تحریر : رفعت خان زمانے میں ہر انسان کو جہاں خوشیاں ملتی ہیں تو غم بھی ملتے ہیں ،خوشیوں کا وقت مختصر ہوا کرتا ہے اور غم کے اندھیرے بہت طویل۔ مگر کچھ انسانوں کے مقدر میں صرف غم ہی غم ہوا کرتے ہیں اور پھر یہ کہنا بھی تو غلط نہیں کہ ایسے لوگ ہی مقدر کا سکندر ٹھہرتے ہیں۔ اک تمنا ،اک خواہش ،اک امیداور ایک آس،الگ الگ الفاظ مگر حاصل ایک ہی ہے ۔بڑے سے بڑے لوگ بھی کسی نہ کسی چیز کا رونا روتے ہیں اور غریب بھی اپنی ضرورت کو روتا ہے مگر اکثر دیکھنے کو ملتا ہے کہ بڑا آدمی چھوٹے آدمی کے رونے کی وجہ بنتا ہے اور غریب آدمی اکثر بڑے آدمی کے دکھوں کا مداوا بنتا ہے ۔ ہمیں چاہیے کے ہم دوسروں کے دکھ درد بانٹیں اگر ہم کسی کو کچھ نہیں دے سکتے تو کم از کم کسی کے دکھ کی وجہ بھی نہ بنیں۔
ایک دن کسی بڑے آدمی کا ستایا ہوا ضروریاتِ زندگی کی خواہشات کا پابند ایک غریب انسان بہت مجبور بے بس غموں سے چور اپنے دکھ مجھ سے بیان کرنے لگا اُس کے ایک ایک لفظ میں سچائی جھلک رہی تھی اس کے سارے غم اسکی آنکھوںمیںامڈ آئے تھے میں اس کے دکھ محسوس کر رہی تھی ،لمحہ بھر کو مجھے لگا کہ ! جیسے یہ سب میرے ساتھ ہوا ہو۔اس کے الفاظ تھے یا اسکے دکھ جوکچھ بھی تھا اسکے دل کی ترجمانی کرتے ہوئے اسکے غموں کی عکاسی کر رہے تھے۔ کاش میں اس شریف النفس انسان کے لیے کچھ کر سکوں ،،، مگر میں تو کچھ نہیں کر سکتی یہ سوچ ہی رہی تھی کہ میرے ضمیر نے مجھے پکارا ! میرا ضمیر:کیا اس شریف النفس انسان کو دکھوں سے باہر نکالنا چاہتی ہو ؟
میں: ہاں میرا ضمیر: مگر تم ناکام ہو گئی تو؟ میں:مگر ایسا کیوں؟ کیونکہ اس کی زندگی میں ہمیشہ غم، دکھ، درد ہی آئے ہیں ۔ہر عام و خاص نے اسے دکھ دینے کی ٹھان رکھی ہے کیونکہ یہ مفلس ہے دکھ سہتے سہتے اب یہ زندگی کی تمنا کرنے سے خوف ذدہ رہتا ہے مگرخودار ایسا کے کسی ظالم کے آگے نہیں جھکتا اس کے گھر میں بارہ افراد اور یہ واحد خود کفیل ہے اپنی دال روٹی میں خوش ہے بس یہ اس احساس جرم میںجکڑا ہوا ہے کہ شاید اس کی مفلسی کی وجہ سے دنیا والے اس پہ دنیا تنگ کر رہے ہیںیہی سوچ اسے خواہشات کا پابند کیے جا رہی ہے ۔ اسے ایسا درس دینا ہوگا کہ یہ اس دنیا کو سمجھ سکے اور جینے کی تمنا کر سکے ۔لوگوں کے طعنے ،نا انصافی ،الزام ،بے دردی سب برداشت کر کے خود کو اس دنیا کا حصہ سمجھ سکے۔ میں:تو میں ایسا کیا کروں؟
Politics
