شیخ محمد ابراہیم المعروف صائم چشتی

Allama Saem Chishti

Allama Saem Chishti

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ، دبئی
ارض پاکستان، ہر دور میں اہل کمال سے مزین رہی ہے ۔علوم وفنون کا ہر شعبہ مادرِ وطن کے نامور سپوتوں سے جگمگاتا رہا ہے اور کرہء ارضی کا ہر گوشہ ،پاک سرزمین کے انہی باکمال وبے مثال لوگوں سے چھلک رہا ہے ۔خدمت انسانی ہو یا فلاح معاشرہ ،علم وعمل کے یہ پیکر ہرشعبہ ء زندگانی میں اپنی قابلیت وکاملیت کے جھنڈے گاڑتے دکھائی دیتے ہیں ۔ایسے ہی بے مثل وبے نظیر لوگوں میں ایک گراں منزلت نام حضر ت علامہ صائم چشتی اعلی اللہ مقامہ کا ہے جنہوں نے تفسیر قرآن،شرح حدیث ِنبوی ،تحقیق ،ترجمہ ،تبلیغ دین ،ادب اور نعتیہ شاعری میں بھرپور طریقہ سے اپنی بلند پایہ شخصیت کو منوایا ہے۔

پیدائش وتعلیم
آپ ٢٥دسمبر،١٩٣٢ء میں ایک مذہبی گھرانے میںپیدا ہوئے ۔محمد ابراہیم نام رکھا گیا ۔آپ کے والد کا نام شیخ محمد اسما عیل تھا ۔آپ کا آبائی قصبہ گنڈی ونڈنزد سرائے امانت خان،تھانہ جھبال ، تحصیل ترنتارن ،ضلع امرتسر تھا ۔آپ نے قرآن پاک کی ناظرہ تعلیم والد بزرگوار سے حاصل کی ۔تعلیمی لحاظ سے آپ ذہین اور محنت پسند تھے ۔رات دیر تک مطالعہ کرنے کی عادت کم عمری سے تھی ۔ پرائمری تعلیم گنڈی ونڈ میں مکمل کی اور جامعہ رضویہ مظہر الاسلام ،فیصل آباد میں سید منصور شاہ سے صرف ونحواور علوم متداولہ کا آٹھ سالہ کورس ،دو سال میں مکمل کیا ۔١٩٧٠ء میں مولانا غلام رسول رضوی سے دورہ حدیث کیا ۔علوم دینیہ کے علاوہ طبیہ کالج سے طب یونانی میں ڈپلومہ حاصل کیا۔

ازدواج واولاد
١٩٤٨ء میں آپ نے بی بی غلام فاطمہ سے عقد کیا جن سے تین صاحبزادے محمدلطیف ساجد،شفیق مجاہد اور توصیف حیدر اور تین صاحبزادیاں متولد ہوئیں ۔آپ کی اولاد بھی آپ ہی کے نقش قدم پر ہے اور آپ کے انمول ورثہ کی حفاظت کرتے آپ کے افکار کی ترویج واشاعت میں کوشاں ہے۔

حج بیت اللہ
آپ ١٩٧٨ء کو پہلی مرتبہ حج بیت اللہ کو تشریف لے گئے اور بارگاہ رسالت ۖمیں حاضری دی۔

Bazm e Saem International

Bazm e Saem International

تصانیف
آپ کی تمام گرانقدر تصانیف منفرد اور امتیازی حیثیت کی حامل ہیں ۔آپ کی تحقیق وتحریر کا سفر ”محمد کا در ،چھوڑ کر جانے والو ”سے شروع ہو کر ”ن والقلم ”تک ہے ۔آپ کی تحقیق،محققین کے لئے مستند حوالے کا درجہ رکھتی ہے ۔آپ کی معرکة الآرا تصانیف میں البتول ،مشکل کشا،ایمان ابی طالب ،شہید ابن شہید،گیارہویں شریف ،المدد یا رسول اللہ ، خطبات چشتیہ سرفہرست ہیں ۔محتاط اندازے کے مطابق آپ کی کل نثری وشعری کتب پانچ سو کے قریب ہیں جن میں نعت ومنقبت ،سیرت وسوانح،تاریخ وتحقیق ،تراجم اور لغت کی کتب شامل ہیں ۔ آپ نے کئی اداروں کا کام تنہا سرانجام دیا ۔آپ کی پنجابی کتب کی فہرست ڈاکٹر شہباز ملک نے پنجاب یونیورسٹی کے زیر اہتمام چھپنے والی ”پنجابی کتابیات ” میں شامل کی ہے۔

