شرح طلاق میں خطرناک حد تک اضافہ کیوں

Divorce

Divorce

تحریر : رشید احمد نعیم

دنیا میں لیڈرز ہوں‘ سیاستدان ہوں‘ حکمران ہوں‘ چیف ایگزیکٹو ہوں یا عام انسان ہو‘ان کا اصل حُسن ان کی قوت برداشت ہوتی ہے۔ دنیا میں کوئی شارٹ ٹمپرڈ‘ کوئی غصیلہ اور کوئی جلد باز شخص ترقی نہیں کر سکتا۔ دنیا میں ،معاشرے‘ قومیں اور ملک بھی صرف وہی آگے بڑھتے ہیں جن میں قوت برداشت ہوتی ہے۔ جن میں دوسرے انسان کی رائے‘ خیال اور اختلاف کو برداشت کیا جاتا ہے لیکن بدقسمتی سے ہمارے ملک‘ ہمارے معاشرے میں قوت برداشت میں کمی آتی جا رہی ہے۔ ہم میں سے ہر شخص ہروقت کسی نہ کسی شخص سے لڑنے کیلئے تیار بیٹھا ہے۔ شائد قوت برداشت کی یہ کمی ہے جس کی وجہ سے پاکستان میں دنیا میں سب سے زیادہ لڑائی جھگڑے ،قتل اور سب سے زیادہ حادثے ہوتے ہیں۔ نیز قوتِ برداشت نہ ہونے کی وجہ سے ہی اختلافات پیدا ہوتے ہیں لیکن یہاں پر سوال پیدا ہوتا ہے کیا ہم اپنے اندر برداشت پیدا کر سکتے ہیں؟ اس کا جواب ہاں ہے اور اس کا حل رسول اللہ کی حیات طیبہ میں ہے۔ ایک بار ایک صحابی نے رسول اللہ سے عرض کیا ’’یارسول اللہ آپﷺ مجھے زندگی کو پر سکون اور خوبصورت بنانے کاکوئی ایک فارمولہ بتا دیجئے‘‘ آپ نے فرمایا ’’غصہ نہ کیا کرو‘‘ آپ نے فرمایا ’’دنیا میں تین قسم کے لوگ ہوتے ہیں۔ اول وہ لوگ جو جلدی غصے میں آجاتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں۔

دوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور جلد اصل حالت میں واپس آ جاتے ہیں اور سوم وہ لوگ جو دیر سے غصے میں آتے ہیں اور دیر سے اصل حالت میں لوٹتے ہیں‘‘ آپ نے فرمایا ’’ ان میں سے بہترین دوسری قسم کے لوگ ہیں جبکہ بدترین تیسری قسم کے انسان‘‘۔ غصہ دنیا کے90فیصد مسائل کی ماں ہے اور اگر انسان صرف غصے پر قابو پا لے تواس کی زندگی کے 90فیصد مسائل ختم ہو سکتے ہیں۔یہ غصیلی طبعیت اور عدم برداشت کیا کیا گل کھلاتی ہے ؟؟؟۔اس کے کیا کیا نقصان ہوتے ہیں؟؟؟ اور ہماری معاشرتی زندگی کو کس طرح دیمک کی چاٹ رہی ہے؟؟؟ اس کی ایک جھلک چکوال سے کومل سعید کے ملنے والے مراسلے میں ملاحظہ فرمائیں۔وہ لکھتی ہیں’’گذشتہ چند برسوں سے پا کستان میں طلاق کی شرح میں خطرناک حد تک اضا فہ دیکھنے میں آ یا ہے ،ٹی وی پہ ہر روز کی خبروں میں یہ دیکھا جا تا ہے کہ میاں بیوی کی علیحد گی کے نتیجے میں عدالت نے بچوں کی حوالگی ماں کے سپرد کر دی ،بچے باپ کے پاس رہنا چا ہتے تھے ،ان بچوں کا رونا دھو نا ساری دنیا دیکھتی ہے۔جن کی ز ند گیوں کو خود ان کے والد ین اپنی انا کی خا طر برباد کر دیتے ہیں ۔

