تحریر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی ہندوستان میں باشعور اور تعلیم یافتہ طبقہ ان دنوں دیکھ رہا ہے کہ سارا ہندوستانی میڈیا بس اس بات کوپیش کرنے میں لگا ہوا ہے کہ ہندوستان میں طلاق ثلاثہ کو لے کر مسلم عورتوں پر بہت ظلم ہورہا ہے۔ مظلوم عورتوں نے جب اپنی فریاد سپریم کورٹ تک پہونچائی اور سپریم کورٹ نے جب حکومت سے سوال کیا کہ وہ ان عورتوں پر ہورہے ظلم کے مداوے کے لیے کیا کر رہا ہے تو حکومت نے ان عورتوں کی تائید میں سپریم کورٹ میں حلف نامہ داخل کردیا کہ وہ ایسا کوئی قانون بنائے گی جس کے ذریعے نہ صرف مسلمان بلکہ ملک کے تمام طبقات کی عورتوں پر مظالم نہ ہوں۔ لا کمیشن نے مسلمانوں سے رائے طلب کرنے کے لیے سوال نامہ جاری کیا کہ وہ اپنی رائے دیں جس پر مسلم پرسنل لا بورڈ نے ایک آواز میں یہ کہہ کر لا کمیشن کے سوال نامے کا بائیکاٹ کردیا کہ ہم حکومت کے حلف نامے اور لا کمیشن کے سوال نامے کو شریعت میں مداخلت تصور کرتے ہیں اور اسے اس سازش کا پیش خیمہ کہتے ہیں جس کے ذریعے حکومت مسلمانوں پر یکساں سیول کوڈ لانے کی کوشش کر رہی ہے حکومت نے واضح کرنے کی کوشش کی کہ حلف نامہ کا سیول کوڈ سے کوئی تعلق نہیں لیکن میڈیا کے ذریعے ملک بھر میں ایسا ماحول گرم کیا جارہاہے کہ مسلمان عورتوں پر طلاق ثلاثہ کے ذریعے ظلم ہورہاہے اور اسے فوری روکنے کے اقدامات کرنے چاہییں۔ جو لوگ گھر میں بیٹھے نیوز چینل دیکھ رہے ہیں یا اخبار پڑھتے ہیں انہیں انداز ہو رہا کہ میڈیا کے مختلف گروپوں کو اپنی ٹی آر پی بڑھانے کا ایک اچھا مسئلہ مل گیا ہے اور اسے خوب نمک مرچ لگا کر اچھالا جارہا ہے۔
اس کے لیے ہر چینل طلاق ثلاثہ کی تائید اور مخالفت میں کچھ بولنے والوں کو مدعو کر رہا ہے اور مسلم پرسنل لا اور علماء و قضائت طبقہ کو راست نشانہ بناتے ہوئے سوال کیا جارہا ہے کہ بولو آپ کیا کہتے ہیں اس بات پر کہ طلاق ثلاثہ یعنی بہ یک وقت زبانی’ ایس ایم ایس یا واٹس اپ پیغام کے ذریعے طلاق دے کر عورتوں کو جس طرح مسلم طبقے میں ظلم سے دوچار کیا جارہا ہے یہ درست ہے یا غلط۔ سوال کرنے والے پروگرام اینکرز میں سے اکثریت اس بات سے واقف نہیں ہے کہ اسلام میں طلاق ثلاثہ کی حقیقت کیا ہے۔ تین طہر میں طلاق کیا ہے اور طلاق کے بعد اگر حلالہ کے ذریعے سابقہ بیوی سے نکاح کے صورت نکالی جائے تو اس کے امکانات کیا ہیں۔ بس سیدھے سوال کیا جارہا ہے اور تائید میں کہا جارہا ہے کہ پاکستان ‘ ایران’ بنگلہ دیش اور دیگر ممالک میں طلاق ثلاثہ کو غلط قرار دیا جارہا ہے تو ہندوستان کے علماء کیوں اس کی تائید کرتے ہیں۔ میڈیا جو کل تک پاکستان کو ہندوستان کا نمبر ایک دشمن کہہ رہا تھا آج وہ مثال دے رہا ہے کہ پاکستان اسلامی جمہوریہ ہے اور ہندوستانی مسلمانوں کو اس کی تقلید کرنی چاہئے جب کہ ہندوستانی علماء نے کہہ دیا ہے کہ ہماری شریعت قرآن اور حدیث سے ثابت ہے اور ہمیں اپنی شریعت پر عمل پیرا ہونے کے لیے کسی اسلامی ملک کی مثال لینے کی ضرورت نہیں ہے اور علماء نے واضح کردیا کہ جس پاکستان کی بات کی جارہی ہے وہاں ناموس کی خاطر عورتوں پر مظالم کی بدترین مثالیں دنیا بھر میں سب سے زیادہ ہیں۔میڈیا نے اب تک کی جو تصویر بنائی ہے اس سے صاف ظاہر ہورہا ہے کہ مسلم پرسنل لا کے بشمول ہندوستان کے علماء کا وہ طبقہ جو یہ بات مانتا ہے کہ جہالت اور دیگر اسباب کی وجہہ سے کوئی مسلمان مذکورہ انداز میں تین طلاق دیتا ہے تو وہ طلاق ہوجاتی ہے لیکن اس کے بعد عورت پر جو مظالم معاشی حالات کے پیش نظر ہورہے ہیں اس کے لیے ہمارا مسلم سماج جہاں زکوة اور بیت المال کا نظام مستحکم ہونا چاہئے وہ کیا کر رہا ہے۔
اب تک کی صورتحال کا جائزہ لیا جائے تو میڈیا مسلم پرسنل لا کی اس معاملے میں طویل مدتی انفعالیت اور مسلم طبقے میں سماجی و عائلی مسائل کے حل کے لیے شرعی پنچایت اور قضائت نظام کی کمزوری کو واضح کرچکا ہے۔ اور ہندوستان میں مسلکی اعتبار سے بھی طلاق ثلاثہ معاملے میں بعض مسالک کے متضاد رویے کو بھانپ کر ہندوستانی مسلمانوں کو آپس میں بانٹنے کی سازش میں کامیاب لگتا ہے۔ ایسے میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مسلم دانشور طبقہ’علمائے کرام اور ہندوستان کا عام مسلمان اس معاملے کو کیسے حل کرے۔ سب سے پہلی یہ بات ہے کہ اس معاملے کو میڈیا کے ٹیبل پر کم سے کم لانے کی کوشش کی جائے۔ ہندوستان کے ان تمام دانشوروں سے کہا جائے کو وہ کسی میڈیا چینل پر بات کرنے جارہا ہے تو وہ چینل والے سے پہلے پوچھ لے کہ وہ اسلامی شریعت کو کس حد تک جانتا ہے ۔ طلاق کے معاملے میں اس کی معلومات کیا ہیں اور وہ ہمیں اپنی بات صاف طورپر پیش کرنے کا کس قدر موقع دے گا۔ دیکھا یہ جارہا ہے کہ میڈیا کے بعض بدنام گھرانے علما اور پرسنل لا بورڈ سے متعلق بعض احباب کو مدعو کررہے ہیں اور انہیں مکمل طور پر اپنی بات رکھنے کا موقع نہیں دے رہے ہیں۔ حقوق نسوان کی علمبردار بعض خواتین کو بلایا جارہا ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کہ یوپی بہار اور دیگر تعلیمی اعتبار سے پسماندہ ریاستوں میں عورتوں پر یکبارگی طلاق کی بے شمار مثالیں ہیں جن کی جانب علما اور مذہبی ادارے کچھ نہیں کرتے ۔ اس لیے عورتوں کو اپنے تحفظ کے لیے کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا پڑ رہا ہے۔
