ڈاکٹر قوم کا مسیحا یا زہر قاتل

Doctor

Doctor

تحریر : نمرہ ملک
ڈاکٹر قوم کا مسیحا ہوتا ہے جو اپنے تجربے اور علم کی بنیاد پہ جسمانی اور بعض دفعہ روحانی طور پہ بھی مسیحائی کرتا ہے۔ڈاکٹری ایک ایسا مہذب پیشہ ہے جو پیغمبروں اور نبیوں کی بھی سنت ہے۔طب نبوی اس کی ذندہ مثال ہے۔مگر حالیہ چند واقعات نے پاکستان میں ڈاکٹروں کا امیج بہت خراب کر دیا ہے،سرگودھا میں ینگ ڈاکٹرذ نے جو ہڑ تال کی اور اور اپنے ہی شعبے کے مسیحا کی جس طرح پٹائی کی ،وہ قابل مزمت ہے۔اس سنئیر ڈاکٹر کا جرم صرف یہ تھا کہ وہ اپنے پیشے کے تقاضے ایمانداری سے پورے کرتے ہوئے ہڑتال میں شریک ہونے کے بجائے اپنے مریضوں کے ساتھ تھا۔اس قبیح حرکت پہ اور ینگ ڈاکٹرز کی پورے پنجاب میں ہڑتال سے نہ صرف میڈیکل کا پیشہ بدنام ہوا بلکہ اس کے نتیجے میں ہزاروں مریض او پی ڈی میں رل گئے۔

ڈاکٹروں کے جو بھی مطالبات ہوں ،وہ اپنی جگہ درست ہیں مگر اس میں مریضوں کا کیا قصور ہے؟جو ایمرجنسی وارڈزمیں رل رہے ہیں۔اس ہٹ دھرمی کی وجہ سے کئی مریض اپنی جانوں سے بھی ہاتھ دھو بیٹھے ہیں۔اگر کوئی ان پڑھ ایسی حرکت کا مرتکب ہوتا تو اب تک این جی اوز کا واویلا کہاں سے کہاں تک سنائی دے رہا ہوتا مگر یہ غیر زمہ دارانہ فعل ایسے لوگ انجام دے رہے ہیں جو خود کو مہذب طبقے میں شمار کرتے ہیں۔انہیں یہ زیب نہیں دیتا کہ ایسا غیرانسانی رویہ اپنائیں۔اور معاشرے میں بجائے مسیحائی بانٹنے کے قاتلوں کا روپ دھار لیں۔جن ہاتھوں نے انسانیت کی جراحی کرنا تھی وہ اک دوسرے پہ ڈنڈے برسا رہے ہیں۔اور اس ہٹ دھرمی کا فائدہ وہ لوگ اٹھارہے ہیں جو بظاہر ڈاکٹروں کا لبادہ اوڑھے ڈاکوئوں کا کام سر انجام دے رہے ہیں۔

قوم کی رگوں میں عطائیت کاناسور بھر رہے ہیں۔جنہیں یہ بھی پتہ نہیں کہ ڈرپ کیسے لگائی جائے، وہ بھی دوائوں کے نام پہ ہزاروں وصول کرتے ہیں ۔مریض مجبوری میں لٹ رہے ہیں اور نہ چاہتے ہوئے بھی اس گھنائونے کاروبار میں حصہ دار بن جاتے ہیں۔اک بڑا ظلم یہی ان پڑھ قصائی طبقہ یہ ڈھاتا ہے کہ نارمل ڈیلیوری کو بھی آپریشن کا نام دے دیتا ہے اور ذچہ و بچہ دونوں کو سولی پہ لٹکا دیتا ہے۔اس معاملے میں لیڈی ہیلتھ ورکربھی کسی سے کم نہیں، جنہوں نے زاتی کلینک کھول کر ادویات کا دھندہ چلا رکھا ہے ۔ تھوڑے ہی عرصے میں گائناگالوجسٹ کا بورڈ لگا کر سادہ لوح عوام کو دونوں ہاتھوں سے لوٹتی ہیں۔

Diseases

Diseases

اکثر دیہاتی خواتین دائی کے اعتبار پہ لٹ جاتی ہیں اورشہر جانے سے پہلے ہی موت کے منہ میں پہنچ جاتی ہیں۔اور اگر غلطی سے شہر پہنچ جائیں تو وہاں عطائیوں کی بھرمار میں پھنس کے ساری عمر کیلئے بیماریاں لگا کے واپس آتی ہیں۔اس پہ مستزاد کہ شہروں میں بڑے بڑے بورڈ لگا کے نت نئے طریقوں سے لوٹا جاتا ہے۔معمولی سر درد کو بھی میگرین سے کم نہیں دکھایا جاتا ۔ٹیسٹ پہ ٹیسٹ کیئے اور ہزاروں بٹورے جاتے ہیں۔ہسپتال سے باہر کسی کے پاس ٹیسٹ کیلئے بھیجنا بھی پالیسی ہوتی ہے۔اس کریہہ کام میں عملہ کمیشن کے چکر میں پورا ساتھ دیتا ہے ۔اک ٹیسٹ کے بعد مزید کئی ٹیسٹ بھی حکومتی کمیشن کی طرح جاری رہتے ہیں۔

