ڈاکٹر ابوالحسن کا تعلق مردم خیز خطے جھنگ سے ہے۔ہیر سیالوں کی دھرتی کے باسی ڈاکٹر صاحب میڈیکل ڈاکٹر ہیں کمال کی شخصیت ہیں جانتا تو برسوں سے ہوں لیکن تحریک انصاف کے آئین کو بنانے میں ڈاکٹر صاحب کی شبانہ روز محنت شامل نہ ہوتی تو پی ٹی آئی کو آئین نہ ملتا وہ آئین جس کے بارے میں سیف اللہ نیازی کا خیال ہے کہ یہ پارٹی کو بدل کے رکھ دے گا اور آنے والی نسلیں یاد رکھیں گی کہ کچھ لوگ رات دن مل بیٹھے تھے اور انہوں نے پی ٹی آئی کو ادارہ بنانے میں کام کیا تھا۔یوں تو ہمارے جیسے لوگ بھی بھی اس کار خیر میں حصہ لے کر شرف حاصل کر چکے ہیں لیکن سچی بات ہے جتنی محنت ڈاکٹر ابوالحسن ،سیف اللہ نیازی ،ارشد داد اور شنواری صاحب نے کی شائد کسی اور سے یہ کام نہ ہو سکا اس میں کوئی شک نہیں اس میں معاون لوگوں نے اپنی بھرپور صلاحیتوں کا مظاہرہ کیا۔پرانے زمانے کے معدودے چند لوگ نئی ٹیکنالوجی سے آشناء ہیں کمپیوٹر سے کما حقہ واقفیت رکھنے والے ڈاکٹر ابولاحسن نے پی ٹی آئی لیڈر شپ کی تجاویز کو بڑی بحث کے بعد آئین کی شکل دی۔اس کے لئے پی ٹی آئی کا ہر ورکر ان کا شکر گزار رہے گا۔
موصوف صرف میڈیکل ڈاکٹر ہی نہیں ہیں وہ ماہر نفسیات بھی ہیں کسی حد تک فلسفہ منطق سے آگہی بھی ہے۔طویل میٹینگز میں ہر ایک کی سننا اور سن کر اسے لکھنا لکھ کر اسے پڑھ کر سنانا اور سنا کر مہر لگا دینا آسان کام نہیں ہے۔جھنگ سے اسلام آباد کا سفر اور بعد از طویل نشست اپنے کام کو انجام دینے پر میں انہیں دل کی اتھاہ گہرائیوں سے مبارک باد پیش کرنا چاہتا ہوں۔میں انہیں اے آر کارنیلیس بھی کہہ سکتا ہوں اور چودھری محمد علی بھی۔
ڈاکٹر صاحب سے یوں تو بڑی نشستیں رہیں لیکن اس دن ڈاکٹر عبداللہ خیار کے دفتر میں بڑی معلوماتی گفتگو ہوئی۔وہ امریکی جمہوریت کے ١٨٢٨ کی باتیں سنا رہے تھے۔کسی امریکی صدر کا ذکر کر رہے تھے اس کے اوصاف حمیدہ سن کر احساس ہوا کہ نواز شریف کسی بندے کا نام نہیں ہے بلکہ یہ ایک کیفیت نظریہ ہے اور آج پتہ چلا کہ کہ نظریہ کوئی دو سو سال پہلے سے موجود ہے۔ڈاکٹر صاحب نے بتایا کہ ایک ماریکی صدر تھا جس نے ووٹ خریدے لوگوں کو نوکریاں دیں سواری بھیج کر ووٹر اسٹیشنوں پر پہنچائے سال بھر کے دانے دئے واہ ری جمہوریت تو بڑی پرانی گندی شئے ہے۔مجھے احساس ہوا کہ جمہوریت میں سب سے بڑا گند یہ ہے کہ انسان اپنے آپ کو پیش کرتا ہے کہ میں بے لوث ہوں میں با کردار ہوں مجھے ووٹ دو اور یہی خرابی بڑی خرابیوں کا باعث بنتی ہے
ڈاکٹر صاحب جن آئین بنا رہے تھے تو بڑے لطیفے بھی ہوئے میں نے اس کمیٹی میں اپنا کردار یوں ادا کیا کہ جب الیکشن کی بات ہوئی تو پتہ چلا کہ گروپ کی شکل میں انتحاب ہو گا اور ایک گروپ چیف اپنی پوریٹیم لے کر آئے گا۔سوال یہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کیا عمران خان بھی کسی گروپ کو لیڈ کریں گے؟کہنے لگے بلکل میں نے کہا حضور پھر یہ بتا دیجئے کہ عمران خان کے مقابلے میں جو کھڑا ہو گا اسے کون ووٹ دے گا؟اور عمران خان پھر اپنی مرضی سے سیکرٹری جنرل اور دیگر بڑے عہدے من پسند لوگوں کو دے گر ڈھونگ نما انتحابات میں کامیابی پا لیں گے۔ایسا نہیں ہونا چاہئے۔
