چند دن پہلے کا واقعہ ہے کہ ایک نوجوان ڈاکٹر نے ایک عمر رسیدہ نرس کو تھپڑ مارا۔ جس پر میڈیا روائتی انداز میں مذمت کرتا رہا۔ صاحب ضمیر لوگوں کے دل دکھے اور میرا دل خوش ہوا۔میں اس لیے خوش ہوا کہ میں تقریباً وہ پہلا فرد ہوں جو قوم کو مسیحا کے اس رویے پر مبارکباد دوں گا۔ یہ ہمارے لیے اعزاز سے کم نہیں۔ جہاں ایک مسیحا کہلانے والا بزرگ خاتون کو تھپڑ مار کے اس کو ڈیوٹی کا احساس دلائے میں خوش بھی ہوں اور حیران بھی ہوں اگر اس رویے کے حامل افراد ہمارے مسیحا ہوں۔ تو مسیحائی سے اس سے بڑا مزاق کیا ہوگا۔ ہم بہت ترقی کر چکے ہیں ہم بہت عقل مندہیں ہم قانون کے اتنے بڑے پابند ہو گئے کہ ماں کی عمروالی خاتون کو مار سکتے ہیں لیکن آئین وقانون میں سستی برداشت نہیں کرسکتے۔کیا مجھے اس بات پہ خوشی نہ ہو۔ کیا مجھے آپ لوگوں کو مبارکباد نہیں دینی چاہئیے۔ کیا یہ خوشی کا موقع نہیں ہے کہ ہم لوگ خود تو ٹھیک ہو نہیں سکتے مگر ڈنڈے کے زور پرسب کو سیدھا کریں گے۔
ایک واقعہ ہے کہ ایک (پٹھان)کے پاس سے ہندو گزرا۔ مسلمان نے اس سے پوچھا کیا تم ہندو ہو۔اسنے جواباً تصدیق کی تو پٹھان نے اس پر بندوق تان لی اور اس سے کہا اگر تم نے کلیما(کلمہ) نہیں پڑھا تو میں تمہیں قتل کردوں گا۔ تو ہندو نے کہاکہ ”مجھے قتل نہ کرو مجھے اپنا کلیما(کلمہ )پڑھا دو۔ پٹھان نے بڑے افسوس کیساتھ کہا کہ کاش آج مجھے کلیما آتا تو ایک بندہ مسلمان ہو جاتا۔ قارئین سنسکرات میں ہندو کے معنی”چوریاغلام”کے ہیں۔ ہندو مفکرین ہندو لفظ سے سخت نفرت کر تے تھے۔
واقعہ ہے چند ماہ پہلے فیصل آباد کی عدالت میں وکیل نے حج کو جوتا مار کربڑی دلیری کا ثبوت دیا اسی طرح پنجاب کی عدالت کا ایک اور واقعہ ہے کہ وکیل نے مرضی کا فیصلہ نہ ملنے پرحج کو تھپڑ مار دیا۔ اس کالائسنس ہمیشہ کیلئے ختم ہو جانا چاہیے تھا مگر چند عرصے کے بعد بحال ہو گیا۔ یہ ہمارے رویے ہیں۔ یہ ہمارے اندر کے انسان کے حقائق ہیں اس پر مایوس نہیں ہونا چاہیے سوچنا چاہئے کہ ہم کتنی ترقی کر گئے۔ جہاں پر ادب و احترام کا رشتہ تقریباً ناپید ہو چکا ہے۔
Sardar Muhammad Yaqoob Khan
