ھمارے ملک میں کورونا وائرس سے بگڑتی ھوئی موجودہ صورت حال میں ہمارے ڈاکٹرز اور معاون طبی عملے کی حفاظت کو یقینی بنانا وقت کی اہم ضروت ھے۔ حالیہ دنوں میں کچھ ایسی خبریں سامنے آرہی ھیں جو کہ کسی طرح بھی ہماری حق میں بہتر نہیں بتائی جا رہی ہیں کہ کورونا وائرس سے بچائوکے لیے حفاظتی کٹس تیار کرنے والا کپڑا ملک میں نایاب ہوتا جارہا ہے ۔محدود سٹاک اور بڑھتی ھوئی مانگ کے پیش نظر کپڑے کے نرخوں میں بھی اضافہ کی شکایات سامنے آرہی ہیں جب کے وقت کی ضرورت ہے کہ حکومت مخصوص کپڑے کی وافر مقدار میں سٹاک کی دستیابی کو فوری طور پر یقینی بنائے۔چائنا نے اس سلسلے میں ہماری بھرپور امداد کی ہے تاہم یہ حفاظتی کٹس موجودہ ایمرجنسی کے حالات میں ناکافی بتائی جارہی ہے اس مشکل اور صبر آزما صورت حال کی نزاکت کوسمجھتے ھوئے حکومت فوری طور پر پائیدار منصوبہ بندی کرے اور جو اشیاء مقامی طور پر تیار کی جا سکتی ہیں ان کی تیاری کو یقینی بنائے ۔
سندھ حکومت کی کارکردگی اس سلسلے میں نمایاں نظر آرہی ہے کہ انہوں نے دس ہزار حفاظتی کٹس کا آرڈر دیا ھے جبکہ وفاقی حکومت روایتی سست روی کا شکار نظر آرہی ہے اس وقت پرسنل پروٹیکشن ایکوپمنٹس (PPE) کی اشد ضرورت محسوس کی جا رہی ہے جس سے ڈاکٹرز اور دیگر سٹاف کی زندگیوں کو محفوظ بنایا جاسکتا ہے ۔ہمارے ڈاکٹرز اور پیرا میڈیکل سٹاف پہلی دفاعی لائن ہیں جن کی حفاظت کیے بغیر ہم یہ جنگ نہیں جیت سکتے ۔ہمارے سامنے ینگ ڈاکٹر اسامہ کی مثال موجودہ ہے جو کورونا وائرس کی سکریننگ پر مامور تھے لیکن ان کے پاس مناسب حفاظتی آلات نہ ہونے کی بنا پر وہ کورونا وائرس کا شکار ہو کر اپنے خالق حقیقی سے جا ملے ۔اس پر بعض سینئر ڈاکٹرز نے عدم تحفظ کا اظہار کرتے ہوئے کئی سوالات اٹھائے۔ کہا جارہا ہے کہ ڈاکٹر اسامہ کے پاس (PRC) حفاظتی کٹس ہوتی تو وہ اس حادثے کا شکار نہ ہوتے لیکن اس طرف توجہ نہ دی گئی ۔موجودہ حالات میں ڈاکٹرز کے مطابق 95 Nماسک, گلوز , فیس شیلڈز , پروٹیکٹو گاگلز ,شوکورز کی قلت کا سامنا ہے مشکل کی اس گھڑی میں قوم کے ان مسیحائوںکی زندگیوں کی حفاظت کو یقینی بنانے کے لیے حکومت ہنگامی بنیادوں پر دیر پا لمبی منصوبہ بندی کرے ۔
ملک میں کورونا وائرس کی حالیہ تباہ کاریوں سے جو چہارسو دھشت پھیلی ہوئی ہے اس کے المناک نتائج سامنے آرہے ہیں اخبارات کی حالیہ رپورٹ کے مطابق کراچی سے جو واقعہ رپورٹ ہوا ہے اس کے مطابق کشمیر کالونی کراچی کے ایک رہائشی سرفراز نامی شخص جو کئی دنوں سے کھانسی ,نزلہ ,اور زکام کے مرض میں مبتلا تھا اور وہ کسی اتائی ڈاکٹر کے پاس چیک اپ کرانے گیا۔ جس نے سرفراز کو بتایا کہ اس میں کورونا وائرس کی علامات ہیں لہذا وہ ضلعی انتظامیہ کو اس بات کی خبر نہ ہونے دے ورنہ اسکو اس کی فیملی سے دور کہیں قرنطینہ سینٹرمیں پھینک دیا جائے گا۔ سرفراز نے اپنی بیماری کو کسی پر آشکار نہ ہونے دیا اور خود کو فیملی سے الگ کرلیا اس کے گھر میں اس کی بیوی اور دو کم سن بچیاں تھیں کو اصل صورت حال بتائے بغیر آئسولین میں چلا گیا ۔ سرفراز جو ایک مقامی پیٹرول پمپ پر ملازم تھا اور لاک ڈاون کی صورت حال میں مالی مشکلات کا بھی شکار تھا اچانک ایک دن ڈپریشن میں آکر اس نے اپنے گلے میں پھندا لگایا اور چھت سے جھول گیا ۔بدقسمتی سے ہمارے ہاں کورونا وائرس کی وباء کو ایسے خوفناک انداز میں پیش کیا جارہا ہے کہ ہر دوسرا شخص معمولی کھانسی اور زکام کو بھی کورونا وائرس کی وباء سمجھ کر خوف کا شکار نظر آتاھے ۔بقول شاعر
ہر ایک جسم میں موجود د ہشت پا کی طرح وباء کا خوف ہے خود بھی کسی وباء کی طرح
خوف و ہراس کے اس عالم میں ایسی بھیانک کہانیاں سامنے آرہی ھیں جس کا تقاضا ہے کہ ھم ایک ذمہ دار شہری کا ثبوت دیں یہ جنگ عوام نے ہی جیتنی ہے اور عوام نے ہی ہارنی ہے خداراہ خوف و ہراس پھیلانے سے گریز کیا جائے اور اس وباء کا حوصلے سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے خاص طور پر سوشل میڈیا پر ذمہ داری کا ثبوت دیا جاتا۔ تاہم کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ وہ خوف و ہراس پھیلا کر کر لوگوں کو گھروں میں محدود کر لیں گے یہ طریقہ درست نہیں ہے۔
ھمارے سامنے سرفراز نامی شخص کی خودکشی کا واقعہ ایک سبق ھے ان لوگوں کے لیے جو ایسا کر کے سنسنی پھیلا رہے ہیں۔بات چل رہی تھی ڈاکٹر اور پیرا میڈیکل سٹاف کی حفاظتی اقدامات کے حوالے سے تو ایک رپورٹ سامنے آئی ہے کہ پاکستانی ماہرین کا اندازہ ہے کہ آئندہ تین چار ماہ کورونا وائرس کے حوالے سے نہایت اہم ہیں اور لاکھوں افراد اس مرض سے متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔ این ڈی ایم اے کے ذرائع کے مطابق اس وقت وینٹی لیٹر، ماسک، پرسنل پروٹیکشن کٹس کی شدید کمی کا سامنا ہے جس کے لیے ھنگامی بنیادوں پر اقدامات اٹھائے جارہے ھیں جو ہیلتھ کئیر سسٹم کے لیے ضروری ہیں۔