مریض کے لواحقین رل جاتے ہیں۔او پی ڈی میں رش کی صورت میں سرکاری عملے کے نخرے بھی دیکھنے والے ہوتے ہیں جو ٫٫چائے پانی ،، یا کسی بڑے صاحب کی کال کے بعد ہی معمول پہ آ سکتے ہیں۔حتی کہ بعض دفعہ مریض کو وارڈ میں جگہ لینے کیلئے بھی کیی پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں ۔کچھ ہسپتال خدمت خلق میں لاثانی ہیں۔ مگر کرپشن ہر جگہ موجود ہے ۔اک پرچی بنوانے سے لے کر آپریشن روم میں داخلے تک کئی بار قائد اعظم کی تصویر سے کام چلانا پڑتا ہے۔گائنا گالوجسٹ جو انسانی جانوں کو بچانے میں اہم کردار ادا کرتے ہیں ۔پیسہ بنانے کی مشین بن کر رہ گئے ہیں۔کسی بھی پرایئویٹ ہسپتال میں گائنی وارڈ میں سو میں سے نوے خواتیں کا بلا ضرورت آپریشن انہیں مختلف بیماروں میں مبتلا کر دیتا ہے۔ اور جو لوگ آپریشن سے بھاگتے ہیں ان کو دوائوں،ٹیسٹوں اور خون کے چکر میں خوار کیا جانا معمول ہے۔

عقلمند لوگ بحث کرتے ہیں کہ جب اس سے پہلے چار بچے بنا آپریشن پیدا ہو سکتے ہیں تو پانچواں کیوں نہیں؟ایسے لوگوں کو یقینی فائدہ ہو جاتا ہے کیوں کہ ہسپتال کا عملہ اک مریضہ کو لٹنے کیلئے کسی اور طرف جانے نہیں دیتا۔یہ تمام حالات ہڑتال کرنے والے ان ہٹ دھرم مسیحائوں کیلئے سوالیہ نشان ہیں ۔ کتنے افسوس کی بات ہے کہ اک انسانی جان کی قیمت چند سکوں میں لگا دی جاتی ہے اور بعض دفعہ اک معصوم جان سے کھیلا بھی جاتا ہےْ۔ان ہڑتال کرنے والے مسیحاوں کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہر گلی محلے میں عطائی اپنا کاروبار سجا کے بیٹھے ہیں۔ پینا ڈول سے ڈسپرین تک ہزاروں میں فروخت ہوتی ہے۔

Doctor and Patient

Doctor and Patient

مریض اپنی سادگی اور ڈاکٹر پہ اعتبار کی وجہ سے لٹ جاتا ہے کیوں کہ اکثریت صرف اسی ڈاکٹر کے پاس جاتی ہے جس کے ہاتھ سے اک بار شفا مل چکی ہو۔فیصل آباد کی اک خاتون پودینہ خشک کر کے سفوف بنا کے اس کے پانچ سو تک وصول کر لیتی تھیں۔ضعیف العقیدہ لوگ سمجھتے تھے کہ خاتون کہ ہاتھ میں شفا ہے جبب کہ پودینہ کئی بیماریوں میں دیسی علاج کے طور پہ استعمال ہوتا ہے۔اور بہت مفید بوٹی ہے۔سوچنے کی بات یہ بھی ہے کہ ہم ان عطایئوں کو جانتے بوجھتے بھی ان کے پاس کیوں جاتے ہیں؟قوم کے اصل مسیحائوں کو اک دوسرے کے سر توڑنے سے فرصت نہ ملی تو یہ حالات مذید گھمبیر بھی ہو سکتے ہیں۔ڈاکٹروں کے پاس رحم نام کا جذبہ کم ہو گیا ہے۔

معمولی اور نادار مریضوں کیلئے تو بڑے ہسپتال اک خواب ہیں جہاں قوم کے مسیحا پیسہ کمانے کی مشین بنے ہوئے ہیں اور آج کل اپنے جائز اور ناجائز مطالبات کی خاطر ایسے ہی ہتھکنڈے بھی بروئے کار لا رہے ہیں۔ مریض ہسپتالوں میں رل رہے ہیں اور لواحقین اس کے علاج کیلئے در ،در پہ قرض کیلئے بھیک مانگ رہے ہوتے ہیں۔وقت ا گیا ہے کہ حکومت پنجاب اب اس طرف بھی کوئی سنجیدہ قدم اٹھائے ۔انسانی جان سے کھیلنے اور اسے ارزاں سمجھنے والوں کے خلاف کاروائی کی جائے۔سڑکوں اور بسوں کے ساتھ ساتھ مریضوں کے لئے سرکاری ہسپتالوں میں بھی کوئی منصوبہ سازی کی جائے۔سرکاری ہسپتالوں میں کام کرنے والوں کہ یہ حال ہے کہ اپنے ہر مریض کو راء کا جاسوس سمجھتے ہیں جب کہ زاتی کلینک پہ آنے والوں کیلئے ان کے منہ سے چاکلیٹ کا ذائقہ ہی ختم نہیں ہوتا۔یہ بہت بڑی زیادتی ہے۔

