تحریر : نبیلہ نازش راؤ ڈاکٹرز کی بے حسی بے رحمی و لاپروائ کی نظر ایک اور شخص قیمتی انسانی جان اور کسی کے گھر کے کفیل کا چراغ بجھ گیا جو اپنے گھر کی کفالت کرتا تھاایسا چراغ گل ہوا کہ اس کہ وارث دال روٹی سے بھی آج تنگ ہیں-یہ ایک سولیہ نشان ہے حکمرانوں کے لیے????کیا انسان کی کوئ قدرو قیمت نہیں.”شاعر مشرق ڈاکڑر علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر ملی مگر حقیقت میں اس خواب کو وسعت نہ ملی اور ان کے خواب جو شرمندہ و تعبیر ہوا- دیکھا جائے تو ان کے خوابوں کو صیح معانیوں میں تعبیر نہیں ملی جس کا انہوں نے تصور کیاتھا- قاد اعظم محمد علی جناح جنہوں نے انگیرزوں اور ہندوؤں کے خلاف انتھک محنت اور جہدو جہد کی ار ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد آزاد مملکت اسلامی جہموریہ پاکستان بنایا ارو کہا کہ نئ نسل اس ملک کی معمار اور اہم ستون ہو گی-مگر اس قوم ککے معمار صرف اور صرف پیسہ کمانے کے چکر وں میں ملک اور قومو ملت کو نقصان پہنچانے میِں عمل پیرا ہیں- ملکی بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور بناننے اور دہشت گروں کو مضبوط بناننے میں سرگرداں ہے-افسوس قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامی جہموریہ اس لیے بنایا کے قوم آزاد اور خود مختار ہو – اور اسلامی اصلوں اور قانون کے مطابق چلایا جائےاور بڑے ہی دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے اس آزاد مملکت کو اصولوں اور قانون سازی کے مطابق چلانے والا حکمران آج تک نہیں مل سکاجو اس ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں با عزت کھڑا کر سکے۔
غریب عوام کی زندگیوں سے کیھل رہے ہیِں انھیں پکڑنے والا کوئ ایسا منصف نہیں جو سزا دے…عوام کا کیا ہے..چکی کے دو پاٹوں میں پیس رہی ہے جس حکمران کا دل چاہا جھوٹے سچے وعدے کر لیے بعد میں کرسی سنبھالنے پر وعدے اور عوام کو بھول گئےعوام زیادہ سے زیادہ اتجاج کر لیتی ہے جو بے سود ثبت ہوتی ہے یا پھر رؤ پیٹ کر صبر کرتی اور اپنے پیاروں کی میت لے جا کر تدفین کر دیتی ہے-ڈاکڑز کا غریب عوام کے ساتھ نہ زیبا اور سنگدلانہ رویے کا اخبارات و ٹی وی پردہ فاش کرتے اکثر اوقات دکھائے جاتے ہیں -لیکن ان پر آھ تک کسی حکمران نے ایکشن نہیں لیانہ ہی عمل و درآمد نہیں کا گیا-میں نے خود اپنی آنکھوں سے دل دوز اور رونگھٹے کھڑے کر دینے والا واقعہ دیکھا ہوا یوں کی میں ہسپتال کے باہر گیٹ تک پہنچی ہی تھی کہ ہسپتال باہر گیٹکہ چیخنے چلانے کی آوازیں دل کو دھلا رہی تھیں مجھے گیٹ عبور کرنا مشکل ہو گیا -جدھر سے رونے دھونے کی آوازیں دل ہلا رہی تھیں ان آوازوں کی سمت مجھے نوڑنے پر مجبور کر دیا-میں بے اختیار دی ہو لمبے لمبے قدم بھرتی جب میں ان روتی پیٹتی خواتین تک پہنچی تو دل ڈوب سا گیا-کافی دیر تک کچھ سمجھ نہ آیا کسسے پوچھوں کہ کیا ہوا ہے??مجمے کو چیرتی ذرا سا آگے بڑھی تو چند خواتین اپنے منہ پر اپنے ہی تھپڑ رسید کر رہی تھیں اور ان کہ چہرے ہوش و حواس سے بیگانہ کچھ خبر نہیں کہ وہ کیا کر رہی ہیں۔