میرا ضمیر: اسے کہو سیاست کو سمجھنا شروع کر دو۔ یہ میرے ضمیر کی تجویز تھی جو میں نے اس شریف النفس انسان کو دے دی مگر اس کے جانے کے بعد میں خود اُلجھ کر رہ گئی کہ آخر کار اسکے دکھوں ،غموں۔بے بسی ،درد،طعنے الزام تراشی، اور خواہشات کا سیاست سے کیا تعلق ہو سکتا ہے؟ دو دن بعد وہ انسان دوبارہ میرے پاس آیا مسکراتا ہوا اپنے ننھے منے بچوں کے ساتھ بہت ہی خوش لگ رہا تھا آج بھی مجھے اسکے ایک ایک لفظ میں سچائی کی کونپل پھوٹتی محسوس ہوئی، میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگا آپ کے دلاسہ دینے سے میری زندگی بہت آسان ہو گئی ہے اب میں احساسِ کمتری سے باہر نکل آیا ہوںبلکہ اب میں خود کو بہت با عزت با شعور اور پر سکون زندگی کا مالک سمجھنے لگا ہوں ۔ میری سوچ یکثربدل گئی ہے اب میں خدا کا بہت بہت شکر ادا کرتا ہوں کہ میں ان لمبی لمبی گاڑیوں بڑے بڑے بنگلوں میں رہنے والوں سے بہت بہتر ہوں۔
اب میں دوسروں کی باتو ں کی پرواہ نہیں کرتا دل لگاکر محنت مزدوری کرتا ہوں اور سکون محسوس کرتا ہوں ۔ سیاست میں آکر تجوریاں بھرنے والوں کے نرم بستر ہوتے ہوئے بھی ان لوگوں کو سکون نہیں ہوتا اور پھر بھی مذید خواہشوں کے غلام ہو کر زندگی گزارتے ہیں ؟روپیہ اکٹھا کرتے ہیں جسکا حساب تو قبر میں خود دینا ہوگا اور اگر کبھی کسی پر کچھ پیسے خرچ کر بھی دیں تو کسی پر کوئی احسان نہیں ہوتا ،اپنی اپنی جگہ ہر کوئی خو د کو عزت دار کہتا ہے اور خود ہی ایک دوسرے کی عزت کے جنازے نکال رہے ہوتے ہیں ،یہاں تک کے انکی زندگیاں اتنی مشکل ہو جاتی ہیں کہ یہ لوگ اکیلے ایک گلی سے دوسری گلی تک جانے سے قاصر ہوتے ہیں اور اگر جانا ہو تو چار چار باڈی گارڈ کو ہمرہ لے کر جانا پڑتا ہے مگر ان کے اندر کا خوف باڈی گارڈ بھی نہیں بھگا سکتے۔
Labor
ان سے بہتر تو میں ہوں دن بھر محنت مزدوری کر کے جب گھر جاتا ہوں تو بچوں کی پر خلوص مسکراہٹ ساری تھکن مٹا دیتی ہے بے فکر ہو کر ماں کے قدموں میں کچھ پل بیتا کر ڈھیروں دعائوں سے لبریز ہوجاتا ہوں ۔بیوی کے بنے ہاتھ کا کھانا ٹائم پر ملتا ہے دال ہی سہی مگر خلوص ومحبت اور محنت کے ذائقے کا اپنا ہی ایک مزہ ہوتاہے ۔بہن بھائیوں کو کبھی کو ئی شکواہ نہیں ہوتا کہ انکے لیے ٹائم نہیں ،ہمیشہ سب کو ٹائم دیتا ہوں،اور پھر رات کی پرُ سکون نیند نہ چوری کا ڈر نہ ہی گرفتاری کا خوف۔ اور اب تو مجھے لوگوں کے ملنے والے درد ، مفلسی کے طعنوں ، جھوٹے الزامات کی بھی پرواہ بھی نہیں رہی کیونکہ جب بڑے عزت دار سیاسی لوگ اتنا کچھ سہہ سکتے ہیں توہم کیوں نہیں ۔آج میں اتنا جان گیا ہوں ہماری زندگی بڑے اور سیاسی لوگوں سے بہت بہتر ہے ۔ سیاسی لوگوں کی تجوریاں بھری ہونے کے باوجود غریبوں کے لیے خالی ہی ہوتی ہیں مگر آپ کی تجوری سے مجھے بہت کچھ ملا ہے ،،، آپ کا دلاسہ سر آنکھوں پر۔۔۔۔