الریاض (جیوڈیسک) سعودی عرب میں ایک نیا قانون لاگو ہو گیا ہے جس کے تحت شوہر کے لیے یہ ضروری ہو گیا ہے کہ وہ طلاق سے قبل اپنی بیوی کو تحریری طور پر اس بارے میں مطلع کرے۔ اس قانون کا مقصد خواتین کے حقوق کی حفاظت کرنا ہے۔
سعودی عرب میں چھ جنوری سے لاگو ہونے والے ایک قانون کے مطابق یہ لازمی ہو گیا ہے کہ طلاق دینے سے قبل شوہر اپنی بیوی کو بذریعہ ٹیکسٹ میسیج اس فیصلے کے بارے میں آگاہ کرے۔ سعودی حکومت کے مطابق اس قانون کا مقصد خواتین کو ان کے علم میں آئے بغیر طلاق دیے جانے کے واقعات سے بچانا ہے۔
تھامسن روئٹرز فاؤنڈیشن کے مطابق اس نئے قانون کے بعد سعودی مردوں کے لیے یہ ناممکن ہو گیا ہے کہ وہ اپنی بیویوں کو ان کی لا علمی میں ہی طلاق دے دیں۔ اس طرح اب یہ خواتین نہ صرف اپنی ازدواجی حیثیت کے بارے میں آگاہ ہوں گی بلکہ ان کے لیے اپنے نان نفقہ سمیت دیگر حقوق کا تحفظ کرنا بھی آسان ہو جائے گا۔
یہ نیا قانون بھی سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کی طرف سے ملک میں خواتین کو مزید حقوق دینے کی کوششوں کا حصہ ہے۔ قبل ازیں اس قدامت پسند ملک میں خواتین کو ڈرائیونگ کی اجازت بھی مل چکی ہے اور اب وہ اسٹڈیم یا سنیما ہال بھی جا سکتی ہیں۔ انہیں مقامی انتخابات میں ووٹ ڈالنے کا حق بھی مل چکا ہے جبکہ ملازمت کی جگہوں پر بھی وہ اب بہتر پوزیشن پر کام کر سکتی ہیں۔
سعودی وزارت انصاف کی طرف سے اتوار چھ جنوری کو اس کی ویب سائٹ پر جاری ہونے والے بیان کے مطابق، ’’سعودی عدالتوں نے (طلاق کے) ایسے نوٹس بھیجنا شروع کر دیے ہیں۔۔۔ ایک قدم جس کا مقصد خواتین کے حقوق کی حفاظت ہے۔‘‘
اس بیان کے مطابق اب خواتین اپنی ازدواجی حیثیت اس وزارت کی ویب سائٹ پر بھی دیکھ سکتی ہیں اور وہ متعلقہ عدالت سے طلاق کے کاغذات کی نقل بھی حاصل کر سکتی ہیں۔
انسانی حقوق کے عالمی گروپ ’ایکوئیلیٹی ناؤ‘ سے تعلق رکھنے والی سعاد ابو دية کے مطابق، ’’زیادہ تر عرب ممالک میں مرد اپنی بیویوں کو کبھی بھی طلاق دے سکتے ہیں۔۔۔ اب کم از کم ان خواتین کو معلوم ہو گا کہ انہیں طلاق دی جا چکی ہے یا نہیں۔ یہ ایک چھوٹا سے قدم ہے مگر یہ درست سمت میں ایک قدم ہے۔‘‘
سعاد ابو دية کے مطابق تاہم طلاق کے بارے میں آگاہی ملنے کا یہ مطلب نہیں کہ انہیں نان نفقہ ملے گا یہ انہیں بچوں کی کفالت مل جائے گی۔