ایک بہت بڑا ہجوم کو ہٹاتی ان خواتین تک رسائ حاصل کرنے کی تگو دوڑ کے بعد ایک خاتون کو بولنے اور کچھ بتانے پر مجور کر سکی- وہ اتنا ہی بتا سکی کہ اس کے نوجوان بھائ کو اچانک نہ جانے کیا ہوا گھر درد سے تڑپنے لگا حالت بہت خراب ہوئ تو ہم لوگ سرکاری ہسپتال لے آئے – جب ہم لوگ یہاں پہنچے تو کوئ ڈاکڑر ٹیوٹی پر موجود نہیں ابھی تک کسی ڈاکڑ کو ہم نے نہیں دیکھااور نہ ہی کسی ڈاکڑر نے آکر چیک کیاکہ ڈاکڑر آکر چیک کر کے بتائے مریض کو کیا ہوا ہے- کوئ وارث نہ کوئ مسیحا بنتا جو میرے بھائ کو بچا سکے-ان کے ساتھ آنے والے مرد بھی غم ے نڈھال گرم زمین کے فرش پر لیٹے روتے ہوئے ایک ہی لفظ بار بار دہرا رہے تھے کہ یہاں سرکاری ہسپتال میں ہمارے بھائ کا کوئ علاج کرنے وزلا نہیں ایمر جنسی مریض کو چیک کرنے ابھی تک کوئ ڈاکڑر نہیں آیا- میں بھی ایمرجنسی مریض کو دیکھنے وارڈ میں گئ رش کی اتنا کے پاؤں دھرنے کی جگ نہیں بمشکل جگہ بنا کر وارڈ تک پہنچنے میں کامیاب ہوئ- وہاں جا کر دیکھا حیران ہی رہ گئ مریزض بے خبر بینچ پر لٹایا ہوا تھا -ڈاکڑز کی عدم موجودگی جو عملہ وہاں وجود تھا وہی اس مریض پر جھکا اس کے سینے کو دبادبا کر دیکھ رہا تھامریض کی سانسیں رہی ہیں کہ نہیں موت اور زندگی کی کشمکش میں مریض بے یارو مدد گار ڈاکڑوں کے رحم و کرم منتظر تھا-لوگ چہ مگویئاں کر رہے تھے کہ مریض اپنی زندگی سے ہاتھ دھو چکا ہے۔
Doctor Receive Dollars
ادھر عملہ بھی مایوس دکھائ دے رہا تھا پھر بھی اپنی بھر پور کوششوں میں لگا مریض کے سینے پر مسلسل دباؤ برقرار رکھے ہوئے تھا-وہاں حجوم کو اپنے قدموں پہ کھڑا ہونا مشکل ہو گیا۔ انہیں اپنی فیس سے غرض ہوتی ہےمریض سے نہیں وہ مرے یا جیئے جو غریب لوگ فیس ادا کرنے کی استعاہ نہیں رکھتے وہ سرکاری ہستالوں کی جانب دوڑ لگاتے نظر آتے ہیں-جہاں اعلٰی عہدداران سے ڈاکڑز اور سیپر سے لے کر ڈاکڑز کے کمرے کے دروازے پر کھڑے پی اے تک کا رویہ انداز لب و لہجہ اس قدر ہتھک آمیز ہوتا ہے کی وہاں جانے والے مریض مایوسی اور بدظنی کا شکار ہو جاتے ہیں لیکن غریب لوگوں کی مجبوریاں انہیں پھر سرکاری ہسپتالوں کی طرف جانے پر مجبور کر دیتی ہیں-اوپر سے لے کر نیچے تک کا عملہ حکومت کو دونوں ہاتھوں سے لوٹ رہا ہے.