طلاق کی شرح میں اضافہ

Divorce

Divorce

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری

معاشرتی مسائل پر تحقیق کرنے والے ادارے میں ایک محقق دوست سے بات ہورہی تھی کہ پاکستان میں شرح طلاق میں اضافہ کیوں ہورہاہے اور عورت فائونڈیشن کے بقول تو طلاق یافتہ عورتوں میں 70فیصد تعلیم یافتہ عورتیں ہیں۔اگرچہ اس فائونڈیشن کی رپورٹ میں غایت درجہ مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے۔بہرحال افسوس ناک صورت حال ہے کہ پاکستان میں دن بدن طلاق کی شرح میں اضافہ تو ہو ہی رہاہے ۔جو کسی صورت مستحسن امر نہیں۔ باوجود اس کے کہ اسلام نے طلاق کی اجازت و رخصت دی ہے لیکن اس میں حکمت تو یہ ہے کہ اگر کوشش کے باوجود بھی میاں بیوی میں تعلقات استوار نہ ہوپائیں تو اس حالت میں دونوں اپنی زندگیوں سے دکھ و غم سے نجات حاصل کرکے راحت کی زندگی بسر کرسکیں۔اسی لیے بیان کیا گیا کہ طلاق دودفعہ ،تاکہ بہتری سے رہ تعلق بحال رکھیں یا خوش اسلوبی سے علیحدگی اختیار کرلیں۔

اب پریشانی کی بات تو یہ ہے کہ پاکستان میں طلاق کی شرح میں اضافہ کیوں ہوگیاہے۔بعض لوگ تو یہ کہتے ہیں کہ عورت کے تعلیم یافتہ ہونا طلاق کا سبب بن رہاہے۔بعض لوگ کہتے ہیں کہ سیکولرنظریات کی وجہ سے میاں بیوی میں جدائی واقع ہوتی ہے اور بعض اس بات ککی ذمہ داری عورت پر یہ کہہ کر عائد کرتے ہیں کہ وہ مطلق آزادی کی متمنی ہونے کے ساتھ مرد کے ساتھ مقابلہ کرنا شروع کردیتی ہے۔اس طرح کی وجوہ طلاق پر متعددو متنوع آراء پائی جاتی ہیں لیکن ان سے صورت مسئلہ واضح نہیں ہوپاتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ دیہی علاقوں کی خواتین دو طرح کے مظالم کا سامنا کرنا پڑتا ہے پہلی بات یہ ہے کہ عورت اپنے حقوق سے ناواقف و نا آشنا ہے۔مردوں کی جاہلت و دین سے ناآشنائی کی وجہ سے عورت کے ساتھ نارواسلوک کا رویہ اختیار نہ کیا جائے۔مرد یہ سمجھتا ہے کہ اس کا مقام و مرتبہ عورت کے مقابلہ میں زیادہ ہے اس کے اظہار کے لیے ضروری ہے کہ ان پر ظلم کے پہاڑ ڈھائے جائیں۔

ہم دیکھتے ہیں کہ تعلیم یافتہ عورتیں اپنے حقوق سے واقف ہوتی ہیں ،اس کا عقل و شعور کی بلندی تک پہنچ چکی ہوتی ہیں تو ایسے وقت میں جب شادی کا فیصلہ طے کرنے کا وقت آئے تو اس وقت غور و فکر کرکے نکاح و شادی کا فیصلہ کریں۔بدقسمتی کی بات ہے کہ بعض تعلیم یافتہ عورتوں کی شادی قبائیلی رسوم و رواج کی بنیاد پر استوار کیا جاتاہے جس میں عورت کی مرضی معلوم نہیں کی جاتی تو ایسے میں تعلیم یافتہ عورتیں جلد بازی میں گھر سے بھاگ کر کسی دوست سے شادی کرلیتی ہے۔تاکہ وہ اس رشتہ سے بچ سکے جس کو ناپسند کرتی ہے اور والدین کی جانب سے زبردستی نکاح کی کوشش کامیاب نہ ہوسکے۔ایسا کرنا کسی صورت یہ افعال و حرکات کسی بھی شکل میں مقبول نہیں۔پاکستان کی عورتوں کی جانب سے والدین کی رضامندی و رغبت کا جنازہ نکال کر جس سے شادی کا فیصلہ کرتی ہے کوئی بعید نہیں کہ اس کو وہاں بھی دھوکہ ملے تو ایسا کرنے سے پہلے ضروری ہے کہ تعلیم یافتہ عورت اس معاملہ کو باریک بینی سے دیکھتے ہوئے احتیاطی امور سرانجام دے۔پہلی بات یہ ہے کہ عورت کو معلوم ہونا چاہیے آزادی دین کی تعلیمات سے بالاتر حاصل کرنا سراسر نقصان کا پیش خیمہ ہے۔کیونکہ دین اسلام نے انسان کی طبیعت و مزاج سے مکمل آشنا ہے اور اللہ تعالیٰ نے انسان کو تخلیق کیا ہے تو اس کے مزاج کے عین مطابق قوانین وضع کیے ہیں ۔دین سے پیش قدمی کرکے آزادی حاصل کرنے کا نتیجہ خسران مبین کی صورت میں نکلتاہے۔عورت پر یہ بھی ضروری ہے کہ وہ شادی کا فیصلہ کرتے وقت خوب سوچ و فکر کرلے کہ کیا اس کے لیے بہتر ہے اور کیا نہیں بعدمیں کہیں بچھتانہ نہ پڑے۔جیسے ڈاکٹر مائکروسکوپ اور دیگر مراحل و ٹیسٹ کے ذریعہ مریض کا جائزہ لیتے ہیں کہ کہیں اس کو کوئی نقصان نہ پہنچ جائے اور اس کی صحت کی بحالی کے لیے تحقیق کی ضرورت ہے باریک بینی سے جائزہ اس لیے لیا جاتاہے کہ کہیںایک معمولی غلطی کی وجہ سے مریض دوران علاج فوت ہی نہ ہوجائے۔