شاعری
آپ فیصل آباد کی سرزمین سے نعتیہ ادب کے افق پر جلوہ افروز ہوئے ۔جس وقت انہوں نے نعتیہ کلام کا آغاز کیا اس وقت فیصل آباد میں نعت گوئی کی روایت کم کم تھی ۔ آپ نے سینکڑوں مجموعہ ہائے نعت کا گلدستہ بارگاہ نبوی میں پیش کیا جن میں نعت ،قصائد ،مناقب،دوہڑے ،رباعیات کے مجموعے شامل ہیں ۔آپ نے نعت گوئی کے لئے تحریک کے طور پہ کام کیا جس باعث آج فیصل آباد ”شہر نعت ” کہلاتا ہے ۔ آپ ہی کے کلام کی ادائیگی نے خان نصرت فتح علی خان کو بین الاقوامی شہرت حاصل کی۔کلام صائم نے صدائے نصرت اور صدائے نصرت نے کلام صائم کوجاوداں کرد یا۔

آپ کے مجموعہ ہائے کلام میں نور دا ظہور،نوائے صائم (چار حصے)،ہے کعبہ وی جھکدا محمد ۖدے در تے ،روح کائنات ،جان کائنات ،نور ای نور ،نور دے خزینے ،صائم دے دوہڑے ،صائم دیاں رباعیاں ،کعبے دا کعبہ ،جلوے ،نظارے ،میخانہ ،نور دا چشمہ ،کربلائی دوہڑے ،زینب دا وِیر،خاتون ِجنت قابل ذکر ہیں۔

Khasaes e Ali r.a

Khasaes e Ali r.a

تراجم
آپ نے دقیق ترین عربی وفارسی کتب کے اردو زبان میں ترجمے کئے جن میں تفسیر کبیر (فخر الدین رازی)،تفسیر خازن (خازن بغدادی )،تفسیر ابن عربی (شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی )،فتوحات مکیہ (شیخ الاکبر محی الدین ابن عربی )،کتاب النفس والروح ( فخر الدین رازی )،خصائص نسائی فی فضائل مرتضوی (امام نسائی )،مسالک الحنفاء والدین مصطفٰی ۖ(جلال الدین سیوطی )،الریاض النظرہ فی مناقب عشرہ (محب طبری )،

دفع الوسواس فی قال بعد الناس (علی قاری )،الشرف المئوبد لآل محمد (امام نبھانی )،مناجات غزالی (امام غزالی )،سیرت نبویہ (قاضی دھلان مکی )،قصیدہ امینیہ (سید امین شاہ )،قصیدہ بردہ شریف منظوم (امام بوصیری)،روضة الشہداء (حسین واعظ کاشفی )،فتاویٰ شاہ رفیع الدین ( شاہ رفیع الدین )،ہدیة المہدی (علامہ وحید الزمان ) ،یک روزہ (اسماعیل دہلوی )،کتاب المغازی (علامہ واقدی) ،مثنوی نور ہدایت (علامہ حامد الوارثی )،سیرت دحلانیہ (قاضی احمد بن زین دحلان مکی )،اسنٰی المطالب فی نجات ابوطالب(قاضی احمدبن زین دحلان مکی) شامل ہیں ۔آپ نے تقریباََساٹھ عربی کتب اور آٹھ فارسی کتب کا اردو زبان میں ترجمہ فرمایا۔

آپ کی ترجمہ نگاری
ترجمہ نگاری اصناف ادب میں انتہائی اہمیت کی حامل ہے ۔قرآن پاک کا نزول عربی زبان میںہو اتو دوسری زبانوں میں ترجمہ کیا گیا ۔احادیث نبوی شریف کے تراجم دنیا کی کئی زبانوں میں ہوئے ۔تبلیغ اسلام میں ترجمہ نگاری کی اہمیت مسلم ہے ۔فی زمانہ عربی وفارسی زبانوں کی طرف عدم توجہ کے باعث لاتعداد کتب عام لوگوں کی پہنچ سے دور تھیں اوراس امر کی اشد ضرورت تھی کہ ان کے تراجم اردو زبان میں ہوں۔