حکومت سے سرکاری ڈاکڑز کس حق کی بنا پر ہر ماہ بھاری تنخواہیں وصول کر رہی ہے اور حکومت ادا کر رہی ہے…حکومت خود کرپڈیڈ ہے دونوں ہاتھوں سے ملک کو لوٹ رہی ہے…وہ عوم و ملک کی خیر خواہ نہیں تو پھر کس سے خیر خواہی کی اُمید رکھی جائے یہ ایک سوالیا نشان ہے???سرکاری ہسپتالوں میں عوام ک کسی قسم کی سہولیات مّیسر نہیں-بیھٹنے کو وہاں بینچ نہ کرسیاں ہیں یہ سب اسٹور رومز میں رکھی دیمک کی خوراک بن رہی ہیں- مقصد حکومت سے اسی بہانے پیسہ بٹورا جائے اور ہسپتال انتظامیہ کی بھی جیب گرم ہو جائے۔
حکومت کروڑوں روپے کی ادوایات سرکاری ہسپتالوں میں فراہم کرتی ہے غریب عوام کو دی جا سکیں لیکن وہ دوایئاں کسی بھی مریض کوملتیں نہ دی جاتی ہیں -کہاں جاتی ہیں حکومت کو با خبر رہنا چاہیے یہ نیہں کہ ہسپتالوں کو پہنچا کر خود خواب خرگوش کے مزے لوٹے آنکھیں بند کیے خبر ہی رہے اور خبر نہ لے- اول تو سکاری ہسپتالوں میں ڈاکڑز آتے ہی نہیں اگر بھول بسر کر آجایئں تو اپنے کمروں سے باہر ہی نہیں نکلتے اور کہلاوا دیا جاتا ہے.کہ ڈاکڑز صاحب ابھی نہیں آئے.یا پھر ڈاکڑز آفیس میں چائے سے لطف اندوز ہوتے اور گپ شپ کرتے رہتے ہیں- کچھ ڈاکڑز تھوڑا بہت وقت مریضوں کو دے کر احسان جیتاتے اپنے پرایئویٹ کلینکوں کا رخ کرتے ہیں جہاں مریض ان کے منتظر ہوتے ہیں-یہ ڈاکڑز اپنی مرضی کے مالک یوتے ہیں ..سرکاری ہسپتالوں میں اکثر ایسے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں کہ ڈاکڑز کی عدم موجودگی میں فوری طبی امداد نہ ملنے پر اموات ہوتی رہیتی ہیں-جنہیں اکثر و پیشتر ٹی وی چینلز بڑی کوریج دی جاتی رہیں ہیں-اور اخبارات میں روپوٹس شائع ہوتی رہیتی ہیں۔
کیا وہ سب حکومت نظر سے نہی گزرتیں اور ٹی وی پر نشر ہونے والی سٹوری انہیں سنائ نہ دکھائ دیتا یے سوچنے کی بات ہے??سب حکومت پڑھتی اور سنتی دیکھتی ہے اس کے باوجود حکومت کے کانوں پر جوں تک نہیں رینگتی اور نہ ہی ڈاکڑز ان سبق آموز واقعات سے سبق سیکھتا ….کالم انسانیت..برائ کوئ بھی ہو خواہ وہ معاشرتی یا غیر معاشرتی بُرائ تو برائ ہوتی ہے بہت ساری ایسی معاشرتی اور سماجی برایئاں جو ہمارے معاشرے کو دیمک کی طرح چاٹ رہی ہیں یہ برایئا ں اس قدر بڑھ گئ ہیں کہ ان کی روک تھام کرنا تو در کنار انہیں ختم کرنا دشوار ہی نہیں نا ممکن ہو گیا ہے-اگر ہم سب چاہیں تو برائ سے جنم لینے والی معاشرتی سماجی برایئوں کو جڑ سے اکھاڑ کر پھنک سکتے ہیں -مگر ایسا کرنے قدم سے قدم بڑھاتے ہوئےاس عمل میں کون آگے آئے گا-کیو نکہ جو لوگ ان برایئو ں کو جنم دیتے ہیں وہی کاندھے سے کاندہ ملا کر ان کی پیروی کرتے دکھائ دیتے ہیں یہی وجہ ہے کہ ان پر قابو پانا انتہائ مشکل عمل ہو چکا ہے-اسی وجہ سے میں برایئوں کے دروازے کھلتے چلے گئے انہیں برایئوں میں سے ایک بہت بڑی معاشرتی برائ ڈاکڑز ہیں- جو اس پاکیزہ اور مقدس شعبے ے وابستہ ہیں وہ انتہائ غیر ذمہ داری کا ثبوت دے رہے ہیں اور بے حسی و بے ظمیری ان کے پیشے میں منتقل ہو چکی ہے۔