ہمارے معا شرے میں طلا ق کا موذی مر ض انتہا ئی تیز ی سے بڑ ھ رہا ہے ۔طلاق جا ئز کا موں میں سے اللہ پا ک کے نز دیک سب سے نا پسند یدہ فعل ہے ۔میاں بیوی کو ایک دوسرے کا لباس قرار دیا گیا ،ایسا لباس جس کے نیچے تمام خا میاں چھپ جا تی ہیں ،اس رشتے کی خو بصورتی ایک دوسرے کو سمجھنے سمجھو تہ کر نے اور برداشت کر نے میں ہے ۔لیکن اب برداشت نام کی چیز خواتین میں ہے نہ ہی مردوں میں باقی رہی ہے جسکی بناء پہ معاشرتی و ازدواجی بقاء ایک خطر نا ک صورت حال اختیار کر چکی ہے ،معمولی سی با توں کو جواز بنا کر ایک دوسرے کو سیکنڈوں میں چھوڑ دیا جا تا ہے ۔اسی ایک لمحے کی غلطی ساری ز ند گی کا پچھتاوا بن جا تی ہے ۔اس سارے معا ملے میں برباد ہو نے والے وہ خود تو ہو تے ہی ہیں اس کے سا تھ ساتھ ان کے بچوں کی ز ند گی ایک عذاب بن جا تی ہے ۔’’ غزالہ اپنے نام کی طرح خو بصورت اور سلیقہ مند تھی اس کے چہر ے کی سنجید گی ہر ایک کو متا ثر کئے بنا نہیں رہ سکتی تھی پہلی نظر میں ہی دل کے اندر گھر کر جا نے والی لڑ کی تھی ۔مگر قسمت میں ماں با پ کا پیار نہ تھا ۔اس کی پیدائش کے کچھ ہی عرصہ بعد اس کے والد ین میں معمو لی سی با ت پہ لڑائی نے طو ل پکڑا اور نو بت طلا ق تک پہنچ گئی ایسے میں معصوم غزالہ ماں کی سپردگی میں آ گئی ۔غزالہ کا والد ایک سرکاری محکمے میں اٹھارہ گریڈ کا آ فیسر تھا ۔

دولت کی ریل پیل تھی لہذا غزالہ کے والد نے اسلا م آ باد میں دوسری شادی کر لی جبکہ دوسری طرف اس کی ماں نے بھی کچھ عرصہ گزرنے کے بعد دوسری شادی کر کے گھر بسا لیا ۔لیکن اس کے سوتیلے باپ نے غزالہ کو ر کھنے سے انکار کر دیا ۔وہ معصوم کبھی دادی کے گھر ،کبھی نا نی کے گھر، کبھی کسی اور رشتے دار کے گھر ز ند گی کے عذاب جھیلنے لگی ،سو تیلے با پ کو کبھی کبھار گھر میں آنا بھی برداشت نہ ہوا اور اس نے اپنے گھر میں اس کا آ نا جا نا مکمل طور پہ بند کر دیا ۔دوسری جا نب غزالہ کا با پ اپنی دوسری بیوی کے ساتھ ہنسی خو شی رہ رہا تھا اس نے ایک بار بھی اپنی بیٹی کا نہ سو چا اور اسے بے یارومدد گار چھوڑ دیا ۔غزالہ نے اسی کشمکش میں در در کی ٹھو کر یں کھا تے ہو ئے جوانی کی د ہلیز پار کر لی اس کی شادی محلے کے لو گوں نے کرائی مگر اٹھارہ گر یڈ کے آ فیسر با پ نے جواپنے ناک کی خا طر کئی غر یبوں کی مدد کر تا تھا اس نے اپنی بیٹی کو ایک د ھیلا تک نہ دیا ۔شادی کے بعد بھی قسمت کی دیوی غزالہ سے نا راض ہی رہی اس کا شوہر نہا یت غریب تھا شادی کے بعد پہلے بچے کی پیدائش پہ وہ با لکل بے کس تھی اس کی ماں نے اپنے شو ہر کی منت سما جت کی کہ کچھ دنوں کیلئے وہ بیٹی کو پاس رکھ لے تا کہ اس کی دیکھ بھا ل کر سکے اس وقت تو وہ مان گیا مگر اس کے گھر آ تے ہی ایسا سلو ک کیا گیا جیسے وہ بے چاری اچھوت ہو اس’’ عزت افزائی‘‘ کے باعث وہ بچے کی پیدائش کے دو دن بعد ہی اپنے گھرچلی گئی اور لو گوں کے گھروں میں کا م کر نے لگی ، پھریکے بعد دیگرے بچوں کی پیدائش پہ اس نے سب دکھ اکیلے ہی برداشت کئے مگر ماں باپ کے در پہ بھیک ما نگنے نہیں گئی ، اس صورت حال نے اسے جسما نی و ذہنی طور پہ بے حد کمزور کر دیا تھا ،اپنے بچوں کی خاطر اس نے لوگوں کے گھروں میں کام شروع کر دیا ذرا تصور تو کر یں کہ ایک اٹھارہ گر یڈ کاآ فیسرجس کے گھر میں نوکروں کی فو ج ہے، خود اس کی بیٹی بے کسی کے عا لم میں کسی کے گھروں میں کا م کر تی تھی پھر اس کے دل میں اپنے ماں باپ کے بارے میں کیا کیا ارمان تھے شاید الفاظ اس کا احاطہ نہ کر سکیں۔

