ٹی وی پر چلنے والی خبر او ر تفصیلات دیکھ کر کلیجہ منہ کو آرہا تھا دکھ پریشانی تکلیف کے ساتھ خوف کا عنصر بھی شامل ہو رہا تھا خبر یہ آرہی تھی کہ چند اور ڈاکٹر کرونا اور سہولتوں کے فقدان سے موت کے منہ میں چلے گئے ‘ ڈاکٹروں کے جوان ترو تازہ چہرے دیکھ کر اور بھی دکھ ہو رہا تھا ڈاکٹروں کے ساتھ دوسرے میڈیکل سٹاف کی تصویریں بھی دل پر خنجر کی طرح چبھ رہی تھیں ‘ گلگت میں نوجوان ڈاکٹر کی شہادت سے یہ درد نا ک سلسلہ ایسا شروع ہو ا ہے کہ رکنے کا نام ہی نہیں لے رہا اوپر سے گورنمنٹ اور عوام کا انتہائی غیر سنجیدہ رویہ کہ کو ئی کرونا کی وبا کو سنجیدہ جان لیوا ماننے کو تیار ہی نہیں ہے عوام سے ملیں تو بہت معصومیت سے سوا ل کر تے ہیں سر یہ کرونا بیماری ہے بھی یا میڈیا نے خوف و ہراس کی فضا قائم کر رکھی ہے۔
کوئی فارما سوٹیکل کمپنیوں کی ڈرامہ بازی قرار دیتا ہے تو کو ئی امریکہ چین کی آپس کی دشمنی کا افسانہ سنانے کی کو شش کر تا ہے تو کو ئی بلند وبانگ نعرے مارتا ہوا کہتا ہے کہ یہ تو ساری بل گیٹس کی چالاکی ہے وہ کو ئی خاص سم چپ تیار کر کے افزائش نسل کے سلسلے کو منقطع کر نا چاہتا ہے اِس بات پر میرے انتہائی پڑھے لکھے دوست نے جب بہت طویل گفتگو دلائل کی گو لہ باری کے ساتھ کر لی تو میں نے عرض کی جناب کیا آپ مسلمان ہیں تو وہ بو لا الحمداللہ مسلمان ہوں تو میں نے درخواست کی اللہ کو مانتے ہیں تو غراتے ہو ئے بولا ہاں ہاں کافر نہیں ہوں تو میں نے ادب سے گزارش کی کہ جب اللہ تعالی واضح فرماتا ہے کہ میں نے حضرت آدم کے بعد تمام روحوں کو تخلیق کر دیا ہے اب تمام اپنے اپنے وقت پر بزم جہاں میں نمودار ہو نگے تو وہ بولا بات تو آپ ٹھیک کر رہے ہیں تو میں نے پھر عرض کی جناب آپ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اِس سے پہلے بھی بے شمار فرعونوں نے خدائی کے دعوے کئے تھے آج وہ گمنامی کے تاریک غار میں سناٹوں کی نظر ہیں تو وہ بولا بات تو ٹھیک ہے اوپر سے سوشل میڈیا نے تو گھر گھر میں سائنسدان دانش ور سقراط نیو ٹن آئن سٹائن پیدا کر دئیے ہیں جس کا دل کر تا ہے۔
کسی نئے زاویہ سے سوشل میڈیا پر حملہ آور ہو جاتا ہے کہ یہودی لابی یہ کر رہی ہے امریکہ بہادر بل گیٹس کا یہ ارادہ ہے ہندوستان اِس مشن پر ہے یو رپی اقوام اِس دھندے میں لگ گئے ہیں جتنے منہ اتنی لمبی زبانیں دھڑا دھڑ سوشل میڈیا پر کلپ بنا کر سماعت فراشی کے ریکارڈ توڑے جاتے ہیں بھئی سیدھی سی بات ہے موجودہ ترقی یافتہ اقوام کو مالی استحکام اور سائنسی ترقی کا بہت غرور ہو گیا تھا خدائے لازوال نے حضر ت انسان کو اُس کی اوقات یاد دلانی ہے کہ تمہاری ساری سائنسی ترقی اور مالی استحکام کی یہ اوقات ہے اب جب حق تعالی کو انسانوں پر ترس آئے وہ کسی انسان سائنسدان کے القا وجدان کی کھڑکی کو کھول کر اُس میں شفا کا نسخہ ویکسین اتار دے گا اُس وقت تک ٹامک ٹوئیوں کے ریکارڈ بنتے جارہے ہیں دوسری بات اب کرونا آگیا ہے خدا سے استغفار کے ساتھ موجودہ وسائل کے ساتھ اِس کا مقابلہ کر نا ہے۔