Saem Chishti Road, Faisalabad

Saem Chishti Road, Faisalabad

حضرت صائم نے اس اہم کام کا ذمہ لیا اور تن تنہا گرانقدر کام کیا ۔آپ نے ان کتب کا نتخاب کیا جن کے نہ صرف تراجم پہلے نہیںہوئے تھے بلکہ اصل کتب بھی پاک وہند میں دستیاب نہیں تھیں ۔ ان میں تفسیر ،حدیث، تاریخ،سیرت ،تصوف اور ادب کی عظیم کتب شامل ہیں ۔آپ کے تراجم کی خصوصیت یہ ہے کہ آپ نے سہل نگاری کے ساتھ ساتھ اصل کتاب کے متن کو ترجمہ سے قریب تر رکھا ہے جس باعث اصل مضامین کمی بیشی کا شکار نہیں ہوئے ۔آپ نے آیات مبارکہ اور احادیث شریف کے ساتھ کتب کا عربی متن بھی شامل کیا ہے تا کہ قارئین اصل عبارت کے ساتھ ترجمے کا موازنہ کر سکیں اور علمائے کرام اصل عبارت سے استفادہ کر سکیں ۔اس انداز نے نہ صرف ترجمہ عوام تک پہنچایا ہے بلکہ اصل کتاب بھی محفوظ ہو کر اگلے زمانوں تک کے لئے مفید ہو گئی ہے ۔آپ اردووپنجابی نظم و نثر کے بے تاج بادشاہ ہیں ۔آپ کی جملہ کتب چشتیہ کتب خانہ ،ارشدمارکیٹ، جھنگ بازار ، فیصل آباد سے دستیاب ہیں۔

زبان خلق
سابق وفاقی وزیر،ممتاز عالم دین مولانا کوثر نیازی ،صائم صاحب کی لاجواب تصنیف” ایمان ابو طالب ”کی تقریظ میں رقمطراز ہیں،
حضرت علامہ صائم چشتی کی کتاب ”ایمان ابو طالب ”یقیناان کے لئے ذریعہء نجات ثابت ہو گی ۔یہ عاشقان رسول اور محبان آل رسول کے لئے ایک انمول تحفہ ہے ۔ اس موضوع پر اولین وآخرین میں سے آج تک کسی نے ایسی جامع علمی تصنیف پیش نہیں کی ۔

آپ نے١٩٦٢ء میں سید محمد امین علی شاہ صاحب کے قصیدہ امینیہ کاا ردو ترجمہ کیا جس کے بارے میں سید محمد امین علی شاہ صاحب کا کہنا ہے کہ میں عربی عبارت پڑھتا تھا اور علامہ صائم صاحب اس کا فی البدیہہ ترجمہ کرتے جاتے تھے ۔سید امین اس قصیدہ کے پیش لفظ میں لکھتے ہیں ،

Rozatush Shohada

Rozatush Shohada

”حضرت صائم چشتی مد ظلہ العالی کا تہ دل سے ممنو ن و مشکور ہوں کہ جنہوں نے نہایت فصاحت وبلاغت کے ساتھ عارفانہ وعاشقانہ ترجمہ سپرد قلم فرمایا اور میرے ارادہ ونیت میں میرا ہاتھ بٹایا اور حقیقت یہ ہے کہ آپ کا یہ عاشقانہ ترجمہ ،بے نظیر ولاجواب ہے ،
ہر لفظ خوب تر ہے ہر اک شعر خوب تر طرزِ بیاں شگفتہ وشفتہ وپراثر آپ کے ترجمہ میں جو سوز وگداز ہے اس کا اندازہ قارئین خود لگائیں اور مزید خوبی یہ ہے کہ آپ کا اردو ترجمہ ،عربی کے وزن وبحر کے عین مطابق اور وہی طرز ادا ہے ”۔

حضرت علامہ صائم چشتی نے شیخ الاکبر محی الدین ابوبکر محمد بن علی الطائی کی تصوف پر معرکة الآرا ء کتاب ”فتوحات مکیہ ”کا اردو ترجمہ کیا جو چھ جلدوں میں چھپ چکا ہے ۔ آپ کا یہی ترجمہ انڈیا میں اعتقاد پبلشنگ کمپنی نے شائع کیا ۔دیباچہ لکھتے ہوئے ڈاکٹر محمد اسحاق قریشی کہتے ہیں ،

”فتوحات مکیہ ان امتیازی اوصاف کی بنا پر ہر دور میں علماء وصوفیاء کی توجہ کا مرکز رہی ہے ۔۔درسگاہوں اور روحانی تربیت گاہوں میں اس کی باقاعدہ تدریس ہوتی رہی ہے ۔برصغیر کے قارئین بھی اس کی لطافتوں سے آشنا ہیں لیکن وہ طبقہ جو عربی زبان سے کما حقہ واقف نہ تھا احسا س محرومی کا شکار رہا ۔چاہت کے باوجود اور محبت کے بے پناہ جذبات کے باوصف زبان کی غیریت سد ِراہ رہی ۔
ضرورت تھی کہ اس عظیم علمی اور روحانی سرمائے کو اردودان اصحاب کے لئے پیش کیا جائے ،بحمد اللہ یہ سعادت ہمارے دوست اور کرم فرما جناب علامہ صائم چشتی کو حاصل ہوئی ۔فتوحات مکیہ کا ترجمہ ایک بہت بڑی جرات ہے ۔اس کے لئے ایک ایسے انسان کی ضرورت تھی جو علم وادب کی وادیوں کا راہی اور تصوف ودین کے نشیب وفراز سے آگاہ ہو ۔