بڑی دل چسپ صورت حال تو اس وقت ہو گئی کہ چیئرمین کو اختار دیا جا رہا تھا کہ وہ اپنی مرضی کا سیکرٹری جنرل چن لے جس کی سخت مخالفت کی گئی میں ان ان دو چار کا نام نہیں لوں گا جنہوں نے واضح طور پر کہا طاقت سینٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کے پاس ہو گی جو کارکن چنیں گے اور سیکرٹری جنرل اس کمیٹی کو جواب دے گا۔جو کوئی چالیس ارکان پر مشتمل ہو گی جو سیکرٹریز کہلائیں گے۔اللہ نے چاہا تو میں بھی ایک سیکرٹری کی پوسٹ کے لئے الیکشن لڑوں گا۔ شنواری صاحب ڈاکٹر صاحب بریگیڈیئر سائمن سے اچھی گپ شپ ہے میں نے کہا ڈاکٹر صاحب آپ ہی کے علاقے کے ایک مولوی صاحب تقریر کر رہے تھے اور کہہ رہے تھے کہ قیامت کا دن ہو گا تلوار سے تیز اور بال سے پتلا پل صراط ہو گا جو اس سے گزر پائے گا جنت میں جائے گا وہیں میرے جیسا ایک سادہ سا گجر بیٹھا تھا اس نے برجستہ جواب دیا مولانا پھر پار کروانے کا ارادہ تو نہ ہوا۔عرض کیا اگر عمران خان نے نہی سب کو ساتھ پار لگوانا ہے تو کارکن کی چوائس کہاں ہو گی۔
مجھے سچی بات ہے ان سے پیار سا ہو گیا ہے یہ پیار یک طرفہ ہے یا دوطرفہ اس کے بارے میں ڈاکٹر ابوالحسن انصاری بتائیں گے جنہیں میں بہت عرصے تک بخاری کہتا رہا ہوں۔جھنگ شہر کی معروف سیاسی فیملی سے تعلق ہے زاہد جھنگوی اچھے لفظوں سے یاد کرتے ہیں۔ سچ پوچھئے تو تحریک انصاف انہی ستونوں کے بل پر کھڑی ہے کچھ لوگوں کا مجموعہ ہے جو پارٹی کے لئے رات دن ایک کئے ہوئے ہیں سردار اظہر کا ذکر نہ کروں تو بات مکمل نہیں ہو گی۔ میرا جی چاہتا ہے لوگوں کو پارٹی کے ان گمنام لوگوں سے آشناء کرائوں جو خاموشی سے بغیر کسی غرض و غائت کے کام میں جتے ہوئے ہیں۔کوئی معاوضہ نہیں کوئی تنخواہ نہیں لیکن پی ٹی آئی سیکرٹریٹ جائیں تو ہمہ وق کام میں مگن یہ لوگ ۔حکومت کے معاملات سے ہٹ کر پارٹی کو منظم کرنے میں لگے ہوئے ہیں۔
میں عمران خان کو اچھی طرح جانتا ہوں آئین کی منظوری جو یوم تاسیس میں ہوئی انہوں نے پوری ٹیم کو مبارک باد دی ۔سیکرٹری جنرل ارشد داد نے ڈاکٹر ابوالحسن کو کھل کے مبارک باد دی۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ اس روز ڈاکٹر صاحب خود آئین کی کاپی جناب چیئرمین کو پیش کرتے۔چیف آرگنائزر سیکرٹری جنرل کے ساتھ ابو الحسن بھی کھڑے ہوتے لیکن ایسا نہیں ہوا آئین جس کی تیاری میں مہینوں لگے اسے وزیر اعظم کے اٹھنے کے ساتھ عجلت میں منظور کیا گیا یہ کام نون لیگئے کرتے ہیں ہمیں نہیں کرنا چاہئے تھا۔
فیصل جاوید اچھے دوست ہیں کمپیرنگ کمال کی کرتے ہیں گھن گرج میں اگر ترتیب کی درسگی کر لیتے تو مزید اچھا ہوتا ڈاکٹر صاحب کے لئے یہ چند الفاظ مکہ المکرمہ روانگی سے قبل لکھ رہا ہوں پارٹی کی خوش قسمتی ہے کہ ایک اور ڈاکٹر عبداللہ خیار کی شکل میں مل گیا ہے اوورسیز پاکستانیوں کے لئے ان کے جذبات بہت اچھے ہیں وہ کارکن کو عزت دینا چاہتے ہیں۔اور مجھے پورا یقین ہے کارکنوں کو بہت خوشی ہو گی اعزاز آصف نے اس سے پہلے کمال کا کام کیا اور اب اس میں مزید بہتری ہو گی۔میرا مکمل تعاون انہیں ملے گا ہم دونوں جدہ آ رہے ہیں انشاء اللہ کارکنوں کو مل کر لائحہ عمل بنائیں گے۔ ڈاکٹر ابوالحسن انصاری صاحب خوش رہیں۔اپنے پاس یہ چند الفاظ تھے جو ایک کالم کی شکل میں پرو کے پیش کر دئے ہیں گر قبول افتد تو میرے لئے باعث صد افتخار ہو گا۔