میری بیٹی امریکی ریاست ٹیکساس کے شہر ہوسٹن میں ڈاکٹر ہے اور اُس کا میاں چارٹرڈ اکاؤ نٹنٹ(سی پی اے) ۔ وہ دونوں کروڑوں روپے سالانہ تنخواہ لے رہے ہیںلیکن ہماری شدیدترین خواہش تھی کہ وہ پاکستان آجائیں کہ ”جو سُکھ اپنے چوبارے، وہ بلخ نہ بخارے”۔ اب محترم چیف جسٹس آف پاکستان کے کِڈنی اینڈ لیور انسٹیٹیوٹ میں بھاری تنخواہوں اور انسٹیٹیوٹ پر اُٹھنے والے بیس اَرب روپے کے اخراجات کے خلاف اَ زخود نوٹس کے بعد ہماری اِس خواہش پر اوس پڑتی دِکھائی دیتی ہے۔ ڈاکٹر سعید اختر 12 لاکھ اور اُن کی اہلیہ 8 لاکھ روپے تنخواہ لے رہے ہیں ۔ ڈاکٹر صاحب ٹیکساس یونیورسٹی میں شعبہ یورالوجی کے چیئرمین تھے اور اُن کی اہلیہ معروف انستھیزیسٹ۔ وہ دونوں امریکہ میں کروڑوں روپے ماہوار کما رہے تھے اور وہاں اُن کا ایک چھوٹا ذاتی جہاز بھی تھا۔ پھر ہوا یوں کہ ڈاکٹر صاحب کے دِل میں وطن کی محبت نے جوش مارا اور وہ سب کچھ چھوڑ چھاڑ کے پاکستان لوٹ آئے۔ اُن کا خواب ایک بین الاقوامی معیار کا کِڈنی اینڈ لیور سنٹر قائم کرنا تھاجس کی تکمیل وزیرِاعلیٰ پنجاب میاں شہباز شریف نے کر دی اور آجکل ڈاکٹر صاحب ”عصائے عدل” کی گرفت میں ہیں۔ اچھی بات یہ ہوئی کہ جب ڈاکٹر سعید12جون کو عدالت میں پیش ہوئے تو محترم چیف جسٹس نے ڈاکٹر سعید کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا ”آپ بیرونِ ملک کروڑوں روپے کی مراعات چھوڑ کر خدمت کے لیے آئے ہیں، اِس کی قدر کرتے ہیں۔ مجھ سے غلطی ہوئی تو معافی مانگ لوں گا۔ اگر آپ نے کچھ نہیں کیا تو اُن تک پہنچنے میں ہماری مدد کریں جنہوں نے کچھ کیا”۔ چیف صاحب نے یہ بھی فرمایا کہ اُنہیں تنخواہ سے کوئی غرض نہیں ،وہ تو 20 ارب روپے کا حساب مانگ رہے ہیں۔
حیرت ہے کہ جس شخص کے دِل میں بھی وطن کی محبت جوش مارتی ہے، وہی گرفتارِ بَلا ہو جاتا ہے۔ محسنِ پاکستان ڈاکٹر عبدالقدیر خاں نے پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی قوت بنایا لیکن آمر پرویز مشرف نے اُن کے ساتھ جو سلوک کیا، وہ اب تاریخ کا حصّہ ہے۔ کروڑوں روپے کمانے والے ڈاکٹر سعید اختر کے ساتھ جو سلوک ہورہا ہے، وہ بھی سب کے سامنے ہے۔ حقیقت یہ کہ امریکہ میں تنخواہ ڈالروں میں ملتی ہے اور ایک ڈالر 120 روپے کا ہے۔ اِس حساب سے دیکھا جائے تو ڈاکٹر سعیداختر اور اُن کی اہلیہ،دونوں کی ماہوار تنخواہ لگ بھگ ساڑھے سولہ ہزار ڈالر بنتی ہے ۔ اب امریکہ میںکروڑوں روپے ماہوار کمانے والایہ ”جوڑا” اگر اتنی تنخواہ پر راضی ہو جاتا ہے تو ہمیں اُس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے نہ کہ سوشل میڈیا پر طوفانِ بدتمیزی۔ اِسی انسٹیٹیوٹ میں بیرونی ممالک سے آئے ہوئے ڈاکٹرز ڈاکٹر سعید اختر سے بھی زیادہ تنخواہ لے رہے ہیں۔ ویسے بھی اگر دیکھا جائے تو موجودہ مہنگائی اور روپے کی ناقدری کے حوالے سے یہ تنخواہیں زیادہ نہیں۔ شوکت خانم کینسر ہسپتال میں ڈاکٹرز تیس، تیس لاکھ روپے ماہانہ لے رہے ہیں۔ اگر نصیبوں جَلی اِس قوم کو ایک بین الاقوامی معیار کا لیور اینڈ کِڈنی سنٹر نصیب ہو ہی گیا ہے تو محترم چیف جسٹس صاحب سے دَست بستہ درخواست ہے کہ وہ ”ہَتھ ہَولا” رکھیں ۔لیکن اگر انسٹیٹیوٹ پر اُٹھنے والے بیس اَرب روپے کے اخراجات میںکوئی کرپشن نظر آتی ہے تو ذمہ داران کو نشانِ عبرت بنا دیں۔