اسی طرح تعلیم یافتہ عورت بھی شادی کا فیصلہ کرتے وقت دل کی بات سننے کی بجائے عقل کا استعمال بھی لازمی کرے بلکہ دل سے زیادہ عقل و بصیرت کا استعمال کیا جائے اور پھر جس مرد کے ساتھ وہ شادی کرنے کی خواہشمند ہو اس کے ظاہر سے زیادہ باطن کو جانچنے کی سعی کرے اور پھر اس کے والدین ،بہن بھائیوں اور عزیز و اقارب سے معاملات کا بھی جائزہ لے اور اس کی دینداری و اچھے اخلاق کو پرکھنے کے بعد انتہائی فیصلہ کا قدم اٹھائے۔عورت کی زندگی کے لیے یہ ضروری نہیں کہ تعلیم یافتہ آدمی سے شادی کرلے تو پپر مسرت زندگی بسر کرلے گی بلکہ بعید نہیں کہ انسان نے جعل سازی سے ڈگریاں تو حاصل کرلی ہوں مگر اس کے اخلاق و اس کے افعال اس کی تعلیم کے موافق نہ ہوں۔اللہ تعالیٰ نے عورت کو اختیار دیا ہے کہ وہ شادی کا فیصلہ خود کرے ۔عورت کی اجازت کے بغیر باپ بھائی میں سے کسی کو حق نہیں دیا گیا کہ وہ شادی کا فیصلہ کردے۔لہذا اس معاملہ میں ذراسی بھی پہلو تہی عورت کی زندگی کو قعر مذلت کا ٹھکانہ بنانے کے لیے کافی ہے۔شادی صرف انسانی خواہشات و شہوات کی تکمیل کی بنیاد پر نہیں کی جانی چاہیے یہ تو از خود پوری ہوہی جائیں گی ۔ اصل میں ضرورت ہے تو وہ یہ ہے کہ قرآن کریم کے اس ارشاد کو پیش نظر رکھ کر شادی اک فیصلہ کی جائے کہ جب عمر پوری ہوجائے تو شادی کرلی جائے اور اس کے لیے نیک لوگوں کا انتخاب کیا جائے۔تعلیم یافتہ عورت کو سوچنا اور سمجھنا ہوگا کہ وہ والدین کے جبرواکراہ کے ردعمل میں جو خود فیصلہ کرنے جارہی ہے آیا وہ درست ہے بھی یا نہیں اور جس کو بطور خاوند قبول کررہی ہے کیا وہ نیک و صالح ہے یا نہیں۔؟

شادی کا مسئلہ طے کرنا بہت مشکل ذمہ داری کا کام ہے ۔اور اس کے متعلقات پر خوب غور کرنے کی ضرورت ہے۔ جہاں عورت کو شادی کے متعلق غوروفکر کی ترغیب دی گئی ہے وہیں پر یہ بھی لازمی ہے کہ اہل خانہ بھی عورت پر زور زبردستی نہ کریں کہ جس شخص کو وہ ناپسند کرتی ہے یا نہیں چاہتی کے اس کے ساتھ اس کا عقد طے پائے تو اس کی جبراً شادی کا نقصان اذیت ناک شکل میں ظاہرہوگا کیونکہ اس شادی کی بنیاد نفرت پر پڑی ہے باوجود اس کے کہ وہ مر د خوش خلق و بہتر سیرت کا حامل ہی کیوں نہ ہو۔رسول اللہۖ کے پاس ایک آدمی آیا اور اس نے کہا کہ میری بیٹی کے لیے دورشتے آئے ہیں ایک مالدار ہے اور دوسرا فقیر میں کس سے بیٹی کی شادی کرائوں تو آپۖ نے استفسار کیا کہ بیٹی کی رغبت کس کی طرف ہے تو اس نے جواب دیا فقیر کی طرف رغبت ہے تو آپۖ نے حکم دیا کہ فقیر سے اس کا نکاح کراد۔

معاشرے میں عورت پر سختی بہت زیادہ خطرناک نتائج کا پیش خیمہ بنتی ہے اور موجودہ پاکستانی معاشرے میں عورت کے ہمہ جہتی حقوق سلب کرنے کی روایت جاری ہے کہ کہیں اس پر تعلیم کا دروازہ بندہوجاتاہے تو کہیں اس کی رائے کا احترام نہیں کیا جاتا۔معاشرے نے اس کے حقوق کو غصب کررکھا ہے کہ اس کو میراث میں بھی حصہ نہیں دیا جاتا۔یہ سب جرائم مسلم معاشرے میں جاری ہیں اس سب کچھ کے بعد بھیجاہل لوگ پوچھتے نظر آتے ہیں کہ طلاق کی شرح میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟!!

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

Dr Khalid Fuaad Al Azhari

تحریر: ڈاکٹر خالد فواد الازہری