اِس کے مقابلے کے لیے سنجیدہ حکومتی اقدامات کی شدت سے ضرورت ہے لیکن حکومت کے مزاج کا پہلے دن سے ہی پتہ نہیں چل رہا کہ حکومت کا اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا حکومت کا اراد ہ مشن کیا ہے وہ چاہتی کیاہے اُس کے پلان میںہے کیا ایران سے آنے والے تفتان کے زائرین سے لے آج تک بد حواسیوں کا نہ ختم ہو نے والا سلسلہ ہے جو ختم ہو نے کا نام ہی نہیں لے رہا ‘ سنجیدگی کا رنگ دور دور تک نظر نہیں آرہا اگر خوردبین سے لگا کر دیکھیں تو حکومتی اقدامات دور دور تک کہیں نظر نہیں آرہے بائیس کروڑ عوام کے ریوڑ کو کھلے عام چھوڑ دیا ہے اِس کی زندہ مثال ہے۔
آپ عید سے پہلے بازاروں میں عوام کا اژدھام دیکھ کر لگا لیں لوگوں نے بازاروں شاپنگ مال پر اِس طرح دھاوا بولا جیسے پو ری دنیا میں کرونا ختم ہو گیا ہے ویکسین آگئی ہے اب کرونا کی وبا بیماری کرہ ارضی سے لپیٹی جا چکی ہے اِس طرح کھلے عام عوام نے سڑکوں بازاروں گلی محلوں شاپنگ مال پر ہلا بولا کہ خدا کی پناہ جس طرح جنگل میں چرند پرند جانور سرعام شتر بے مہار جدھر منہ سمائے بھاگے پھرتے ہیں عوام بھی اِس طرح پھر رہے ہیں بھئی مان لیا آپ لاک ڈائون کے خلاف ہو تو کیا آپ شعوری بیداری پیدا نہیں کر سکتے عام سا کام تھا ہر شہری کے لیے ماسک لازمی قرار دیا جائے یہ کام تین ماہ پہلے ہی ہو جانا چاہیے تھا کہ گھر سے جو بھی فرد کسی بھی کام کے لیے نکلے گا تو اُس کے لیے ماسک پہننا لازمی ہونا چاہیے اب آپ ہی بتائیں اِس آرڈر پر حکومت کو کیا پرابلم ہے اِس میں کو ئی اربوں ڈالر نہیں چاہیں نہ ہی حکومت نے پیسے دینے ہیں عوام نے اپنے خرچے پر ماسک خریدنے ہیں۔
آپ پولیس اور ڈولفن فورس کو اِ س کام پر لگا دیں عوام ماسک پہننا شروع کر دے گی تو جس آندھی کی رفتار سے کرونا کے مریض اور مرنے والوں کی تعداد میںاضافہ ہو رہا ہے یہ نہ ہو تا وطن عزیز کے ایوان اقتدار کی رااہداریوں میں اب ماسک سرگوشیاں شروع ہو گئیں ہیں کہ ماسک کو لازمی قرار دیا جائے یہ کام تو تین ما ہ پہلے ایک آرڈر پر ہو جانا چاہیے تھا آپ لاک ڈائون کے خلاف ہیں اِس کی ویسے تو دنیا بھر میں تو پاسداری کی جارہی ہے یہاں پتہ نہیں کن سقراطوں افلاطونوں کے ہاتھ میںیہ کس سے یا مشاورت کی کرسیوں پر کون براجمان ہیں کہ ان کا نفسیاتی پرابلم بن گیا ہے کہ نہیں لگانا اوکے ٹھیک ہے تو آپ ان علاقوں کی نشاندہی کر لیں جہاں ضرورت ہے وہاں لگا دیں جہاں ضرورت نہیں وہاں نہ لگائیں پھر ایس او پی پر سختی سے عمل درآمد شروع کرا دیں حیران کن چیز یہ سامنے آرہی ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتوں میں ایک ہی پارٹی کے نمائندے ایک دوسرے سے اختلاف کر تے نظر آرہے ہیں تشویش کا اظہار لاک ڈائون کی اہمیت تسلیم بھی کی جارہی ہے ساتھ میں پابندیاں بھی اٹھا ئی جارہی ہیں کہ عوام بھی کنفیوژن کے سمندرمیں غوطے کھاتی نظر آرہی ہے کہ کرونا ہے کہ نہیں ہمارے ملک کی بد قسمتی کا نظارہ دیکھیں کہ ابھی تک عوام اِس بحث میںپڑی ہو ئی ہے کہ کرونا ہے بھی کہ افواہ سازی یا سپر پاورز کا آپس میں کو ئی مقابلہ ہے مزاق اور غیر سنجیدگی ہماری قوم کا اجتمائی مسئلہ ہے۔
