پہلے ایٹمی دھماکے کئے اب معاشی دھماکے کریں گے الیکشن مہم کے دوران کئے وعدوں کے مطابق مسلم لیگ ن کی حکومت نے تیزی سے معاشی دھماکے کرنا شروع کر دیئے ہیں۔ حکومت کا تازہ ترین معاشی دھماکہ سپریم کورٹ کے حکم پر مجبورا بجلی کی قیمتوں میں اضافے کا نوٹیفکیشن واپس لے لیا لیکن جی ایس ٹی میں دو فیصد اضافہ کر کے عوام کیلئے دھماکے کا انتظام کر لیا۔ یعنی عوام پریشان نہ ہوں دھماکہ ضرور ہو گا دہشتگرد کریں یا حکومت۔ حکومت نے جی ایس ٹی 17 فیصد سے بڑھا کر 19 فیصد کر دیا۔ جی ایس ٹی میں اضافہ کا اعلان گزشتہ روز ہوا لیکن عمل درآمد پہلے ہی ہو چکا تھا۔ بجلی کی قیمت میں تازہ اضافے (جسے سپریم کورٹ کے حکم پر واپس لے لیا گیا ہے) کے فوری بعد کھانے پینے اور پہننے کی تمام اشیاء کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے اور اب وزیر اعظم پاکستان نے حکم صادر فرمایا ہے کہ بجلی کے نرخ بڑھنے سے عام آدمی کی مشکلات میں اضافہ نہیں ہونا چاہئے۔ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کا کہنا ہے کہ 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے عام پاکستانیوں کیلئے بجلی مہنگی نہیں ہوئی۔
اُن کا کہنا بالکل درست لیکن 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرنے والے عام پاکستانی بھی روٹی، دال، سبزی، دودھ چ ینی، آٹا، نمک، گھی اور دیگر ضروریات زندگی اُسی بازار سے خریدتے ہیں جہاں سے 200 یونٹ سے زائد بجلی استعمال کرنے والے خریدتے ہیں، تو کیا ضروریات زندگی کی قیمتوں میں اضافے سے عام عوام جو 200 یونٹ سے کم بجلی استعمال کرتے ہیں محفوظ رہ پائیں گے؟ 11 نومبر 2012 ء کے دن میاں نواز شریف نے اپنے ایک خوبصور ت بیان میں کہا تھا کہ صاف، شفاف انتخابات ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ 11مئی 2013ء کو ہونے والے عام نتخابات صاف، شفاف تھے یاکہ دھاندلی ہوئی اس بات سے قطعہء نظر میاں نواز شریف کے حق میں آنے والے نتائج کے بعد یہ ثابت ہو چکا کہ اُن کیلئے انتخابات صاف، شفاف رہے۔ اس وقت ملک میں شفاف الیکشن کے بعد میاں نواز شریف وزیر اعظم پاکستان ہیں اور ملک کی تقدیر بدل رہی ہے۔
ڈالر کے مقابلہ میں پاکستانی روپے کی قیمت میں تاریخ ساز گراوٹ، بجلی، تیل، گیس، آٹا، چینی، گھی، صابن، دودھ، دالیں، پھل اور سبزیوں کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافے اور کم آمدنی کی وجہ سے 89 فیصد عوام خودکشی کی طرف بڑھ رہی ہے تو دوسری طرف باقی بچے 7 فیصد عوام یعنی کاروباری طبقہ دہشتگردی، بھتہ خوری، بدامنی اور ناانصافی کی وجہ سے پریشان ہو کر وطن عزیز کو چھوڑ کر اپنا سرمایہ دوسرے ممالک میں منتقل کرنے پر مجبور ہو چکے ہیں۔ 6 فیصد حکمران طبقہ اپنا سرمایہ پہلے ہی پاکستان سے محفوظ مقامات پر جمع کرتا ہے۔ ایک خبر کے مطابق پاکستان کو دنیا کے 10 ناپسندیدہ ممالک کی فہرست میں شامل کر دیا گیا ہے اسے کہتے ہیں تقدیر بدلنا۔ الیکشن سے پہلے کی جانے والی تمام خوبصورت باتوں کو جوش خطابت کا نام دے کر میاں صاحب کہتے ہیں کہ عوام کو تمام حقائق سے آگاہ کیا جائے گا۔
Nawaz Sharif