Kulliyat e Saem Chishti

Kulliyat e Saem Chishti

علامہ صائم چشتی پنجابی زبان کے نمائندہ شاعر ہیں ۔اردو نظم ونثر میںان کا قلم بے تکان کئی مشکل مراحل سے گزرا ہے ۔چشتی نسبت سے اور ذاتی میلان کی وجہ سے ان میں تصوف رموز واوقاف سمجھنے کی صلاحیت ہے ۔انہوں نے نظم ونثر میں متعدد کتابیں تالیف کی ہیں جن میں فنی مسائل سے لے کر علمی وادبی نگارشات سب شامل ہیں ۔فقہ،تاریخ ، سیر میں ان کے قلم سے کئی الجھے ہوئے مسائل پر ضغیم کتب تحریر ہوئی ہیں ،عمر بھر کے تجربے اور گداز کے بعد انہوں ے یہ بیڑا اٹھایا ہے کہ شیخ اکبر کی نمائندہ کتاب ”الفتوحات مکیہ ”کو اردو قالب میں ڈھال دیا جائے ۔علامہ صائم چشتی کا ترجمہ رواں ہے ۔الفاظ کے انتخاب میں نہایت احتیاط سے کام لیا گیا ہے”۔

کتاب مستطاب ”البتول ”پہ تبصرہ کرتے الحاج اختر سدید ی رقمطراز ہیں ، ”البتول ”سیرت فاطمہ الزہرا کے موضوع پر ایک جامع اور بسیط کتاب ہے جو محقق تاریخ اسلامیہ الحاج صائم چشتی کی محققانہ کاوشوں کا ایک تاریخی وتحقیقی شاہکار ہے ۔ اس سے قبل اس موضوع پر متعدد کتب لکھی جاچکی ہیں لیکن ان میں اور اس قلمی شاہکار میں ایک فرق ہے اور وہ یہ کہ ان کتابوں کے مطالعہ سے طبیعت سیر نہیں ہوتی لیکن ”البتول ‘ ‘ کے مطالعہ سے قاری مطمئن ہو جاتا ہے ،اس لئے کہ اس تصنیف میں سیرت فاطمہ الزہرا کے کسی پہلو کو تشنہ نہیں چھوڑا گیا ۔فاضل مصنف نے اس کتاب کی تکمیل کے لئے دنیائے قلم وقرطاس کا کونہ کونہ چھان مارا ہے ۔کوئی روایت ،کوئی حدیث اور کوئی قرآنی آیت ایسی نہیں چھوڑی جس میں سیرت کا کوئی پہلو موجود ہو اور صاحب تصنیف نے اسے اپنے شاہکار ”البتول ”کی زینت نہ بنایاہو ۔اس موضوع سے متعلق تمام احادیث وروایات اور آیات قرآنی اس میں تفسیر وتشریح کے ساتھ محفوظ ہیں ۔

الحاج صائم چشتی نے اس تصنیف کو ہر لحاط سے جامع ونافع بنایا ہے ۔اس کتاب کا ہر باب اسلام کی تاریخ کا اک نیا باب ہے ۔آپ نے سیرة النسا ء کو اس انداز سے مرتب کیا ہے جس سے آقائے نامدار ،حضرت محمد مصطفٰی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے حالات ،حسنین کریمین ”حسن وحسین ”کے حالات وواقعات مخدومہء کربلا زینب رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی سوانح حیات اور حضرت علی کرم اللہ وجہہ الکریم کی تاریخ حیات مرتب ہوتی چلی گئی ہے ۔اس حسن ترتیب کے پیش نظر ”البتول ”ایک عظیم تاریخی دستاویز ہے جس سے عام قارئین سے لے کر علمی، ادبی، تاریخی ،مذہبی اور تدریسی اداروں تک یکساں استفادہ کر سکتے ہیں۔

Saem Chishti

Saem Chishti

”البتول ”کی اسلامی اور تحقیقی اہمیت کے قطع نظر اگر اسے اصلاح خواتین کے پہلو سے دیکھا جائے تو ”البتول ”ایک راہنما کی حیثیت رکھتی ہے ۔بنت رسول ،سیدة النساء فاطمہ الزہرا کی زندگی کا ایک ایک لمحہ طلوع حیات سے غروب آفتاب تک مستورات کے لئے مشعل تابندہ کی حیثیت رکھتا ہے ۔ سیدہ نے بچپن کس طرح گزارا ۔اپنے عظیم والد کی خدمت عظیم کا فریضہ کس طرح ادا کیا یعنی ایک بیٹی کی حیثیت سے اپنے فرائض کس طرح انجام دیئے پھر ایک ماں کی حیثیت سے اپنی ذمہ داریاں کس طرح پوری کیں اور ایک بیوی کی حیثیت سے کس طرح خدمات انجام دیں ،”البتول ”میں سیدہ کی زندگی کے ان پہلوئوں پر بھی مکمل روشنی ڈالی گئی
ہے۔

