اردو ادب میں پطرس بخاری، ابن انشاء اور مولوی نظیر احمد جیسے ادیب کتوں کے بارے میں پہلے ہی اتنا کچھ لکھ چکے ہیں کہ اب مزید کچھ لکھنا ممکن نہیں رہا البتہ میرے خیال میں ”کتاپن” کے بارے میں لکھنے کی گنجائش نظر آتی ہے۔ کتا وفادار تو کہلاتا ہے مگر اس میں بعض عادتیں ایسی پائی جاتی ہیں جو اس کی وفاداری پر پانی پھیر دیتی ہیں۔ چوں کہ وہ نسلاً کتا ہوتا ہے، اس لیے اس کی سوچ بھی کتوں والی ہوتی ہے اور ہمیشہ کتا ہی رہتا ہے۔ زمانہ بچپن کا ہے اور سڑک کنارے ایک کتا بیٹھا ہے۔ راقم اس کے قریب سے گزرتا ہے اور مڑ مڑ کر پیچھے دیکھتا ہے کہ کہیں وہ اپنا ”کتاپن” ہی نہ دکھا دے لیکن کتا بڑے مزے سے بیٹھا رہتا ہے۔
جب کوئی چالیس پچاس قدم چلا گیا اور دھیان بھی کتے کی طرف سے ہٹ گیا تو اُس ”کتی کے بچے” نے پیچھے سے آ کر کاٹ لیا۔ بس اُس دن سے ہی ہمارے دل میں کتوں کے خلاف نفرت پائی جاتی ہے لیکن اگر اس جانور سے انسانوں میں سرایت کر جانے والی خطرناک بیماری کتاپن یا کتا خوری کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ نہ صرف کتوں کے ساتھ زیادتی ہوگی بلکہ ان کی تاریخ بھی ادھوری رہ جائے گی۔ کتاپن ایک ایسی بیماری ہے جیسے آوارہ پن، ضدی پن، بھگوڑا پن، بھکاری پن، ڈھیٹ پن، دوغلہ پن یا کمینہ پن جبکہ کتا خوری کو سمجھنے کیلئے رشوت خوری، حرام خوری، بھتہ خوری، مفت خوری، سود خوری اور چغل خوری کو سمجھنا ضروری ہے۔
بلاشبہ یہ تمام بیماریاں بہت سے لوگوں میں پائی جاتی ہیں لیکن فرق صرف اتنا ہے کہ کتا پن یا کتا خوری انسانوں میں اُس جانور کی نسبت سے منتقل ہوئی جسے عرف عام میں کتا کہا جاتا ہے۔ قصہ تو یوں صدیوں پرانا ہے، کہتے ہیں کہ شاہی دور تھا۔ ایک دفعہ ایک نیک دل بادشاہ شکار کیلئے کسی دور دراز جنگل کی طرف سفر کرتا ہے۔ کچھ عرصہ سیر و شکار کے بعد واپس اپنی سلطنت کی طرف عازم سفر ہے۔ ایک شام بادشاہ اور اس کے قافلے کا گذر ایک بستی کے قریب ہوتا ہے۔
وہاں اُسے کتوں کے بھونکنے کی آوازیں سنائی دیتی ہیں۔ بادشاہ کو بہت سے کتوں کا ایک ساتھ بھونکنا انتہائی ناگوار گذرتا ہے اور وہ اپنے وزیر سے اس بابت دریافت کرتا ہے کہ یہ کتے کیوں بھونک رہے ہیں۔ وزیر بادشاہ کے غصے کو فوراً سمجھ جاتا ہے۔ وہ بادشاہ کی فیاضانہ عادت کو مدنظر رکھتے ہوئے عرض کرتا ہے، بادشاہ سلامت! یہ کتے بھونک نہیں رہے بلکہ بھوک کی وجہ سے رو رہے ہیں۔ بادشاہ کی سخاوت اور دریا دلّی کے چرچے عام تھے، اس لیے کتوں کا اس کی سلطنت میں بھوکا رہنا اسے اپنی توہین لگا۔ وہ افسردگی کے عالم میں وزیر کو حکم دیتا ہے کہ پورے شہر میں منادی کرا دو کل تمام لوگ اپنے کتے لے کر دربار میںآئیں اور انہیں پیٹ بھر کر کھانا کھلائیں۔
بادشاہ نے پورے ملک کے کتوں کی دعوت کا اہتمام کرنے کا فرمان بھی جاری کر دیا۔ باورچیوں نے حکم ملتے ہی تمام کتوں کیلئے انتہائی اعلیٰ قسم کا کھانا تیار کیا۔اگلے دن شاہی دعوت کیلئے وقت کی پابندی کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تمام لوگ کتوں کو لا چکے۔ کھانا تیار ہے اور کتوں کیلئے رنگ برنگے کھانے دسترخوان پر سج گئے ہیں۔ اب بادشاہ کے حکم کا انتظار ہے کہ کب ان کو چھوڑا جائے۔ جب کتوں کو کھانے پر چھوڑا گیا تو تمام کتے ایک دوسرے کے ساتھ لڑ پڑے۔کسی کتے کا پائوں دوسرے کا منہ ، کسی کی گردن دوسرا کتا دبوچے ہوئے ہے، کوئی کتا دوسرے کی دُم کاٹ رہا ہے۔