آزاد کشمیر کے صدر سردار یعقوب کے پاس ایک شخص نے دہائی دی کہ میری لڑکی کو چند لوگ اغواء کر کے لے گئے ہیں میری مدد کریں تو سردار صاحب نے جواباً ارشاد فرمایا کہ تمہاری لڑکی کو کسی نے اغواء نہیں کیا بلکہ وہ بھاگ گئی ہے امداد کے طور پر اس کو 100 روپے دے خوشائد سردار صاحب نے بیٹی کی عزت کے عوض دیے وہ شخص غریب تھا روتا رہا بے بس اور لاچار آدمی کیا کر سکتا ہے میں نے سردار صاحب کے اس رویے کوب ھی اپری شیٹ کیا کیوں کہ جب بھی ووٹ کی باری آتی ہے۔ تو ان کو کچھ نظر نہیں آتا بلکہ صرف سردار نظر آتا ہے ان کو پڑھا لکھا فرد اچھا نہیں لگتا بلکہ کہتے ہیں۔ جو بھی ہو ہمارا سردار ہے سردار ہماری عزت کیساتھ جوب ھی کرتا رہے۔ ان کی پروا نہیں ہوتی۔ ہم اپنے سردار کو نہیں چھوڑ سکتے۔
جب ہم اپنے رویے تبدیل نہیں کریں گے تو ہمارے حکمران کیسے تبدیل ہوں گے جب ہم بے حسی کا مظاہرہ کریں گے تو کیا ہمیں عزت ملے گی؟ بلکہ جوتے اور گالیاں ہمارا مقدر بنیں گی کیا ہم اس ڈاکٹر کا بائیکاٹ کریں گے۔ جس نے غیرت وحمیت سے عاری ہو کربے حسی اور بے شرمی کاثبوت دیا اور اپنی ماں جیسی عمر رسیدہ خاتون کو تھپڑ مار دیا۔ کیا ہم اس کیلئے احتجاج کریں گے کیا ہم اس ڈاکٹر کے سماجی اور سیاسی تعلقات ختم کریں گے اس وقت تک جب تک وہ سر عام اس خاتون سے معافی نہ مانگ لے اور غلطی کا ازالہ کرے مزہ توتب ہے جب ہم اس کے خلاف اس وقت تک برسر پیکار رہیں جب تک سب کے سامنے وہ عمر رسیدہ نرس اس کوتھپڑنہ مارے تا کہ اس کے اندر جو غرور و تکبر ہے اس کاقلع قمع ہو اس کے اندر کا مردہ ضمیر جاگ اٹھے مجھے پوری امید ہے ہم ایسا نہیں کریں گے کیوکہ ہم زندہ قوم ہیں ہم پیچھے مڑکر ماضی کو نہیں دیکھتی بلکہ مستقبل کی سیڑھی کی سفر طرف رواں دواں رہتے ہیں چاہیے وہ سیڑھی کسی اوپر ظلم کر کے بنی ہیں۔ چاہئے وہ غریب کاحق مارکے بنائی گئی ہو۔ ہمیں سیڑھی چاہیے چاہیے وہ کسی غریب کے خون پسینے کی کمائی کو مار کے مضبوط کی گئی ہو۔ کیا ہم احتجاج کریں گے۔ یالوے لنگڑے لوگوں کی طرح پڑے رہیں گے۔
صاحب ضمیر لوگوں کیلئے ہاتھ پائوں مسلہ نہیں ہوتے۔ بلکہ وہ لوگ بغیر ہاتھ کے بھی کام کر تے ہیں۔ بغیر بازوں کے جرات و بہادری کے کارنامے، انجام دیتے ہیں زندہ دل و دماغ کے مالک لوگ بغیر پائوں کے بھی سفرطے کر تے ہیں اور ایسے لوگوں کے کامیابی قدم چومتی ہے۔ منزل استقبال کرتی ہے مشکلات راستہ دیتی ہیں کانٹے راستہ چھوڑ دیتے ہیں پتھر اونچ بیچ جگہوں کو ہموار کر تے ہیں زندہ دلی کفن پہن چکی ہے ناکامی اور نامرادی کو وہ اپنا مقتدر سمجھ چکے ہیں۔ یہ لوگ تو ہاتھ کے ہوتے ہوئے لولے ہیں پائوں سلامت ہیں مگر لنگڑوں سے بدتر ہیں سید فضل گیلانی کے دو شعر ہے ستم تویہ ہے یہاں حکمران آتے ہیں لہو کا آخری قطرہ نچوڑنے کیلئے بپا ہے اب جو زمانے میں اتنا کافی ہے تیرے ضمیر کو سید جھنجھنوڑنے کیلئے۔