Divorce
اس سوال کے جواب میں علما کہہ رہے ہیں کہ طلاق ثلاثہ سے متاثرہ عورتوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر بھی نہیں ہے اور حکومت سوچے سمجھے پروگرام کے تحت اس معاملے کو ہوا دے رہی ہیں۔ ایک گوشے سے کہا گیا کہ موجودہ حکومت کو جہاں مسلمانوں کے کسی معاملے سے دلچسپی نہیں ہے وہ اچانک مسلم عورتوں کی اس قدر ہمدرد کیسے بن گئی ہے ۔ سوال کرنے والے سے پوچھا گیا کہ کیا یہ یوپی الیکشن سے قبل مسلمانوں کو اپنی جانب متوجہ دکرنی کی ایک چال تو نہیں یا یکساں سیول کوڈ کے نفاذ کی طرف ایک قدم تو نہیں۔ اس سارے معاملے کے بعد جو تصویر سامنے آتی ہے وہ مسلم طبقے کے لیے کچھ اچھی نہیں ہے۔ مسلم پرسنل لا بورڈ نے بھلے ہی لا کمیشن کے سوال نامے کے بائیکاٹ کرنے کا متفقہ اعلان کرتے ہوئے ہندوستانی مسلمانوں کی اس معاملے میں ایک آواز کو حکومت تک پہونچا دیا ہے۔ لیکن مسلم پرسنل لا بورڈ ‘ہندوستانی مسلمانوں کے تمام مسالک اور ہندوستان کے تمام شہروں میں موجود نظام قضائت کے لیے یہ وقت عمل کا ہے باتوں کا نہیں کہ وہ اٹیک اس دا بیسٹ ڈیفنس کے طور پر حقوق نسواں’عورتوں کے مظالم پر آواز اٹھانے والی تنظیموں اور عمومی طور پر سارے ہندوستان میں یہ اعلان کردے کے کن کن عورتوں پر طلاق ثلاثہ کی وجہہ سے ظلم ہوا ہے وہ آکر بتا دے ۔ اس سے اندازہ ہوگا کہ ہندوستان کے اٹھارہ کروڑ مسلمانوں میں کتنے فیصد مسلم خواتین کو اس طلاق ثلاثہ معاملے سے نقصان پہونچا ہے۔
ان عورتوں کی معاشی اعتبار سے باز آباد کاری کی جائے اور سماجی اعتبار سے ان کی شادی اور تحفظ کی بات کی جائے۔ سارے ہندوستان میں جوابی طور پر ایک تحریک کے طور پر شعور بے داری عام کی جائے کہ وہ کونسا طبقہ ہے جو تین طلاق معاملے کو اتنی آسانی سے لے رہا ہے جب کہ بنیادی طور پر تھوڑا بہت اسلام جاننے والا مسلمان بھی یہ جانتا ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وصلم نے یہ واضح کردیا کہ اچھی باتوں میں سب سے نا پسندیدہ عمل طلاق ہے۔ اس طرح کی طلاق یا مسلمانوں کے دیگر عائلی مسائل کو سب سے پہلے شرعی پنچایتوں میں پیش کیا جائے۔ مسلم پرسنل لا بورٹ’جمعیت علمائے ہند اور اوقاف کے تحت کام کرنے والے قضائت نظام کے لیے اب یہ وقت آگیا ہے کہ ہر شہر اور بڑے بڑے ٹائونس میں شرعی پنچایت نظام کو مستحکم کیا جائے۔جس میں قاضی وقت’مفتی’عالم’مسلمان وکیل اور سماجی کارکن ہوں جو دونوں فریقین میں پہلے افہام و تفہیم کرائے اور بات نا بنے تو شرعی طریقے سے طلاق یا دیگر امور کے فیصلے کیے جائیں اور دونوں فریقین کو لازمی کیا جائے کہ وہ شرعی پنچایت کے فیصلے کوایسا ہی مانے جیسا کہ کورٹ کے فیصلے کو مانتے ہیں۔ہندوستان کے بعض شہروں میں شرعی پنچایت کا نظام ہے لیکن اسے مسلکی اختلافات میں الجھا کر کمزور کیا گیا ہے اس کے لیے بین مسلکی شرعی پنچایت بنائی جائے تو بھی بہتر ہوگا۔ لیکن موجودہ صورتحال کے حل اور لوگوں کے سامنے اچھی تصویر پیش کرنے کے لیے یہ کام از حد ضروری ہے اور اسے فوری عمل میں لایا جائے۔