پہلے کہتے تھے 6 ماہ، 1 سال میں بجلی کی لوڈشیڈنگ ختم نہ کی تو میرا نام۔ نہیں۔ اب کہتے ہیں کہ بجلی کی کمی کو پورا کرنے میں کم از کم 4 سال لگ سکتے ہیں لیکن بجلی مہنگی کرنا مجبوری ہے۔ بدلو بھئی بدلو ملک کی تقدیر بدلو۔ مسلم لیگ ن کو ملنے والا مینڈیٹ زیادہ مزدور طبقے کا ہے جو عرصہ دراز سے بے روز گاری اور مفلسی کے ہاتھوں سخت پریشان ہے۔ الیکشن 2013ء کے موقع پر بے روزگار عوام نے میاں نواز اور میاں شہباز شریف کے گزشتہ دور حکومت میں چلنے والے روزگار کو مدنظر رکھتے ہوئے اس اُمید پر مسلم لیگ ن کو مینڈیٹ دیا کہ ماضی کی طرح پھر فیکٹریاں اور کارخانے چلیں گے تو عوام کو روزگار میسر آسکے گا، لیکن اب حالات کچھ بہت مختلف ہیں۔ ملک میں پھیلی بد امنی اور توانائی بحران کی شدت کی وجہ سے فیکٹریوں اور کارخانوں کے مالک یا کنگال ہو چکے ہیں یا اپنا کاروبار کسی دوسرے ملک منتقل کر چکے یا کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔
میاں نواز اور شہباز شریف نے الیکشن سے پہلے جو وعدے کئے میری نظر میں وہ اُن و عدوں کو وفا کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں لیکن حالات کو بہتری کی جانب گامزن کرنے جیسے اقدامات سے ابھی تک دور ہیں۔ مسلم لیگ ن کی حالت اس وقت ایک شعر میں بیان کی جا سکتی ہے۔ ”ہاتھ اُلجھے ہوئے ریشم میں پھنسا بیٹھے ہیں اب تم ہی بتائو کون سے دھاگے کو جُدا کس کریں ” خیرمیاں نواز شریف کی بھی کیا غلطی ہے اُن کی حکومت کو وراثت میں ملنے والے مسائل ہی ایسے ہیں جن سے نکلتے نکلتے عوام کے جسم پر چھلنے والی کوئی چیز شاید باقی نہ رہے۔ وطن عزیز آج کل جن مشکل حالات سے گزر رہا ہے۔ مسائل و بحران کانہ تھمنے والا سیلاب ہے جو مسلسل بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ملک کا نظام ایسی شیطانی و طاغوتی طاقتوں کے گرداب میں پھنس چکا ہے جو عرصہ دراز سے دیمک کی طرح چاٹ چاٹ کر اس کواس قدر کھوکھلا کر رہا ہے کہ اب گرا یا تب گرا والی کیفیت پیدا ہو گئی ہے۔
بدا نتظامی کی بدتر صورتحال نے جہاں ملک کی معاشی، اقتصادی اور معاشرتی حالت کو خستہ کردیا ہے وہاں پوری قوم مجموعی طور پر ذہنی مریض بن چکی ہے۔ حکمران خواب غفلت میں مدہوش اور نشہ بادشاہت میں سرشار ہیں۔ امیر طبقے کو جسمانی لذت اور خواہشات نفس کی تسکین کے سوا کسی قسم کا کوئی فکر و غم نہیں۔ حرس و ہوس اُن کا اُوڑھنا بچھونا ہے جبکہ عوام بے روزگاری، غربت، روز بروز بڑھتی ہوئی مہنگائی، بد امنی، ناانصافی، ظلم، بیماری، خاص طور پر چاروں طرف پھیلی بے یقینی کے نتیجے میں پاگل پن کی حد سے گزر کر زندگی گزار رہے ہیں۔ مسائل کی زیادتی اور وسائل کی کمی سے لڑتے لڑتے جب تنگ آجاتے ہیں، تو اپنی زندگی کا چراغ اپنے ہی ہاتھوں بجھانے میں دیر نہیں لگا تے۔ لیکن حاکمین کے ظلم و ستم کو موضوع بنا کر گفتگو کو طویل کرنا کسی مسئلے کا حل نہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے کہ وہ کسی بھی قوم کی حالت اس وقت تک نہیں بدلتا جب تک وہ اپنی حالت خود نہ بدلنا چاہے۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا قوم اپنی حالت بدلنے کیلئے اگلے الیکشن کا انتظار کرے گی یا سب کچھ حکمرانوں پر ڈالنے کی بجائے اپنی ذمہ داریاں خود قبول کرے گی؟ جہاں تک بات شفاف الیکشن سے تقدیر بدلنے کی ہے تو اس بات میں نہ تو کل کوئی صداقت تھی اور نہ ہی آج ہے کیونکہ تقدیر بنانے اور بدلنے پر الیکشن، سیاست دان یا کوئی اور نہیں بلکہ صرف خالق کائنات جس کے قبضہ قدرت میں میری اور آپ کی جان ہے وہی قادر ہے۔ ہمیں صرف نیک نیتی، محنت، ایمانداری اور لگن کے ساتھ اپنی حالت بدلنے کی کوشش کرنا ہے۔ حالت بدلے گی تو تقدیر بھی بدل جائے۔