چنیوٹ کے ہسپتال میں ایک انوکھا واقعہ پیش آیافرش پر پیدا ہونے والے بچے کی نگہداش نہ ہو سکی اور وہ فوت ہوگیا ڈاکٹروں نے تین دن تک مردہ بچے کو ماں کے ساتھ ہی لٹائے رکھا اس خبر کی تفصیل آخر میں لکھوں گا پہلے ان مسیحاؤں کے کارنامے پڑھ لیں جو آجکل پھر ہڑتال پر ہیں یہ وہ بدمعاش طبقہ ہے جو ہر حکومت کو بلیک میل کرتا آیا ہے اسلام آباد میں احتجاج اور مار کٹائی کے بعد انہوں نے ہسپتالوں کی او پی ڈی بند کردی اگر ان میں اتنی ہی جرات اور بہادری ہے تو پھر یہ اپنی نوکری پر دو حرف بھیجیں اور اپنا کوئی دھندہ کرلیں ہسپتالوں کے اندر گردن میں چھ انچ کا سریا لیے کسی مریض سے سیدھے منہ بات کرتے ہیں اور نہ ہی انکے کسی لواحقین سے۔ اپنے کمروں میں ایسے بیٹھتے ہیں جیسے یہ ہسپتال انکے والد صاحب نے بنوا کر حکومت کو تحفے میں دیدیا ہوکہ یہاں پر میرا بیٹا غریبوں پر اپنا ہاتھ سیدھا کرکے ایک دن بڑا سرجن یا فزیشن بن جائیگا سرکاری ہسپتالوں میں ان چھوٹے چھوٹے ڈاکٹروں کے نخرے اور رعونت اس حد تک بڑھی ہوئی ہوتی ہے کہ آپ انہیں ایک سے دوسرے بار جا کریہ نہیں کہہ سکتے کہ جناب ہمارا مریض مر رہا ہے پلیز آکر ایک بار دیکھ ہی لیں۔
ان سے جو بڑے ہیں پروفیسر وغیرہ وہ تو ہسپتال کو اپنی جاگیر سمجھتے ہیں اور باقی سب انکے مزارعے دل کیا تو چکر لگا لیا ورنہ اللہ کے سہارے یہ نظام تو چل ہی رہا ہے آجکل سوشل میڈیا باقی سب میڈیا کو مات دے رہا ہے جو سٹوریاں اخبارات اور ٹی وی چینلز پر چلنی چاہیے وہ سوشل میڈیا کے زریعے ہم تک پہنچ رہی ہیں اور بعض اوقات تو سرکاری ہسپتالوں کے اندر ہونے والے دلخراش واقعات کو دیکھ کر آنسو نکل آتے ہیں۔
سوچتا ہوں کہ ڈاکٹر اور پیرامیڈیکل سٹاف نہ جانے کس بات کا بدلہ غریب عوام سے لیتے ہیں حالانکہ یہ خود نہیں تو انکے والدین زرور غربت کی دلدل میں ڈبکیا لگاتے رہے ہونگے اور جس مشکل سے اخراجات انہوں نے اپنے بچوں کو ڈاکٹر بنانے کے لیے پورے کیے ہونگے یہ وہی جانتے ہونگے یا انکے بدمعاش ڈاکٹر پتر جانتے ہونگے ڈاکٹر بننے کے بعد سرکاری نوکری کے لیے جو جتن انہیں کرنے پڑتے ہیں وہ تو الگ ہاؤس جاب کیلیئے انہیں معلوم ہوگا کہ کس کس کی منتیں اور ترلے کرنا پڑتے ہیں مگر جیسے ہی یہ پکے ڈاکٹر بن جاتے ہیں تو پھر یہ ہر کام کچا کرنا شروع کردیتے ہیں بے دلی سے مریضوں کا علاج انکا وطیرہ بن جاتا ہے پیسے کی ہوس میں اندھا ہونے والا یہ طبقہ کبھی ادویات کی فروخت میں میڈیسن کمپنیوں کا حصے دار بن جاتا ہے تو کبھی موت کے منہ میں بیٹھے ہوئے مریضوں کے ٹیسٹوں پر بھی اپنا کمیشن لیتا ہے۔