ہر بات کو ہوا میں اڑا دینا خدا کے لیے اب کرونا کو خطرناک بیماری کے طور پر مان لیں دوسری بات جو حکومت کے بس کا کام ہے وہ ہے پیرا میڈیکل سٹاف کو تحفظ دینا ڈاکٹرز اور نرسز کے ساتھ باقی سٹاف جو کرونا کے خلاف پہلی دفاعی لائین کے طور پر اِس خطرناک جان لیوا بیماری کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں اُن کو محفوظ بنا ئیں یقین مانئے جیسے ہی کو ئی خبر ٹی وی چینلز پر چلتی ہے کہ فلا ں ہسپتال کے اتنے ڈاکٹر میڈیکل عملہ کرونا کا شکار ہو گیا دل کٹ کر رہ جاتا ہے کہ یہ تو ہمارے مسیحا ہیں ہماری جانیں بچانے پر لگے ہو ئے ہیں اگر یہ ہی کرونا کا شکار ہو کر موت کا شکار ہو جائیں گے تو عوام بیچارے کہاں جائیں گے عوام تومعصوم نا سمجھ ہیں جو کچھ بھی نہیں جانتے گو رنمنٹ کو پہلی فرصت میں یہ کام ہنگامی بنیادوں پر کر نا چاہیے ان ڈاکٹرز اور میڈیکل سٹاف کو یقینی تحفظ دیں حق اور سمجھ داری تو یہ تھی کہ جب یہ وبا چین کے شہر وہان سے پھوٹ کر جنگل کی آگ کی طرح پوری دنیا کے ممالک کو اپنی لپیٹ میں لے رہی تھی۔
گورنمنٹ کو اُسی وقت اپنے میڈیکل فوجیوں کے لیے سارے سازو سامان کا بندو بست کر نا چاہیے تھا اُس وقت ہمارے پاس وقت بھی تھا لیکن اُس وقت گورنمنٹ خواب خرگوش کے مزے لے رہی تھی جب نظر آرہا تھا کہ ایران میں کرونا نے قتل عام شروع کردیا ہے اور ہماری سرحد ایران سے ملتی ہے تو اُس وقت ہمیں جاگ جانا چاہیے تھا کہ ہزاروں پاکستانی شہری مقامات مقدسہ کی زیارت کے لیے ایرانی سر زمین پر قم میں موجود ہیں کرونا کا عفریت قم میں ہی تباہی پھیلا رہا تھا یہ بھی خبریں آنا شروع ہو گئی تھیں کہ پاکستان زائرین بھی متاثر ہو گئے ہیں جنہوں نے اب پاکستان واپس آنا ہے پھر وہی زائرین اور باقی ممالک میں مقیم پاکستانی کرونا کی پنیری کے طور پر پاکستان آئے اور کرونا کی فصل پھر دنوں میں قد آور ہو کر دور دور تک پھیلنے لگی ماضی میں جو کو تاہیاں حماقتیں ہو گئیں اُن کو بھلا کر حکومت پاکستان کو ڈاکٹروں اور ہسپتالوں کو حفاظتی سامان پہلی فرصت میں پہنچانا چاہیے تاکہ فرنٹ لائن کے یہ صحت کے فوجی قوم کے سامنے سیسہ پلائی دیوار کی طرح کھڑے ہو سکیں آکر میںڈاکٹر ز اور میڈیکل سٹاف کو دونوں ہاتھوں کا سلام کہ آپ ہمارے ہیرو ہیں۔
Prof Muhammad Abdullah Khan Bhatti
تحریر : پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: [email protected] فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org