکتوں کے بعد جا کے سیکورٹی کونسل اور دیگر عالمی ادارے خواب غفلت سے بیدار ہوئے ہیں _ یاد رہے کہ دمشق سے صرف 10 کلومیٹر کی دوری پر واقع یہ علاقہ 104 مربع کلومیٹر پر مشتمل ہے اور اس کی آبادی 400000 ہے جس میں نصف تعداد بچوں کی ہے۔
شام کے تنازعہ اور حالیہ غوطہ پر حملوں کے بارے میں میڈیا کا کردار مکمل طور پر غیر جانبدارانہ نہیں ہے _ یہی وجہ ہے کہ یہ تنازعہ حقیقت سے زیادہ پروپگنڈا کا شکار کہلائے جانے لگا ہے _ مغربی میڈیا جو کہ نہایت مضبوط ہے کی بات کی جائے تو گارڈین، نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، سی این این، بی بی سی اور ٹائمز سمیت دیگر مغربی نشریاتی ادارے شام پر ہونے والی بمباری اور حملوں کو نہایت افسوسناک اور ظالمانہ قرار دے کر انتہائی جذباتی انداز میں زخمی و ہلاک شہریوں کی تصاویر شائع کر کے ان پر تحریریں لکھ رہے ہیں _ ان تمام نشریاتی اداروں کو اگر دیکھا جائے تو حقیقتاً شام میں ٹائمز کے چند گمنام ملازمین کے علاوہ باقی کسی ادارے کے مصدقہ رپورٹر وہاں موجود نہیں ہیں _ ان اداروں کے اصل نمائندگان شام سے باہر بیروت یا ترکی میں موجود ہیں جوشام میں موجود امدادی و انسانی حقوق کی تنظیموں جن میں شام کی سول ڈیفنس جسے وائٹ ہیلمٹس بھی کہا جاتا ہے ، یونین آف میڈیکل کئیر اینڈ ریلیف آرگنائزیشنز، سیرین آبزروٹری فار ہیومن رائٹس سمیت دیگر تنظیموں کے بیانات کی بنیاد پر صورتحال کی رپورٹنگ کرتے ہیں۔
غیر مغربی اور دیگر نشریاتی اداروں کی بات کریں تو وہ مکمل مختلف صورتحال پیش کر کے مغربی میڈیا کی نفی کرتے دکھائی دیتے ہیں _ یہ وہ نشریاتی ادارے ہیں جن کو مغرب میں کمزور اور عوام پر حاوی نہیں سمجھا جاتا _ یہ ادارے غوطہ کو مکمل طور پر نظر انداز کر کے حالات کو بالکل نارمل بتا کر عالمی دنیا کو اطمینان دلاتے دکھائی دیتے ہیں _ روسی نشریاتی ادارہ RT آفرین کی صورتحال پر بحث کرتے ہوئے اور شامی سرکاری ایجنسی SANA غوطہ کی جنگی صورتحال کو مکمل نظرانداز کر کے دمشق میں زندگی مکمل طور پر معمول کے مطابق دکھا رہے ہیں _ یہ ادارے غوطہ میں سرکاری و روسی فوجوں کے خلاف برسرپیکار ان مختلف گروپوں کو نمایاں کرتے ہیں جن کو تقریباً تمام مغربی میڈیا اپنی رپورٹ میں گمنام یا باغی کہہ کر شائع کرتا ہے۔
غوطہ میں موجود روسیوں اور شامی افواج کے خلاف لڑنے والی تنظیموں میں تحریر الشام ہے جو پہلے النصرہ فرنٹ کے نام سے موجود تھی لیکن دیگر گروپوں کے اس میں شمولیت کے اعلان کے بعد یہ تحریر الشام کے نام مشہور ہے اور اسے القاعدہ کا حصہ بھی سمجھا جاتا ہے _ اسی طرح ایک اور گروپ جیش الاسلام ہے جو اسدی حکومت کو ختم کروا کر شام میں شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کرتا ہے _ اس کے بارے یہ بھی خیال کیا جاتا ہے کہ اسے سعودی عرب کی جانب سے امداد بھی دی جاتی ہے _ آزاد شامی فوج کے ساتھ منسلک سمجھی والی ایک اور اہم تنظیم فیلق الرحمان ہے اس کے بھی القاعدہ سے تعلقات کا ذکر کیا جاتا ہے _ یہ شام میں اسلامی سلطنت لانے سے زیادہ انقلاب کی حامی سمجھی جاتی ہے اور اس کے مغرب سے بھی تعلقات کا چرچا ہے _ ان کے علاوہ مزید دیگر چھوٹے گروپ جن میں احرار الشام وغیرہ شامل ہیں بھی اس جنگ میں بر سر پیکار ہیں۔