تو کوئی کان چبا رہا ہے۔ کتوں کے ساتھ ساتھ دربار اور دسترخوان بھی خون سے لہولہان ہو چکے ۔ بادشاہ حیران ہو گیا کہ اتنے لذیذاور عمدہ کھانوں کے ہوتے ہوئے کتے آپس میں لڑ کر ایک دوسرے کا بدن کیوں نوچ رہے ہیں۔ اُس نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے وزیر سے دریافت کیا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔ وزیر نے سہمے ہوئے عرض کی، بادشاہ سلامت! یہ کتے ہیں اور اپنا کتاپن دکھا رہے ہیں کیونکہ ایسا کرنا ان کی عادت اور فطرت میں شامل ہے اور یہی کتا پن کی اصل پہچان ہے۔
fight
انسان کی بری عادات میں سے ایک کتاپن بھی ہے۔ بظاہر یہ ایک ایسی بیماری ہے جسے ڈاکٹر بھی سمجھے سے عاری ہیں لیکن اس کی تشخیص کا پتا اُس وقت چلتا ہے جب سیمیناروں، مذاکروں، کانفرنسوں اور دوسری قسم کی تقریبات کے بعد کھانا کھلتا ہے۔ لوگ کھانے پر ایسے ٹوٹ پڑتے ہیں جیسے دشمن کی مار کٹائی ہو رہی ہو۔ چند منٹوں میں کشتی کے سارے دائو پیچ، جوڈو کراٹے، ہر طرح کی زور آزمائی سپیڈوں سے جاری ہو جاتی ہے اور تاثر یہ مل رہا ہوتا ہے کہ جیسے ان لوگوں کو آج ہی کھانے کو ملا ہے۔کتا خوری کی مرض میں مبتلا مریض کسی کی شادی میں کھانا کھانے کے دو اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہیں۔
یعنی پہلی بار اس طرح کھائو کہ دوسری بار ملے گا نہیں اور دوسری بار اس طرح کھائو کہ پہلی بار ملا ہی نہیں۔ صرف شادی اور دیگر تقریبات کے پُرتکلف اور عمدہ کھانے ہی نہیں بلکہ کتا پن کی کئی دیگر نشانیاں بھی ہیں۔ ایک کسان نے گدھا اور کتا دونوں پال رکھے تھے۔ ایک بوجھ اٹھانے کے کام آتا اور دوسرا گھر کی رکھوالی کرتا۔ دونوں کو اپنی اپنی حد میں رہ کر کردار ادا کرنے کی ذمہ داری سونپی گئی۔ ایک دن گھر میں چور داخل ہو گیا، ڈیوٹی کتے کی تھی کہ آواز سن کر بھونکنا شروع کر دے مگر وہ آرام سے سویا رہا۔ گدھے نے کتے کو جگا کر اسے فرائض سے آگاہ کرنا ضروری سمجھا اور بتایا کہ گھر میں چور گھس آیا ہے۔
کتے نے ایک آنکھ کھول کر کہا میرا گلا خراب ہے اور مست ہو کر دوبارہ سو گیا۔ گدھے کو اپنے بزرگوں کی نصیحت یاد آ گئی کہ جس کا کھائو اُسی کا گائو۔ اُس نے سوچا آج مالک کی ہمدردی حاصل کرنے کا بہترین موقع ہے۔ کتے پر چونکہ اُس وقت کتاپن سوار تھا، اس لیے گدھے نے زور سے آوازیں نکالنا شروع کر دیں۔ چور گدھے کی آواز سے گھبرا کر بھاگ گیا لیکن مالک اس بے وقتی راگنی سے پریشان ہو کر اُٹھ بیٹھا اور گدھے سے کہا! او بیوقوف گدھے سونے کیوں نہیں دیتا۔ گدھے نے سینا تان کر کہا جناب گھر میں چور آگیا تھا۔
اس لیے میں نے آپ کو خبردار کرنا ضروری سمجھا۔ مالک نے موٹا سا ڈنڈا پکڑ کر گدھے کی پٹائی شروع کر دی کہ یہ تیری ذمہ داری نہیں، کتا چونکہ آرام سے سویا ہوا ہے اس کا مطلب ہے کہ چور نہیں آیا۔ کتا بڑے مزے سے کانی آنکھ کے ساتھ مالک کے ڈنڈے سے گدھے کی مرمت ہوتا دیکھتا رہا۔ جب مالک چلا گیا اور گدھا رو رہا تھا تو کتے نے اظہار ہمدردی کرتے ہوئے اس سے کہا ”آج کل کا انسان بہت بے رحم ہے، اس کی انتہاپسندی میں اتنی وفاداری ٹھیک نہیں۔
تم سارا دن بوجھ اُٹھاتے ہو اور رات کو پٹائی ہوتی ہے جبکہ میں صرف مالک کے آگے دُم ہلاتا ہوں، مالک مجھے موتی کہہ کر پکارتا ہے اور تجھے گدھا کہتا ہے۔ تم ہمیشہ گدھے پن کا مظاہرہ کرتے ہو کبھی کتاپن بھی دکھا دیا کرو۔” ہمارے لیے یہ سوچنے اور سمجھنے کی بات ہے کہ جب کتے اپنی عادات و اطوار تبدیل نہیں کر سکتے تو ہم اپنی انسانی عادات تبدیل کرکے ”کتے پن” کا مظاہرہ کیوں کرتے ہیں۔