بہر نوع ”البتول”سیدہ کی حیات اقدس پر مشتمل تاریخ وسیر کی ایک مکمل تحقیقی دستاویز ہے جس کا ایک ایک حرف راہبر وراہنما کی حیثیت رکھتا ہے ۔اس کا مطالعہ ہر مسلمان کے لئے بلا لحاظ عقیدہ ومسلک ضروری ہے ۔ اسی لاجواب کتاب پہ تبصرہ کرتے محترم حفیظ تائب نے ریڈیو پاکستان لاہورکی نشریات میں ٦ جولائی١٩٧٩ء کو کہا ، زیر تبصرہ کتاب ”البتول ”کا موضوع سیرت سیدةالنساء حضرت فاطمة الزہرا ہے ۔اس کتاب کے مصنف الحاج صائم چشتی ہیں جو نعت گو شاعر کی حیثیت سے زیادہ معروف ہیں ۔ ان کی اردو ، پنجابی کی نعت ومنقبت کے کئی مجموعے اشاعت پذیر ہو چکے ہیں اور ان کی کئی نعتوں کو قبولیت عام کی سند حاصل ہو چکی ہے ۔

ان کی نعت ومنقبت کے مجموعوں کے نام ہیں ،نور دا ظہور ،نوائے صائم چار حصے ،ہے کعبہ وی جھکدا محمد ۖدے در تے ،روح کائنات ،جان کائنات ،نور ای نور، نور دے خزینے ،صائم دے دوہڑے ، صائم دیاں رباعیاں ،کعبے دا کعبہ ،جلوے،نظارے ،میخانہ،نور دا چشمہ،مناقب قادری ،مناقب چشتیہ ،کربلائی دوہڑے ،زینب دا وِیر،خاتون جنت ، شاہنامہ بغداد ،تاجدار علی پور ،تاجدار چورہ شریف وغیرہم ۔

Al Batool by Saem Chishti

Al Batool by Saem Chishti

صائم چشتی جامعہ رضویہ کے فاضل ہیں اور انہیں سیرت اہلبیت سے خصوصی شغف ہے ۔اب تک نثر میں ان کی شہید ابن شہید دو حصے ،مشکل کشا ،ایمان ابو طالب ، گیارہویں شریف اور البتول شائع ہوچکی ہیں۔

بارہ سال قبل انہوں نے بنت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی سیرت مقدسہ پر ایک کتاب ”خاتون جنت ”لکھی تھی جس کے کئی ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں ۔پنجابی سننے والے تو بہت ہیں مگر ان کے پڑھنے والوں کی تعداد بہت محدود ہے۔چنانچہ صائم چشتی صاحب نے وسیع تر ابلاغ کے نقطہء نظر سے کتاب ”خاتون جنت ”کو اردو نثر میں ڈھالنا شروع کیا ۔

ابو نصر کی کتاب فاطمہ بنت محمد ،عربی کتاب الزہرا اور علامہ راشد الخیری کی اردو تصنیف ”الزہرا ”سے بھی استفادہ کیا اور تفسیر وحدیث اور تاریخ وسیرت کی متعدد کتابوں سے بھی سیدة النساء العٰلمین کی حیات مقدسہ کے متعلق جس قدر مواد بھی فراہم ہوااسے اس کتاب ”البتول ”میں نہایت خوبصورتی سے سمو دیا ۔اس کتاب کا محرک صائم چشتی کا یہ جذبہ تھا کہ سیدہ پاک کی زندگی بہو بیٹیوں ،بیویوں اور مائوں کے لئے کامل ترین نمونہ ہے اور شاید اس کے مطالعہ سے قوم کی بہو بیٹیاں اپنی اصلاح پر مائل ہو جائیں اور ایک اسلامی معاشرہ وجود میں آجائے ۔