عمومی طور پر جب بین مذاہب کا سروے کیا جاتا ہے تو یہ بات سامنے آتی ہے کہ مسلمانوں میں طلاق کی سب سے کم شرح ہے ۔مسلمانوں کے تعدد ازدواج معاملے کو بھی لایا گیا کہ مسلمان مرد زیادہ شادیاں کرکے عورتوں پر ظلم کر رہا ہے تو واضح کیا جائے کہ تعدد ازدواج کی اکثر مثالیں عورت کو تحفظ دینے کے لیے ہیں نہ کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل یا پہلی عورت پر ظلم کرن کے لیے۔ سماج پر یہ بھی واضح کردیا جائے کہ مسلمانوں میں زنا کاری سب سے کم ہے جب کہ دیگر سماج میں جہاں تعدد ازدواج پر پابندی یہ وہاںزنا کاری اور عورتوں پر مظالم کس قدر زیادہ ہیں۔ تمام شہروں اور دیہاتوں میں جلسوں کے انعقاد کے ذریعے اس بات کو عام کیا جائے کہ اسلام دین فطرت ہے جہاں اس نے شادی بیاہ اور زندگی کے تمام امور میں آسانی رکھی ہے وہیں اس نے میاں بیوی میں علٰحیدگی کی ناپسندیدہ صورت میں بھی طلاق کا احسن طریقہ طویل وقفہ والا رکھا ہے۔ میڈیا کے مباحث میں مسلمانوں کی طرف سے بات کرتے ہوئے کسی نے یہ سوال نہیں کیا کہ اگر حکومت مسلم عورتوں کے مظالم کو کم کرنے کے لیے کسی قسم کی قانون سازی کرتی ہے تو اس کی نوعیت کیا ہوگی۔کیوں کہ جب یہ سوال اٹھایا گیا کہ ہندوستان میں ہر قسم کا قانون رکھنے کے باوجود جرائم کی تعداد کم نہیں ہوتی تو اس معاملے میں قانون سازی کے بعد طلاق دینے والے مرد کو کیا سزا ہوگی یا اسے کیسے طلاق جیسے عمل سے روکا جائے گا۔ جب کو وہ شراب کی نشے میں یا کسی اور وجہہ سے طلاق دے رہا ہو اسے کس قانون کے تحت پابند کیا جائے گا کہ وہ طلاق نہ دے۔ لیکن اس کا کوئی جواب نہیں دیا گیا کہ حکومت آخر کس قسم کی قانون سازی لانا چاہتی ہے۔ جب کہ اس کے ماننے والے بھی تو ہوں۔
Muslim Intellectuals
میڈیا کے اس یک طرفہ حملے کے جواب کے طور پر مسلم دانشوروں کو متحد ہونا ہوگا اور انہیں میڈیا کے سامنا کرنے سے قبل اپنے آپ کو علمی اعتبار سے مکمل تیار ہوکر جانا ہوگا یا یہ کہہ دیا جائے کہ ہم میڈیا کے ذریعے اس معاملے پر بات کرنا نہیں چاہتے ۔ یہ کام ہندوستانی علماء اور پرسنل لا بورڈ کا ہے کہ وہ اس معاملے کو دیکھے۔ علمائے کرام کی جانب سے کہا گیا کہ اس معاملے کے حل کے لیے مسلمانوں کے اس طبقے کی شعور بیدار ی کی جائے گی جو کم علمی’دین سے دوری کے سبب اس قسم کی حرکت کر رہا ہے۔ موجودہ صورتحال میں مسلم دانشور طبقے کو کئی طرف سے جاگنے کی ضرورت ہے۔ پہلے یہ کہ دانشور طبقہ میڈیا کا مہرہ نا بنے اور اس طبقے سے ہوشیار رہے جو مسلمانوں کی صفوں میں دراڑ ڈالنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ارنب گو سوامی کے ایک سوال پر جب ایک مسلم دانشور نے کہا کہ طلاق کا احسن طریقہ تین مہینوں میں الگ الگ طلاق دینے کا ہے تو اسلامی شریعت سے ناواقف ارنب گوسوامی نے مذاق کرتے ہوئے کہا کہ کیا طلاق ای ایم آئی ہے جو قسط وار دی جاتی ہے۔ یہ بات کسی نے نوٹ نہیں کی جب کہ ایک مباحثے میں کہا گیا اور یوٹیوب پر یہ ویڈیو موجود ہے۔
مسلمان میڈیا پر اپنی شرائط اور سامنے والے کے اسلامی شریعت سے واقفیت کی بنا بات کریں۔ دوسرے یہ کہ اسلامی شریعت کو بہتر طور پر پیش کرنے کے لیے اپنا کوئی میڈیا ہائوز ہو یا کسی ہم خیال چینل سے بات کی جائے۔ این ڈی ٹی وی کے راوش کمار نے نلسار یونیورسٹی کے وائس چانسلر سے اس معاملے پر اچھی بات کی ہے۔ چنانچہ مسلم پرسنل لا بورڈ اور مسلم دانشور طبقہ اس طرح کے پلیٹ فارم سے اپنی بات واضح کرے۔ جمعیت علمائے ہند کے پلیٹ فارم سے سارے ملک میں اس تعلق سے شعور بیداری مہم چلائی جائے۔ مسلمانوں کا سنجیدہ طبقہ جو انگریزی میں لکھ سکتا ہے اور بول سکتا ہے وہ اس پہلو کو اپنی تحریروں سے واضح کرے۔ سیاسی سطح پر حکومت کے خلاف جوشیلے بیانات دینے کے بجائے حکومت سے پوچھا جائے کہ مسلم عورتوں کے مظالم پر مگر مچھ کے آنسو بہانے والی حکومت مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کو دور کرنے کے لیے کیا کرے گی کیوں کہ طلاق کی بنیادی وجہہ معاشی بدحالی ہے۔ یہ اچھا موقع ہے کہ ہندوستانی مسلمان مسلکی اختلافات کو بالائے طاق رکھ کر اور اس بات پر دورائے نا رکھتے ہوئے کہ ایک مجلس میں دی جانے والی تین طلاقیں واقع ہوتی ہیں یا نہیں اجتماعی طور پر ہندوستان میں مسلمانوں کی معاشی ‘سماجی’سیاسی ترقی کے لیے لائحہ عمل تیار کریں اور حکومت سے اپنے اختیارات کا مطالبہ کریں۔ جو لوگ قانون جانتے ہیں وہ حکومت اور سپریم کورٹ تک اپنی آواز پہونچائیں کہ جب دستور ہند مسلمانوں کو اپنے مذہب پر چلنے کی مکمل آزادی دیتا ہے تو مسلمانوں کو شادی بیاہ اور طلاق جیسے معاملے میں حکومت یا سپریم کورٹ کی ہدایت کی کیوں ضرو رت ہے۔
Supreme Court