Doctor Check Patient
یہ وہ احساس خدمت خلق ادارہ ہےجس سےمنسوب ڈاکڑز انسانیت کی خدمت کو اپنا نصب العین بنانے کی بجائے قصاب بن چکے ہیں- یہ وہ قصاب جو سرکاری و غیر سرکاری ڈاکڑز ہیں – اپنے شعبے سے منسلک ہو کر انصاف و فرائض کو ایمانداری سے نبھا رہے ہیں یہ پیشہ ور ڈاکڑز انسانیت کی خدمت کرنے کی بجائے انسانیت کا سر عام قتل کر رہے ہیں. .انہیں کوئ پوچھنے نہ روک ٹوک کرنے والا ہے یہ وہ قصاب ہیں جو غریب عوام کے گلوں پر جانوروں کی طرح چھری پھیرتے بے دردی سے زیبا کرتے ہوئے اپنی آمدنیوں بڑھا اور کلینکوں کو چمکا رہے ہیں – غریب عوام کی آمدنی اتنی نہیں ہوتی ہے کہ ایک وقت کی دال روٹی کمانا اور دوزخ جیسے پیٹ کو بھرنا آسان نہیں ان کے چہلے ہی بمشکل چلتے ہیں-مہنگے ترین پرایئویٹ علاج کیسے کروا سکتے ہیں-پرایئویٹ علاج کروانا ان کے لیے ممکن نہیں ہوتا پرایئویٹ ڈاکڑز بھی جب تک کیس نہیں پکڑتے تب تک بھاری بھرکم فیس ان کی ہتیھلی پر نہ دھر دی جائے۔
ڈاکڑز کی بے حسی بے رحمی و لاپروائ کی نظر ایک اور شخص قیمتی انسانی جان اور کسی کے گھر کے کفیل کا چراغ بجھ گیا جو اپنے گھر کی کفالت کرتا تھاایسا چراغ گل ہوا کہ اس کہ وارث دال روٹی سے بھی آج تنگ ہیں-یہ ایک سولیہ نشان ہے حکمرانوں کے لیے????کیا انسان کی کوئ قدرو قیمت نہیں.”شاعر مشرق ڈاکڑر علامہ اقبال کے خواب کو تعبیر ملی مگر حقیقت میں اس خواب کو وسعت نہ ملی اور ان کے خواب جو شرمندہ و تعبیر ہوا- دیکھا جائے تو ان کے خوابوں کو صیح معانیوں میں تعبیر نہیں ملی جس کا انہوں نے تصور کیاتھا- قاد اعظم محمد علی جناح جنہوں نے انگیرزوں اور ہندوؤں کے خلاف انتھک محنت اور جہدو جہد کی ار ایک طویل جنگ لڑنے کے بعد آزاد مملکت اسلامی جہموریہ پاکستان بنایا ارو کہا کہ نئ نسل اس ملک کی معمار اور اہم ستون ہو گی-مگر اس قوم ککے معمار صرف اور صرف پیسہ کمانے کے چکر وں میں ملک اور قومو ملت کو نقصان پہنچانے میِں عمل پیرا ہیں۔
Quaid e Azam
ملکی بنیادوں کو کھوکھلا اور کمزور بناننے اور دہشت گروں کو مضبوط بناننے میں سرگرداں ہے-افسوس قائد اعظم محمد علی جناح نے اسلامی جہموریہ اس لیے بنایا کے قوم آزاد اور خود مختار ہو – اور اسلامی اصلوں اور قانون کے مطابق چلایا جائےاور بڑے ہی دکھ کے ساتھ لکھنا پڑ رہا ہے اس آزاد مملکت کو اصولوں اور قانون سازی کے مطابق چلانے والا حکمران آج تک نہیں مل سکاجو اس ملک کو ترقی کی جانب گامزن کرے اور ترقی یافتہ ممالک کی صف میں با عزت کھڑا کر سکے۔