Khatoon e Jannat by Saem chishti

Khatoon e Jannat by Saem chishti

کتاب کے دیباچے ”نشان منزل ”میں وہ یہ بھی لکھتے ہیں کہ میرا یہ کتاب لکھنے کا ایک خاص مقصد یہ بھی ہے کہ قیامت کے دن ردائے زہرا کا سایہ تلاش کرنے والی بیبیاں سیدہ زہرا کے حضور سرخرو ہوکر حاضر ہوں ۔ اس کتاب میں سیدہ پاک کی ولادت باسعادت ،بچپن ،جوانی،نکاح،ازدواجی زندگی اور وفات حسرت آیات کے تمام کوائف کتب سیرت کے حوالوں سے قلمبند کئے گئے ہیں۔
مختلف مکاتب فکر میں موجود کچھ غلط فہمیوں کے ازالے کی بھی اپنی سعی کی گئی ہے ۔تحقیقی مواد کو مصنف کے شاعرانہ اور خطیبانہ ذوق نے بوجھل نہیں ہونے دیا ۔قرآنی آیات ،احادیث اور اشعار کے استعمال نے عبارت کی دلکشی میں بہت اضافہ کیا ہے ۔کتاب کا انداز سادہ مگر دلنشیں ہے۔

تین سو بیس صفحات کی یہ خوبصورت اور پکی جلد والی کتاب چشتی کتب خانہ ،جھنگ بازار ،فیصل آباد نے شائع کی ہے اور اس کی قیمت صرف اٹھارہ روپے رکھی ہے جو آج کے حالات میں بہت ہی کم معلوم ہوتی ہے ۔قیمت کم رکھنے کا باعث مصنف اور ناشر کا یہ جذبہ معلوم ہوتا ہے کہ یہ کتاب زیادہ سے زیادہ بہو ،بیٹیوں اور امتیوں تک پہنچ جائے ۔اللہ رب العزت ان کے اس جذبے کو قبول فرمائے ۔دعا ہے کہ اللہ رب العزت اس کتاب کو امت مسلمہ کے لئے مشعل ہدایت بنائے اور جناب صائم چشتی کے لئے توشہء آخرت بنے ، آمین ۔

تفسیر خازن کی تقریظ میں ڈاکٹر احسن زیدی لکھتے ہیں،
”بعض شخصیات خالق کائنات کی خصوصی رحمتوں کا مرکز ہوتی ہیں ۔وہ پھلجھڑی کی طرح روشنی کے پھول برسا کر اپنے وجود کا احساس دلاتی رہتی ہیں ۔علامہ صائم چشتی ایسی ہی محترم شخصیت ہیں ۔ قدرت نے ان کی ذات میں کئی خوبیاں جمع کر دی ہیں ۔وہ اردو اور پنجابی میں قادر الکلام شاعر ہیں ۔فارسی اور عربی زبانوں میں انہیں ماہرانہ دسترس حاصل ہے ۔تفسیر اور تاریخ ان کا پسندیدہ جولان گاہ ہے ۔

علامہ صائم چشتی کے علمی ذوق اور دینی شغف نے ہماری مشکلات کا جائزہ لے کر کچھ اہم کتب کو اردو میں ڈھالنے کا قصد کیا ہے ۔انہوں نے اس مقصد کے لئے جن کتب کا انتخاب کیا ہے وہ اپنی عالمگیر شہرت کے سبب دینی حلقوں میں مقبول عام کا درجہ رکھتی ہیں ۔ان میں فخر الدین رازی کی تفسیر کبیر ،شیخ اکبر محی الدین ابن عربی کی تفسیر ابن عربی اور فتوحات مکیہ اور امام علی بن محمد بن ابراہیم بغدادی خازن کی تفسیر خازن ،خاص طور پر اہل علم کی توجہ کا محور رہی ہیں ۔

Manqabat by Saem Chishti

Manqabat by Saem Chishti

علامہ صائم چشتی عربی اور اردو دونوں زبانوں پر عبور رکھتے ہیں اور دینی علوم کے ساتھ ان کے گہرے شغف نے ان کے لئے ترجمے کی منزل آسان کر دی ہے۔انہوں نے ترجمے کے لئے سادہ اورعام فہم زبان استعمال کی ،ان کی اس سعی جمیلہ کی بدولت اردو جاننے والے قارئین کے لئے ان موتیوں تک رسائی ممکن ہو گئی جو عربی زبان کے غلاف میں مخفی تھے اور جن سے کسب فیض کرنااُن کے لئے محال کار تھا ۔

آپ پہ تحریر کردہ کتب
حضرت صائم چشتی پر ہونے والی تحقیق وریسرچ کے حوالے سے دو کتب اردو زبان میں ” علامہ صائم زندہ ہے ”از علامہ سید محمد یونس شاہ کاظمی اور دوسری’ ‘ میرے محسن ”از محمد مقصود مدنی اور انگریزی زبان میں محترمہ ریحانہ کوثر عینی نے تحریرکی ہے ۔فیصل آباد کے علماء کے تذکرہ پہ مشتمل کتاب ”روشن ستارے ”میںآپ کی شخصیت کے حوالے سے تحقیقی مضمون شامل ہے ۔