کتنی بدقسمتی کی بات ہے کہ ہم لاکھوں روپے صَرف کرکے ایک ڈاکٹر بناتے ہیںاور وہ بیروزگاری کے ہاتھوں مجبور ہو کر ملک سے باہر چلا جاتا ہے لیکن اگر کوئی وطن کی محبت سے سرشار ہو کر لَوٹ آتا ہے تو پاکستان میں اُس کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے، اُسے دیکھ کر وہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کہیں اُس نے پاکستان آکر حماقت تو نہیں کی۔ اِسی تنخواہ کے معاملے پر محترم عطاء الحق قاسمی کو بھی عدالتِ عظمیٰ نے طلب کیا۔ قاسمی صاحب بطور چیئرمین پی ٹی وی 15 لاکھ روپے ماہوار تنخواہ لے رہے تھے جس پر کچھ لوگوں کے پیٹ میں ”مَروڑ” اُٹھنے لگے اور کروڑوں روپے اُن کے کھاتے میں ڈال دیئے گئے۔ قاسمی صاحب نے اِس سلسلے میں وضاحتی کالم بھی لکھے لیکن بے سوداور ”نقارخانے میں توتی کی آواز” کے مصداق ۔ آبروئے اُردوادب عطاء الحق قاسمی وہ شخصیت ہیں جو سفارت کو لات مار کر پاکستان لوٹ آئے کہ وہ کسی آمر کے زیرِسایہ کام کرنا پسند نہیں کرتے تھے۔ آمر پرویز مشرف کی طرف سے اُنہیں واضح پیغام ملا تھا کہ وہ بطور سفارت کار اپنا کام جاری رکھیں لیکن وہ استعفےٰ دے کر گھر آگئے۔ اب بھی پی ٹی وی میں 15 لاکھ روپے ماہانہ لینے والے موجود ہیںاور ماضی میں بھی کم وبیش اتنی ہی تنخواہیں وصول کی جاتی رہی ہیں۔ کیا محترم چیف جسٹس صاحب اِن اصحاب کے خلاف بھی اَز خود نوٹس لیں گے؟۔
ہماری عدالتِ عظمیٰ اِن دِنوں بہت فعال ہے خصوصاََ چیف جسٹس میاں ثاقب نثار صاحب نے تو اَزخود نوٹسز کی تاریخ رقم کر دی ہے۔ اُن کا یہ کہنا بالکل بجا کہ اگر حکمران نہیں کریں گے تو کسی نہ کسی کو تو یہ کام کرنا ہی پڑے گا۔ اب ہفتہ اور اتوار کو بھی عدالت میں کام جاری ہوتا ہے اور چیف صاحب عصائے عدل تھامے اپنے کام میں مگن۔ اُن کے اَزخود نوٹسز پر قوم خوش بھی ہے اور مطمئن بھی لیکن ”خوگرِ حمد سے تھوڑا سا گِلہ بھی سُن لے” کے مصداق عدلیہ کے بعض متنازع فیصلے اظہرمِن الشمس۔ پاناما کیس میں سپریم کورٹ کے پانچ رُکنی بنچ کامیاں نوازشریف کی نااہلی کا فیصلہ آج بھی متنازع ہے اور نہ صرف عوام بلکہ وکلاء کی کثیر تعداد کو بھی اِس فیصلے میںخامیاں ہی خامیاں نظر آتی ہیں۔
13 جون کو جسٹس شیخ عظمت سعید کی سربراہی میں قائم سپریم کورٹ کے تین رکنی بنچ نے شیخ رشید احمد کے خلاف شکیل اعوان کی پٹیشن خارج کرتے ہوئے شیخ رشید کو اہل قرار دے دیا۔ یہ فیصلہ متفقہ نہیں آیا بلکہ بنچ کے ایک رُکن قاضی فائز عیسیٰ نے اختلافی نوٹ لکھا۔ اُنہوں نے لکھا کہ آرٹیکل 62-1F پر فُل کورٹ تشکیل دیا جانا چاہیے جو اِس آرٹیکل کی تشریح کرے۔ فیصلے کے بعد پٹیشنر شکیل اعوان نے کہا کہ اب پتہ چلا کہ پاکستان میں انصاف کا حصول کتنا مشکل ہے۔جسٹس شیخ عظمت سعید اُس پانچ رُکنی بنچ کا بھی حصّہ تھے جس میں میاں نوازشریف کو اپنے بیٹے سے تنخواہ نہ لینے کے ”جرم” میں نااہل قرار دے دیا۔ میاں صاحب کہتے ہیں کہ جب اُنہوں نے بیٹے سے تنخواہ لی ہی نہیں تو پھر وہ کاغذاتِ نامزدگی میں اِس کا ذکر کیوں کرتے۔ دوسری طرف شیخ رشید احمد کے وکیل نے غلطی کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ اُن کے ،مؤکل نے اپنے اثاثہ جات ظاہرتو کیے لیکن حساب کتاب میں غلطی ہو گئی۔ گویا شیخ رشید نے یہ تسلیم کر لیا کہ اُنہوں نے اپنے اثاثہ جات کے بارے میں جھوٹ بولا ۔ حیرت ہے کہ ایک طرف تو وہ شخص ہمیشہ ہمیشہ کے لیے نااہل قرار دیا جا رہا ہے جس نے نہ کبھی اپنے بیٹے سے تنخواہ لی اور نہ ہی وہ اُس کے اثاثوں میں شامل ہے جبکہ دوسرا شخص جو اپنے جرم کا اقرار بھی کرتا ہے لیکن پھر بھی وہ صادق وامین ٹھہرتا ہے۔ کیا محترم چیف جسٹس صاحب قوم کو نفسیاتی مریض بنا دینے والے آرٹیکل 62-1F کی تشریح کے لیے فُل کورٹ تشکیل دیں گے؟؟؟۔۔۔۔۔