امدادی تنظیموں کی بات کی جائے تو اسوقت غوطہ میں موجود تقریباً تمام امدادی ادارے مغربی فنڈنگ وصول کرتے ہیں اور مغربی میڈیا کے لیے رپورٹنگ کا باعث بھی ہیں _ بعض ذرائع کے مطابق ان اداروں کے چلانے والوں کے نام انکی آفیشل ویب سائٹس پر بھی موجود نہیں ہیں _ غوطہ میں اسوقت تین بڑی امدادی تنظیمیں موجود ہیں جن میں سیرین آبزروٹری آف ہیومن رائٹس، یونین آف میڈیکل کئیر اینڈ ریلیف آرگنائزیشنز اور وائٹ ہیلمنٹس یعنی سیریا سول ڈیفنس شامل ہیں _ وائٹ ہیلمٹس ان میں سر فہرست ہے جو تقریباً تمام جنگی علاقوں میں موجود ہے _ وائٹ ہیلمٹس کے بارے مختلف شکوک و شبہات کا اظہار کیا جاتا ہے اور اس بارے مختلف ذرائع کے مطابق مشہور ہے کہ وہ امریکہ، برطانیہ اور فرانس سے فنڈز وصول کرتی ہے اور مغربی ایجنڈے پر کام کرتے ہوئے عوام سے زیادہ مختلف عسکری گروپوں کی مدد کرتی ہے۔
2012 میں بننے والی وائٹ ہیلمٹس جو کہ خود کو سیرین سول ڈیفنس کے طور پر نمایاں کرتی ہے اور اس کی بنیاد سابقہ برطانوی انٹیلیجنس آفیسر اور سیکورٹی سپیشلسٹ جیمز لی نے رکھی تھی چند سال میں ہی ایک عام این جی او سے بڑھ کر ایک مضبوط ادارے کی شکل اختیار لی ہے جس کی اپنی یونیفارم، علامات اور گاڑیاں ہیں _ اس کے شام میں 119 سینٹر ہیں _ 2016 میں وائٹ ہیلمٹس کو نوبل انعام لے لیے بھی چنا گیا تھا اور بہت کم لوگوں کو علم ہے کہ یہ عموماً ان علاقوں میں فعال ہے جہاں اسد روس مخالف گروپ مضبوطی سے موجود ہیں اور ان علاقوں میں ریڈ کراس کے ممبران کو بھی نہیں جانے دیا جاتا _ مشہور آزاد محقق اور صحافی ونیزہ بیلے کی رپورٹ کے مطابق یہ تنظیم 2017 تک 23 ملین ڈالر یو ایس ایڈ، 65 ملین ڈالر برطانیہ اور مختلف سازوسامان فرانس سے وصول کر چکی ہے _ ان پر اصل شامی سول ڈیفنس کے کارکنوں کو اغوا کرنے کا بھی الزام ہے اور اس کے علاوہ وائٹ ہیلمٹس پر یہ بھی الزام ہے کہ وہ غیر حقیقی امدادی تصاویر شائع کر کے عالمی سطح پر ہمدردی حاصل کرتی ہے _ کینیڈین صحافی ایوا بارٹلٹ جو کہ انسانی حقوق پر بھی کام کرتی ہیں کے مطابق وائٹ ہیلمٹس اپنی جاری کردہ امدادی تصاویر میں چند مخصوص بچوں کو ہی مختلف امدادی واقعات میں استعمال کرتی رہی ہے _ لیکن وائٹ ہیلمٹس ان تمام الزامات کی تردید کر کے غیر جانبدارانہ خدمات کا دعوٰی کرتی ہے۔
درحقیقت شامی سول ڈیفنس 1953 میں وجود میں آئی تھی اور یہ ادارہ انٹرنیشنل سول ڈیفنس کا ممبر ہونے کے علاوہ دیگر عالمی اداروں جن میں یو این ڈیپارٹمنٹ آف ہیومنیٹیرین افئیرز، انٹرنیشنل سرچ اینڈ ریسکیو ایڈوائزری گروپ، ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن، ریڈ کراس اور ریڈ کریسنٹ کا بھی ممبر ہے ـ جبکہ ان کا دفتر دمشق میں ہے _ دوسری جانب سیرین سول ڈیفنس کہلانے والا وائٹ ہیلمٹس انٹرنیشنل سول ڈیفنس کا ممبر نہیں ہے۔
اعداد و شمار جو بھی ہوں، میڈیا جیسے بھی بیان کرے ، لیکن یہ بات مصدقہ ہے کہ اس جنگ میں عام شہری جن میں خواتین و بچے بھی شامل ہیں مسلسل ہلاک و زخمی ہو رہے ہیں _ یہ بات ہرگز قابل قبول نہیں کہ عام شہریوں کی ہلاکتوں پر عالمی دنیا خصوصاً عالم اسلام خاموشی اختیار کیے رکھے حتی کہ باطل عالم اسلام کو ایک ایک کر کے ہڑپ کر جائے _ عالم اسلام کے لیے نبی کریم صل اللہ علیہ وسلم کی شام اور غوطہ کے بارے احادیث ایک واضح اشارہ ہیں کہ اگر مسلم امہ شام کے سانحے پر آنکھیں بند کر کے بیٹھی رہی تو پھر اس کے لیے بھی کوئی خیر نہیں _ لہذا مسلم امہ کو شام کی صورتحال پر توجہ دینی ہوگی وگرنہ کل یہ آگ ہمارے گھروں تک پہنچ گئی تو پھر ہم بے بس ہوں گے _اس کے علاوہ ہمیں میڈیا پر اندھا دھند نشر ہونے والی خبروں پر انحصار کرنے اور انہیں بلا تصدیق شئیر کرنے کی بجائے اس بارے مزید تحقیق کرنی چاہیے تاکہ عام عوام باطل کے روپگنڈا کا کم سے کم شکار ہو سکے۔