تحقیقی مقالہ جات
پنجاب یونیورسٹی نے آپ پر دو تحقیقی مقالہ جات ”علامہ صائم چشتی بحیثیت نعت گو شاعر ”برائے ایم اے اردوازنواز ش رباب اور دوسرا ”علامہ صائم چشتی ،فکر تے فن ” برائے ایم اے پنجابی از آمنہ احمد منظور کئے ہیں ۔

ان کتب اور مقالہ جات کے علاوہ آپ کی شخصیت اور علمی وتحقیقی کارناموں پر ملک کے مقتدر اخبارات وجرائد،روزنامہ جنگ،نوائے وقت ،پاکستان،امن اور فیصل آباد کے مقامی اخبارات روزنامہ عوام ،غریب،پیغام،ڈیلی رپورٹ،سعادت اور شیلٹر وغیرہ میں مضامین شائع ہو چکے ہیں ۔علاوہ ازیں ماہنامہ ،شام وسحر ،لکھاری ،گہراب، سوک، سانجھان اور دیگر رسائل میں آپ کی شخصیت اور فن کے حوالہ سے مضامین چھپ چکے ہیں ۔

مر جائوں تو کفن پہ بھی لکھنا علی علی
یہ عظیم مفکر اسلام ،مفسر قرآن ،محدث ،محقق ،ماہر لسانیات، استاد شاعراور زندہ ادیب ٢٢جنوری٢٠٠٠ء ،١٤شوال المکرم وصال فرما گئے ۔حضرت صائم چشتی نے اپنی اولاد کو وصیت کی کہ جب ان کا انتقال ہوجائے تو ان کے جسد کوغسل وکفن دے کر خاک ِکربلا معلی سے ان کے کفن پہ مولائے کائنات،اسد اللہ الغالب ،سیدنا امیر المومنین علی ابن ابی طالب کا مقد س اسم گرامی تحریر کر کے اس وقت تک نہ اٹھایا جائے جب تک کہ فضا، خوشبوئے ولایت سے معطر نہ ہو جائے ۔

Saem Chishti

Saem Chishti

آپ کی وصیت پر ایسا ہی کیا گیا اور آپ کے کفن پر ِکوئے سید الشہداء کی خاک سے شاہ ِولایت کا اسم اعظم نقش کر دیا گیا ۔کچھ ہی دیر میںانتہائی مقدس ومطہر قسم کی خوشبو نے پورے ماحول کو اپنی مہک سے معطر کر دیا اور نورانی ومتبرک ہستیوں کی توجہات والتفات محسوس کئے جانے لگے ۔صلوٰة وسلام کے ورد میں آپ کا جنازہ اٹھا۔آپ کے استاد مولانا غلام رسول صاحب نے آپ کا جنازہ پڑھایا۔انہیںان کی قائم کردہ جامع مسجد سیدناحیدر کرار ،غلام محمد آباد،فیصل آبادکے صحن میں سپرد لحد کیا گیا ۔

کلام صائم
حضرت صائم کے عالمی شہر ت یافتہ ،معرکة الآراء کلام میں سے منتخب کلام اہل ذوق کی نظر ہے ۔

مخدومہ ء کائنات
طیبہ ،طاہرہ،عابدہ،زاہدہ،بنت خیر الوریٰ ،سیدہ فاطمہ
سیدہ ،صالحہ ،راکعہ ،ساجدہ ،نور ِشمس ُالضحیٰ ،سیدہ فاطمہ
راضیہ ،مرضیہ ،صائمہ،عاصمہ،نیرّہ،انورہ،ناظمہ،ناصرہ،
زاکیہ،ازکیہ،اکرمہ،اعظمہ،عکس ِظلّ ِخدا،سیدہ فاطمہ
کاملہ ا،کملہ ،صادقہ،اصدقہ،عالمہ،فاضلہ،راحمہ،راشدہ
شاہدہ،شافعہ،قاسمہ،آمنہ،عذرا،خیر النساء ،سیدہ فاطمہ
ہادیہ ،مہدیہ ،جیّدہ،ناصحہ،مکیّہ،مدنیہ،قرشیہ ،سرورہ
مشفقہ،محسنہ،ذاکرہ،زاہرا،حافظہ،حامدہ،سیدہ فاطمہ
قائمہ،دائمہ ،ماحیہ،ماجدہ،خازنہ،حاکمہ،صابرہ،شاکرہ
حاذقہ،قائدہ،احسنہ،افضلہ،وارثہ،پارسا،سیدہ فاطمہ
واعظہ ،واصفہ،شافیہ،کافیہ،رہبرہ،فائقہ،واقفہ،عارفہ
عالیہ،اشرفہ،قاطعہ،ساطعہ،عاقلہ،اطہرہ،سیدہ فاطمہ
امجدہ، اجملہ، مخلصہ، تارکہ، ثابتہ، ثاقبہ، خاشعہ ، خالدہ
اُن کے القاب صائمہوں کیسے بیاں ،خرد سے ماوریٰ ،سیدہ فاطمہ

