اسلام آباد (اصل میڈیا ڈیسک) پاکستان میں کئی ڈاکٹر کورونا کا شکار ہو چکے ہیں۔ لیکن جوں جوں ہسپتالوں پر دباؤ بڑھ رہا ہے لوگوں کا غم و غصہ بھی حکام کی بجائے ڈاکٹروں پر نکل رہا ہے۔
اسلام آباد کے پاکستان انسٹیٹوٹ آف میڈیکل سائنسنز سے وابستہ ڈاکٹر اسفندیار خان نے خدمت خلق کے جذبے کے ساتھ شعبہ طب کو اپنایا تھا۔ وہ بہت پر امید تھے لیکن کورونا کی وبا کے بعد ان کی توقعات دم توڑتی جارہی ہیں۔ ملک میں دوہزار سے زائد افراد اس وبا کے باعث دنیا فانی سے کوچ کر چکے ہیں، جس میں ڈاکٹر، نرسیں اور پیرا میڈیکل اسٹاف بھی شامل ہیں۔
ڈاکٹر اسفندیار کو سب سے زیادہ افسوس اس بات کا ہے کہ جو طبی عملہ اپنی جان پر کھیل کر لوگوں کی جانیں بچانے میں مصروف ہے، اب ان کی اپنی جان کے بھی لالے پڑے ہوئے ہیں۔
انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ایک طرف پی پی ایز نہ ہونے کی وجہ سے ڈاکٹر وائرس کا شکار ہورہے ہیں اور دوسری طرف اسپتالوں میں وینٹیلٹرز اور دوسری سہولیات کی عدم دستیابی کی وجہ سے ڈاکٹروں پر حملے اور تشدد کے واقعات پیش آرہے ہیں۔ انہوں نے کہا، “لوگوں میں یہ پرو پیگنڈہ ہے کہ ڈاکٹرز نہ جانے مریضوں کو کونسے انجیکشن لگا رہے ہیں۔ اس صورت حال نے زیرتربیت اور نئے آنے والے ڈاکٹروں کو بہت پریشان کردیا ہے اور وہ خوف کا شکار ہیں۔”
حال ہی میں ایک ہجوم نے اپنے مریض کے ہلاک ہونے پر سول اپستال کراچی میں ہنگامہ کیا اور کئی قیمتی مشینوں کو نقصان پہنچایا۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس ہجوم میں سے ایک فرد نے ایک لیڈی ڈاکٹر کو تھپڑ بھی مارا۔ ینگ ڈاکٹرز ایسویشن پنجاب کے ترجمان ڈاکٹر محمد عمران کا کہنا ہے کہ لاہور کے کم از کم تین اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آئے ہوئے افراد نے ڈاکٹروں کے ساتھ بدتمیزی کی اور انہیں گالیاں دیں، “ہم پہلے ہی چوبیس سے چھتیس گھنٹے کی ڈیوٹی بغیر پی پی ایز کے کر رہے ہیں، جو آئیسولیشن وارڈز کے علاوہ دوسرے ڈاکٹرز یا میڈیکل اسٹاف کو نہیں دی گئیں۔ دوسری طرف ہمیں اپنی سیکیورٹی کا خوف بھی ہے۔ اسپتالوں میں جگہ نہیں ہے۔ کہیں بھی وینٹیلیٹرز دستیاب نہیں۔ ہمارے اپنے ایک ڈاکٹر وینٹلیٹرز کی عدم دستیابی کی وجہ سے وفات کر گئے ہیں۔ ان ساری مشکلات کے بعد بھی ہمیں جب لوگ شک کی نظر سے دیکھتے ہیں تو بہت افسوس ہوتا ہے۔”
ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو فوری طور پر رینجرز کے ذریعے اسپتالوں کو سیکیورٹی فراہم کرنا چاہیے۔ “اس کے علاوہ تمام ڈاکٹرز اور اسپتالوں کے عملے کو فرنٹ لائن ورکرز قرار دیکر انہیں فوری طور پر پی پی ایز اور دوسری ضروری چیزیں فراہم کرنی چاہیے۔ حکومت کو فوری طور پر وینٹیلیٹرز اور ہائی ڈیپینڈسی یونٹس کا انتظام کرنا چاہییے۔ ان کی کمی کی وجہ سے اسپتالوں میں مریضوں کے ساتھ آنے والوں کے درمیان جھگڑے ہورہے ہیں اور صورت حال مذید سنگین ہوئی تو عوام کا غصہ ڈاکٹرز اور اسپتالوں کے اسٹاف پر پڑے گا۔”
کوئٹہ سے تعلق رکھنے والے وائی ڈی اے کے ترجمان ڈاکٹر رحیم خان بابر کا کہنا ہے صرف کوئٹہ شہر میں بارہ سو ڈاکٹرز کی کمی ہے۔ “ہم نے اپنی سفارشات دے دی ہیں اور ان پوسٹوں پر بات چیت بھی ہوئی ہے لیکن ابھی تک انہیں پُر نہیں کیا گیا۔ ہسپتالوں میں اگر وینٹیلیٹرز ہیں تو سینٹرل گیس سپلائی لائن نہیں ہے، جس کی وجہ سے سیلینڈز استعمال ہورہے ہیں اور مریضوں کے رشتہ داروں میں لڑائیاں ہورہی ہیں۔ اسپتالوں میں گنجائش ختم ہوتی جارہی ہے اور لوگ یہ سمجھ رہے ہیں کہ یہ سب ڈاکٹرز کی وجہ سے ہورہا ہے۔ یہ بہت گمبھیر صورت حال ہے۔”
تاہم ڈاکٹر رحیم خان کا کہنا ہے کہ ان کی کمیونٹی اب بھی خدمت کرنے کے لیے پرعزم ہے۔ “جو ڈاکٹرز عام وارڈز میں ہیں، وہ کورونا کے وارڈز میں رضاکارانہ طور پر ڈیوٹی کرنے کی تیاری کر رہے ہیں تاکہ ڈاکٹرز کی کمی کو کسی حد تک پورا کیا جا سکے۔ تاہم حکومت کو کرونا کے لیے مذید ہسپتالوں میں وارڈز بنانے پڑیں گے کیونکہ مریضوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے۔”
اسلام آباد میں پمز سے وابستہ ایک زیرتربیت لیڈی ڈاکٹر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈی ڈبلیو کو بتایا، “ڈاکٹرز میں خوف کا ماحول ہے۔ سینئر ڈاکٹرز صرف کچھ دیر کے لیے صبح میں آتے ہیں اور اس کے بعد زیادہ تر وقت مریضوں کے ساتھ جونیئر ڈاکٹرز کو گزارنا ہوتا ہے۔ آئیسولیشن وارڈز کے علاوہ عملے کو کوئی پی پی ایز اور دوسری سہولیات نہیں، جس کی وجہ سے ڈاکٹرز اور عملے کے ارکان بھی کرونا کا شکار ہورہے ہیں۔ اسپتالوں میں گنجائش ختم ہورہی ہے۔ صورت حال پریشان کُن ہے۔”