اس معاملے کو لے کر سپریم کورٹ میں جوابی عرضی داخل کی جائے اور سپریم کورٹ سے پوچھا جائے کہ مسلمانوں کے لیے ہندوستان میں دستوری تحفظ ہے کہ نہیں۔ مسلم دانشور اور پرسنل لا بورڈ ان انفرادی گروپوں سے بھی نمٹے جو یہ تصویر پیش کر رہے ہیں کہ ہندوستانی مسلمان عورت کے ساتھ کھلواڑ ہورہا ہے۔ مختلف چینلوں پر جو خواتین بات کرتی نظر آرہی ہیں ان کا کہنا ہے کہ طلاق ثلاثہ سے متاثرہ عورتوں کے لیے کوئی نظام نہیں ہے۔ اس جانب بھی توجہ کی ضرورت ہے۔ ایک اور اہم پہلو جسے نشانہ بنایا جارہا ہے وہ فوری توجہ طلب ہے کہ ایس ایم ایس ‘واٹس اپ یا کسی اور ذریعے سے جب کسی عورت کو طلاق نامہ ملتا ہے تو اس کا فیصلہ کیسے کیا جائے کہ طلاق واقع ہوئی یا نہیں ۔ جب کہ فقہی سوالات میں یہ سوال بھی پیش ہوا کہ کسی خاتون کے مرد کا فون اس کے دوست نے لے لیا اور اس فون سے طلاق بھیج دی گئی۔ مرد کو پتہ ہی نہیں کہ اس کے فون سے طلاق نامہ گیا اور عورت جب قاضی یا عالم کے پاس جاتی ہے تو اس کے طلاق کی تصدیق ہوجاتی ہے۔ نئے زمانے کے اس طرح کے مسائل پر اجتہاد کی ضرورت ہے۔ جب کہ اللہ کہ رسول صلی اللہ علیہ وصلم کے زمانے کی دو مثالیں احادیث میں ملتی ہیں کہ ایک میں ایک صحابی نے تین طلاق دی تھی لیکن اللہ کے رسول کے پاس کہا تھا کہ ان کا انداز تاکید کا تھا اور وہ پہلی طلاق کا ہی انداز تھا جس پر طلاق واقع قرار نہیں دی گئی اور ایک معاملے میں تین طلاق پر آپۖ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا جس سے علما نے یہ بات اخذ کی کہ جب طلاق واقع ہوئی تب ہی آپ ۖ نے شدید ناراضگی کا اظہار کیا۔
ان حالات میں الیکٹرانک ذرائع یا پوسٹ کے ذریعے دی گئی طلاق کے واقع ہونے کے سلسلے میں عورت کے تحفظ کے لیے کیا پہلو ہیں ان کی وضاحت مظلوم عورتوں کے علاوہ حقوق نسوان کی علمبردار خواتین اور تنظیموں کو کرنی ضروری ہے ۔ اس کے علاوہ سب سے اہم بات یہ ہے کہ دین سے دوری کے سبب یہ تمام باتیں سامنے آرہی ہیں۔ اس لیے دعوت دین اور لوگوں میں شریعت کی پابندی کے لیے ایمانی محنت کو عام کرنا بھی وقت کا اہم تقاضہ ہے موجودہ حالات مسلمانان ہند کے لیے ایک طرف امتحان ہیں تو دوسری طرف ایک موقع ہیں کہ وہ اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرلیں۔ دین کی دعوت کو عام کریں۔ مسلکی اختلافات سے بالا تر ہوکر ہم متحد ہوجائیں۔ اور فطری زندگی کے سکون کے لیے تڑپ رہی انسانیت کے سامنے ایسی تصویر پیش کردیں کہ نہ صرف شادی بیاہ اور طلاق بلکہ زندگی کے ہر معاملے میں اسلامی تعلیمات ہی سب کے لیے سکون کا باعث ہیں۔ میڈیا نے جو واویلا مچایا ہے اس کا سنجیدگی سے جواب دیا جائے اور سیاسی و مذہبی طور پر مسلمان متحد ہوں تو ہی وہ اپنے مسائل کا حل کرسکتے ہیں۔
Dr Mohammad Aslam Farooqi
تحریر: ڈاکٹر محمد اسلم فاروقی صدر شعبہ اردو گری راج کالج نظام آباد تلنگانہ اسٹیٹ