اسے ماں باپ کے اس طرح بے وقعت کر نے کے فعل نے اور غربت کے ظالم شکنجے نے مار دیا تھا ،زما نے کی بے اعتنا ئی سہتے سہتے وہ وقت سے پہلے ہی بوڑھی لگنے لگی اور اسی غر بت کی ماری غزالہ یر قان کے موذی مرض میں مبتلا ہو گئی اس کی بیماری کی خبر سنتے ہی اس کی ماں ہسپتال پہنچ گئی اس کے باپ کی طرف پیغام بھیجا گیا تو جواب ملا کہ میرے پاس ٹا ئم نہیں ،ٹائم ملا تو آ جا ؤں گا ،بہت دنوں بعد جب اس کا باپ ہسپتال پہنچا تو بستر پہ ہڈیوں کے ڈ ھا نچے میں تبد یل غزالہ آ نکھوں میں ہزاروں شکوئے لئے خشک ہو نٹوں سے فریاد کر تے ہو ئے بے پناہ روئی اور اسی حالت میں بے ہو ش ہو گئی ،ٹھیک دو دن بعد وہ اس ز ند گی سے چھٹکارا پا کر ابدی نیند سو گئی ،اس کے باپ کو معلوم ہوا تو اس نے اپنے آ فس میں یہ بتایا کہ ایک رشتہ دار کی وفات پہ جا رہا ہوں ۔۔۔۔۔میرے پاس الفاظ نہیں کہ جن میں اس کے ما ں با پ کو احساس دلا سکوں کہ وہ ان کے جگر کا ٹکڑا تھی ،ان کی لڑائی کا نقصان ان دونوں کو نہیں ہوا کیو نکہ وہ دونوں اپنی ز ندگی میں اپنے بچوں کے سا تھ خوشی سے جی رہے ہیں مگر غزالہ جس کا قصور یہ تھا کہ اس نے ان کے گھر جنم لیا اسے نا کردہ گناہ کی سزا ملی۔

یہ تھا ایک ایسی معصوم لڑ کی کی ز ندگی تلخ سچ جس کے ماں باپ کی علیحد گی نے اس کی ز ندگی بر باد کر دی وہ جیتے جی مر تی رہی ،وہ پل پل آ ہوں اور سسکیوں میں سوتی جا گتی رہی اور مر تے دم تک اس کی و یران آ نکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ آخر اس کا قصور کیا تھا ،اگر اس کی پرورش نہیں کر سکتے تھے تو اسے دنیامیں لا نے کا حق بھی نہیں ر کھتے تھے یہ سوال اس کی ز ند گی کھا گیا مگر جواب کسی کے پاس بھی نہیں ۔یہ کہا نی یہی پہ بس نہیں ہو تی بلکہ اس کے چار معصوم پھول سے بچوں سے جا ملتی ہے جو ماں کی وفات کے بعد اسی طرح بے کس ہو گئے جیسے غزالہ اپنی ماں کے ہو تے ہو ئے بے کس ہو ئی تھی ،اس کے چار بچوں کو کو ئی اکٹھا نہ ر کھ سکتا تھا لہذا فیصلہ کیا گیا کہ چاروں بچوں کو تقسیم کر لیا جا ئے ۔اب اس کے دو بیٹے مدرسے میں ایک بیٹی پھو پھی کے پاس اور دوسری چچا کر پاس ہے ۔توکیا ان کو وہ پیار وہ سکون ملے سکے گا اس کا جواب ان کی ماں کی کہانی کی صورت میں آ پ سب کے سا منے ہے ؟؟؟۔ یہ صرف ایک غزالہ کی کہا نی نہیں ہمارا معا شرہ ایسے بچوں سے بھرا پڑا ہے جن کے والد ین کے غلط فیصلے ان کے بچوں سے جینے کا حق چھین لیتے ہیں ،کہیں پہ بیٹے کسی آ فیسر باپ کے ہو تے ہو ئے بھی دارالا مان میں ہیں تو کہیں پہ بیٹیاں کسی کے گھروں میں نو کروں کی طرح زند گی گزارنے پہ مجبور ہیں ۔طلاق جیسے نا پسندیدہ فعل سے ماں با پ کا کو ئی نقصان نہیں ہو تا ،شو ہر بھی مل جا تا ہے اور بیو ی بھی مگر ماں کی سچی و خا لص محبت اور با پ کی گھنی شفقت بچوں کو کو ئی اور نہیں دے سکتا ۔اپنے اندر برداشت کا مادہ پیدا کر یں لڑائی جھگڑوں کو طو ل نہ دیں اسی میں ان کے گھر کا سکون اور بچوں کا تحفظ ہے ورنہ دوسری صورت میں سوائے پچھتانے کے اور کچھ حاصل نہیں ہو گا۔

Rasheed Ahmad Naeem

Rasheed Ahmad Naeem

تحریر : رشید احمد نعیم