جب ہوا میں خنکی ہو اور موسم سرد ہونے لگے تولا محالہ ایک تاریخی منظر نگاہوں سے نقاب الٹ کر ایک لمحے کیلئے سوچ و بچار کے بند دریچے کھولنے پر مجبور کر دیتا ہے گذشتہ سال دسمبر کا مہینہ تاریخی مینار پاکستان کے سائے تلے ایک جم غفیر کو کبھی نہیں بھولے گا جب ڈاکٹر طاہر القادری کی پاکستان آمد کے موقع پر لاکھوں افراد نے ان کا استقبال کیا۔ 23 مارچ کی قرارداد پاکستان کے اجتماع کی یاد تازہ کردی۔ یہ استقبال ہی نہیں تھا بلکہ ایک منفرد منظم اجتماع تھا جو ترستی نگاہوں سے کسی مسیحا کا منتظر تھا جو ان کے دکھوں کا مداوا کر سکے۔
مینار پاکستان کے تاریخی استقبال میں اتحاد و یگانگت کا اصول نمایا ں تھا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کے کارکنوں کے ہاتھوں میں ان کی پارٹی کا پرچم نہیں تھا بلکہ پاکستان کا سبز ہلالی پرچم ہر طرف فضا میں سر بلند تھا۔ لوگ یخ بستہ اور کمر بستہ تھے لیکن ان کے جذبے جواں تھے، آنکھوں میں چمک تھی اور روشن مستقبل کا خواب تھا۔ اچانک منظر بدل کیا اور میڈیا پر ایک ہنگامہ سا بپا ہوگیا کہ ڈاکٹر طاہر القادری کی اچانک آمد کسی مخصوص ایجنڈے کا پیش منظر تو نہیں، الیکٹرانک میڈیا نے اپنی توپوں کا رخ شیخ الاسلام کی طرف کردیا۔
اب تو دھرنے کی کال بھی دی جاچکی تھی ! 14جنوری ڈی چوک میں تاریخ نے دیکھا کہ ایک منظم، پر امن، پڑھا لکھا مردوزن کا تاریخی اجتماع ہوا جو چاردن اور چار راتیں ایک پتا بھی ٹوٹے بغیر اختتام پذیر ہوا۔ اس دوران ساری دنیا کی نگاہیں ٹی وی سکرین کے ذریعے اس دھرنے پر مرکوز تھیں اور ٹاک شوز میں مثبت و منفی، ملے جُلے ردعمل کا اظہار ہورہا تھا۔ میں خود بھی منہاج القرآن اور پاکستان عوامی تحریک کے ترجمان کی حیثیت سے ٹاک شوز میں شریک رہا۔
اس عرصے میں غالباً تین سو سے زائد سیاسی ٹاک شوز میں مجددِ عصر ڈاکٹر محمد طاہر القادری کے عوامی ایجنڈے، آپکی شخصیت ، کارناموں اور علمی و فکری سیاسی خدمات بیان کرنے کا سنہری موقع ملا۔یہ میری زندگی کے سنہرے اور یادگار لمحات تھے جب حضور شیخ الاسلام سے لمحہ بہ لمحہ ٹیلی فونک رابطہ رہتا۔ گراں قدر رہنمائی ملتی ۔ پھر سریم کورٹ پیشی کے موقع پر حضور شیخ الاسلام سے بالمشافہ ملاقاتوں کا موقع ملا۔
میں نے تاریخ میں اتنا سادہ ، صاف ستھرا، نفیس ، روشن خیال، ملنسار ، عاجز ، عظیم مفکر نہیں دیکھا جس نے کروڑوں عوام کے لئے آرٹیکل 62, 63 کی صدا بلند کی، سکرونٹی کی بات کی ، آئین پاکستان پر عملدرآمد کی بات کی، کروڑوں پاکستانیوں کو اصل جمہوریت اور نظام کی تشکیل کی بات کی۔ ڈاکٹر طاہرالقادری پاکستانی عوام کا مقدمہ لڑنے وطن عزیز آئے۔ گلے سڑے بوسیدہ انتخابی نظام کی اصلاح اور تطہیر کی بات کی۔
Tahir Ul Qadri
ڈاکٹر طاہر القادری کا جرم یہ ہے کہ وہ اشرافیہ، سرمایہ دار، جاگیر دار اور کرپٹ حکمرانوں کے خونی پنجوں سے اس قوم کو آزاد کراکر ایک صاف شفاف اور دیرپا عوام، فلاحی ، جمہوری ریاست کے قیام کی طرف لے جانا چاہتاہے۔ ڈاکٹر طاہر القادری کی ساری باتیں آج سچ ثابت ہوچکی ہیں اور اب تو مخالفین بھی ماننے پر مجبور ہیں کہ ”سیاست نہیں، ریاست بچائو کا نعرہ وقت کا اہم ترین تقاضا ہے۔
دہشت گردی کے خلاف ڈاکٹر طاہر القادری کے ٨٠٠صفحات پر لکھے گئے علمی شاہکار فتوے پر عملد ر آمد کردیا جائے تو پورے ملک میں 24 گھنٹے میں اتہاپسندی اور دہشت گردی کی بیخ کنی ہوسکتی ہے ۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے اب ایک کروڑ نمازیوں کی صف بندی شروع کردی ہے اور صف بندی مکمل ہونے پر نماز کھڑی ہوگی اور بوسیدہ نظام زمین بوس ہوگا جس نے 65 سالوں سے غریب کی ٹیکس کی آمدنی پر شب خون مارے رکھا ہے۔
5 سال ایک دوسرے کو گالیاں دینے والے آج ایوان صدر کے الوداعی ظہرانے میں ایسے بغل گیر ہوئے جیسے صدیوں کے بچھڑے تھے۔ 5 سال ہم نے کھا یا اب تم کھائو۔ ڈاکٹر طاہر القادری نے ان بھیانک سیاستدانوں کے مک مکا کا پہلے عندیہ دے دیا تھا۔ میرا گذشتہ دنوں متحدہ عرب امارات جانے کا اتفاق ہوا تو میں ورطہ حیرت میں مبتلا ہوگیا کہ ہر طرف پاکستانی سیاستدانوں کے پلازے ، ہوٹل ، فلیٹس اور بھاری انوسٹمنٹ دیکھنے کو ملی، میاں نواز شریف کی انوسٹمنٹ (J.L.T)دبئی میں ہے۔
اس ٹاور کا نام H.D.S ہے۔ اسی طرح اربوں روپے کے ہوٹلز، شاپنگ مال ان حرام خوروں کے ہیں جنہوں نے عوام کے پیسے پر شب خون مارکر رقم لندن، دبئی ، سپین، سوئٹرزلینڈ ، فرانس کے بینکوں میں رکھی ہے اور دوسروں کو پاکستان میں سرمایہ کاری کرنے کا مشورہ دیتے ہیں۔
اب ڈاکٹر طاہر القادری نے عوام کے شعور کے دروازے پر دستک دے دی ہے ، نمازی صف بندی میں مصروف ہیں اور عنقریب ایک انقلاب کا سورج طلوع ہونے کو ہے جس کے لئے افواجِ پاکستان،عوام اور غریب نے قربانیاں دی ہیںآئیے ڈاکٹر طاہر القادری کا دست و بازوبن کر 1کروڑ نمازی تیار کریں پھر سجدہ بھی سجدہ ء شبیری نما ہوگا اور منزل قریب ہوگی۔