بڑے بڑے ہسپتالوں میں ڈاکٹر اپنی مرضی سے کام کرتا ہے اور جو ہمارے دیہی علاقوں کے ہسپتال ہیں وہاں پر تو ڈاکٹر کبھی کبھار جب اسکا دل آؤٹنگ کرنے کو چاہے تو ہسپتال کا چکر لگا لیتا ہے ورنہ تو وہاں کا پیرامیڈیکل سٹاف ہی علاقے کے مریضوں کے لیے ڈاکٹروں کا درجہ رکھتا ہے وہی ڈسپنسر اپنے اپنے گاؤں میں مکمل ڈاکٹر بن کر ہر قسم کے مریض کا علاج کررہے ہوتے ہیں یہاں ہم رونا روتے ہے سیاستدانوں کا،پولیس کا،واپڈا کا،پٹواریوں کا نہ جانے کس کس محکمے مگر ڈاکٹروں کو ہمیشہ ہم نے مسیحا ہی سمجھا اور لکھا کہ ہمارے جیسے کرپٹ معاشرے میں چلوں یہ بھی کوئی انیس بیس کرلیتے ہیں تو کوئی بات نہیں حکومت کے پاس وسائل نہیں اور عوام کی ہمت نہیں اسکے باوجود یہ طبقہ عوام کی خدمت میں لگا ہوا ہے مگر اسکا یہ مطلب نہیں کہ ہمیں آپکی بدمعاشیاں یاد نہیں مریضوں،لواحقین سمیت وکلاء اور صحافیوں کے آپ گلے پڑ چکے ہیں لڑائی مار کٹائی آپ کا پیشہ بن چکا ہے جوں جوں آپ تجربہ کار ہوتے جاتے ہیں اتنی ہی آپ میں سے انسانیت غائب ہوتی جاتی ہے اللہ تعالی نے درد دل کے لیے انسانوں کو پیدا کیا ہے ورنہ عبادت کے لیے تو فرشتے کم نہیں تھے۔
آپ لوگ فرشتے بننے کی کوشش نہ کریں صرف انسان بن کر غریب انسانوں کی خدمت کرلیں یہی آپکا فرض اور ڈیوٹی ہے اسی کام کی آپکو تنخواہ ملتی ہے یہ کہاں لکھا ہوا ہے کہ آپ تنخواہ اپنی مرضی کی لیں اور کام بھی اپنی مرضی سے کریں جب دل کیا مریض کو چیک کرلیا ورنہ تو موبائل کے ساتھ مصروف رہے موبائل کا استعمال ضرور کیجیئے مگر اپنی ڈیوٹی کے بعد دوستوں سے گپیں ضرور لگائیں مگر اپنی ڈیوٹی کے بعد اور مخصو ص مقامات پرکچھ خاص کاموں کیلیئے آپ لوگوں نے جوکمرے اور گھر کرائے پر لے رکھے ہیں انہیں بھی اپنے استعمال میں لائیں مگر اپنی ڈیوٹی ٹائم کے بعد آپ اچھی خاصی اور معقول تنخواہ لے رہے ہیں خدا کے لیے کسی اور کے لیے نہیں صرف اپنے پیسے کو رزق حلال بنانے کے لیے اپنے رویوں میں تبدیلی لائیں حکومت نے یا کسی فرد نے آپ کے پیروں میں زنجیریں تو نہیں ڈالی ہوئی آپ جب چاہیں چھوڑ کر چلے جائیں۔
یورپ میں شفٹ ہو جائیں وہاں جا کر کام کرلیں مگر پاکستانیوں پر مہربانی فرمائیں جو 50 روپے کے موبائل لوڈ پر بھی ٹیکس دیتے ہیں تاکہ آپ لوگوں کو بروقت تنخواہیں اداکی جاسکیں آپ مسیحا ہیں مسیحا بن کر دکھائیں بدمعاش تو ہم نے بہت سے پیدا کیے اب آتے ہیں چنیوٹ والی خبر پر جسکے مطابق ڈی ایچ کیو ہسپتال کے عملہ کی مبینہ غفلت سے نومولود بچہ فرش پر دم توڑ گیا نعش تین دن فرش پر پڑی رہی لواحقین کے حوالے نہیں کی گئی چنیوٹ کے نواحی علاقہ پتراکی کی رہائشی نورین کی حالت خراب ہوئی تو اس کے اہل خانہ اسے ڈسٹرکٹ ہیڈکواٹر ہسپتال لائے جہاں اے بیڈ فراہم نہ کیا گیا تو اس نے زمین پر ہی بچے کو جنم دے دیا اور فی الفوز طبی امداد نہ ملنے پربچہ فرش پر ہی دم توڑ گیاجس پر ہسپتال عملہ نے نورین کو بیڈ فراہم کرکے مردہ بچے کوبھی اس کے ساتھ ہی لیٹا دیا تین دن مردہ بچہ ماں کے ساتھ پڑا رہا یہ ہے ہمارے مسیحاؤں کا کردار اور اب یہ سڑکوں پر ہیں ہسپتالوں کی او پی ڈیز بند کررکھی ہے اور خود مزے سے بیٹھے گپیں لگا کر مہینے کی آخری تاریخوں کا انتظار کرہے ہیں کہ کب حق حلال کی تنخواہ انکے بنک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر ہو اور پھر وہ ان پیسوں سے اپنے والدین اور بیوی بچوں کی خدمت کر سکیں۔