ڈاکٹر بن جانا اہمیت نہیں رکھتا بلکہ اس پیشے کا تقدس بحال رکھنا بڑی بات ہے۔ہمارے وزراء تو چیک اپ کیلئے بیرون ملک تک جا سکتے ہیں مگر انکو اپنی تقدیر کا مالک بنا کے ایوانوں میں بھیجنے والے آج بھی بے یارو مددگار ہیں۔او پی ڈی بھرے پڑے ہیں مگر ڈاکٹروں کو ہڑتالوں سے فرصت نہیں اور جو ہمدردی کا جذبہ رکھتا ہے اسکا سر پیٹنے کی نوبت آجاتی ہے۔جو لوگ اپنے پیشے سے مخلص ہیں انہیں کام کرنے نہیں دیا جاتا جبکہ اثر و رسوخ رکھنے والے سفارشی اور نااہل ایم ایس کی کرسی تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔ہماری حکومت اگر اساتذہ کیلئے این ٹی ایس کی شرط لگا سکتی ہے تو اسے میڈیکل کے شعبے میں بھی ضرور ایسا قدم اٹھالینا چاہئے ۔صرف ہاوس جاب کر لینا ہی ڈاکٹرکی ڈگری کیساتھ ضروری نہیں۔

Pakistan

Pakistan

پاکستان میں سب ممکن ہو سکتا ہے۔بغیر سکول جائے لوگ سالوں تنخواہیں وصول کر لیتے ہیں اور بغیر ہاتھ پائوں ہلائے ایم بی بی ایس کی ڈگری کا حصول بھی ممکن ہے۔ایسے تمام لوگوں سے ،جن کے دل میں زرا بھی خوف خدا ہے ،کیلئے تجویز ہے کہ اس پیشے میں آنے سے پہلے میڈیکل کی ٹف کتابوں کے ساتھ انسانی حقوق کی سب سے بڑی علمبردار کتاب قرآن مجید بھی ساتھ رکھ لیں۔تا کہ انہیں اپنے مطالبات منوانے کیلئے سڑکوں پہ نکلنے سے پہلے انسانی کے حقوق پہ لکھی یہ دستاویز ہر موقع پہ خوف خدا دلاتی رہے کہ اک دن یوم حساب بھی آنا ہے۔ایسا نہ ہو کہ ان کے پاس اپنے زخموں کی داد رسی کروانے کیلئے آنے والوں کے ہاتھ بد دعا کیلئے اٹھ کر عاقبت خراب کرنے کا باعث بن جائیں۔تصویر کے دوسرے رخ کو دیکھنا بھی ضروری ہے۔جو ڈاکٹر صاحبان اپنے مطالبات کیلئے سڑکوں پہ نکل رہے ہیں ،اک طرف انہیں مہذب طریقہ اختیار کرنا چاہئے۔

دوسری طرف ان کے جائز مطالبات پہ بھی ضرور غور کیا جانا چاہئے۔اس کے ساتھ ساتھ نا جائز مطالبات اور ہڑتالیں بھی اپنا پس منظر رکھتی ہیں۔ان کے زمہ داران کے خلاف کاروائی ہونا چایئے۔تا کہ پتہ چل سکے کہ اس ذلت و خواری کے اصل ذمہ دارکون ہیں اور ان کے کیا مقاصد ہیں؟یہاں ڈاکٹروں کی بھی دو اقسام ہیں ۔ایک وہ ہیں جو اپنی تنخواہ میں ہی گذارہ کرتے ہیں اور عوامی خدمت میں بھی پیش پیش ہیں مگر جن کا مستقبل سوالیہ نشان ہے۔

دوسری طرف ایسے ڈاکٹرز بھی ہیں جو جائز و نا جائز ذرائع سے اس پیشے میں کروڑوں کماتے ہیں لیکن ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں۔جعلی ادویات کا مکروہ دھندہ بھی ان جیسی ہی کالی بھیڑوں کی وجہ سے معاشرے میں موت بانٹ رہا ہے۔ان سب کا احتساب ضروری ہے تا کہ پتہ چل سکے کہ کون رگوں میںدوڑتے خون کیلئے مسیحائی کا باعث بنتا ہے جب کہ سڑکوں پہ اک مہذب پیشے کے حامل افراد کو لانے والے کس طرح کے مقاصد چاہتے ہیں اور کیوں وطن عزیز کو بدنام کرنے پہ تلے ہوئے ہیں۔

Nimra Malik

Nimra Malik

تحریر : نمرہ ملک