عطا سراپا جناب زہرا
کرم کا مخزن ،سخا کا مرکز ، عطا سراپا ، جناب ِزہرا
نبی کی صورت ،نبی کی سیرت ،نبی کا نقشہ ،جناب زہرا
رسول اعظمۖ کی پیاری دختر ،شہید اعظم کی پاک مادر
جناب شیر خدا کی بانو ،جناں کی ملکہ ،جناب زہرا
سراپا رحمت ،سراپا راحت ،سراپا عفت ،سراپا عصمت
رسول اکرم ۖکے دل کی ٹھنڈک ،بتول وعذرا جناب زہرا
ہے غیر ممکن کہ اُن کے در سے کوئی سوالی بھی آئے خالی
قسیم جنت ، قسیم کوثر ، قسیم دنیا ، جناب زہرا
تمام حوریں کنیزیں ان کی ،غلام ان کے سبھی ملائک
مگر چلاتی ہیں خود ہی چکی ،بغیر شکوہ جناب زہرا
فدا ہے صائم غلام ان پر ، درود ان پر ، سلام ان پر
ہیں میرا دونوں جہاں میں واللہ ،فقط سہارا جناب زہرا
بنتِ محمدمصطفٰی ۖ
فاطمہ ، بنت ِ محمد مصطفٰی ۖ فاطمہ ،روح ِرسول ِدوسرا ۖ
فاطمہ ،شان ِرسول ہاشمی فاطمہ ،جان ِرسول ِہاشمی
ملکہء ملک ِسخاوت ،فاطمہ منبع نور ہدایت ،فاطمہ
مطلع چرخ ِکرامت ،فاطمہ مرجع ِانوار درجت ،فاطمہ
حلّہء تطہیر حق بر دوش او آمدند حسنین ،در آغوش او
فاطمہ ،سر جلوہء تقدیس است رشک ِمریم،غیرتِ بلقیس است
فاطمہ ،نور ِنگاہ ِمصطفٰی ۖ خانہء او جلوہ گاہ ِمصطفٰی ۖ
فاطمہ ،ام شہیدانِ وفا فاطمہ ،ناز ِجنابِ مرتضٰی
من نہ دانم، عز وشان ِفاطمہ کعبہء من، آستان ِفاطمہ
من فقیر و بے نوا و پرخطا اُوکریمہ ،اُو رحیمہ ،راحمہ
من سراپا جرم وعصیاں ،اُو بتول من غریبم ،اُو قسیمہء رسول ۖ
ذرّہء ناچیز من، اُو آفتاب من کجا ،اُو کجا عالی جناب
ملکہء فردوس اُو ،من رُوسیہ اُو کرم ،من سرتاپا جرم وگنہ
بہر لطف ِمصطفٰی ،بہر خدا رحم کن یا سیّدہ، بر حالِ ما
لطف ِتو بالاتر از وہم وخیال رحم کن بر صائمِ آشفتہ حال

شان زہرا کی
بڑھے گی تا ابد شان ِعلیٰ ، ہر آن زہرا کی
کہ ہے مدحت سرائی کر رہا قرآن، زہرا کی
کھڑے ہو کر تھے استقبال کرتے مصطفٰی ۖان کا
خدا ہی جانتا ہے کس قدر ہے شان ، زہرا کی
نبیۖ کے گھر کی ہر نعمت ، وہی تقسیم کرتی ہیں
ہے گویا سب خدائی ،ہر گھڑی مہمان، زہرا کی
نگاہوں کو جھکا لو اہل ِمحشر ! یہ ندا ہو گی
سواری خلد میں جائے گی جب ذیشان ، زہرا کی
بپاس ِپردہ ،ملک الموت کے انکار کرنے پر
خدا نے قبض فرمائی تھی خود ہی جان، زہرا کی

جبھی تو کٹ کے بھی کربل میں سر اونچا رہا ان کا
کہ تھی شبیر میں غیرت علی کی آن ، زہرا کی
بیاں کیا شان ہو بنت ِنبیۖ کی تجھ سے اے صائم
تھے چکی پیستے حور وملک رضوان ، زہرا کی

Dr Syed Ali Abbas Shah

Dr Syed Ali Abbas Shah

تحریر: ڈاکٹر سید علی عباس شاہ،دبئی